پاکستان پیپلز پارٹی کے 50 سال

شبیر احمد ارمان  جمعـء 14 دسمبر 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

نصف صدی قبل 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشرحسن کی قیام گاہ پر ذوالفقارعلی بھٹوکی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی تیسری نسل کا کارواں بلاول بھٹو کی قیادت میں رواں دواں ہے۔ قبل ازیں قیادت بالترتیب ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اورآصف علی زرداری کرتے آ رہے تھے۔

سینئر سیاست دان، ریفرنس کتاب کراچی پیپرز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 50 سال کے مصنف اقبال یوسف نے1969ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی اور پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی رہے۔ سندھ کے سیکریٹری جنرل ،کراچی کے صدر اور پھر اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ عبد اللہ شاہ کے مشیر بھی رہے، ہمیشہ پارٹی نظریے کے علمبردار رہے اور نامساعد حالات کے باوجود کبھی بھی اپنے نظریے کو ترک نہ کیا بلکہ اپنے اصولی سیاست کی نظریے پر قائم و دائم رہتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آج بھی اپنے سیاسی نظریے پر قائم ہیں۔

گزشتہ دنوں اقبال یوسف کی کتاب ’’پاکستان پیپلزپارٹی کے پچاس سال‘‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی، جہاں پی پی پی کی ممتاز سینئر رہنماؤں، دانشوروں اور سینئر صحافیوں کو سننے کا موقع ملا جس کی روداد میڈیا میں آ چکی ہے۔ اقبال یوسف نے اپنی اس کتاب میں پی پی پی کے پچاس سال کی تاریخ کو بڑے مدلل انداز میں تحریرکیا ہے۔

یہ کتاب ملکی سیاست کے حوالے سے ایک ریفرنس بک ہے، دراصل یہ کتاب ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جو ایک ماہانہ رسالے میں شایع ہوتے رہے ہیں ۔ مصنف اقبال یوسف نے کتاب کو پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی تیسری نسل کے نام کیا ہے۔ 352 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 12 ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب اپنے اندر بیش بہا معلومات لیے ہوئے ہے، جو پی پی پی کے قیام سے لے کر اور ملکی سیاست کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں بہت ساری یادگار تصاویر بھی ہیں جو رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ ہیں جو ماضی کی یادوں کو تازہ کرتی ہیں ۔ اس کتاب سے کچھ اقتباس نذر قارئین ہیں۔

مصنف اقبال یوسف لکھتے ہیں کہ ’’پیپلز پارٹی کا دوسرا نام بھٹو ہے، بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے لیے عظیم خدمات، طویل جدوجہد اور لازوال قربانی، بیگم نصرت بھٹوکی مثالی جدوجہد، اس پارٹی کے کارکنوں کی مسلسل جدوجہد اور قابل فخر قربانیاں، پھر بھٹوکی بیٹی دختر مشرق اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بینظیربھٹوکی شہادت نے پاکستان پیپلز پارٹی کو امرکر دیا۔ آج ذوالفقارعلی بھٹوکے نواسے بلاول بھٹو پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

5 جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہونے والے پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے سیاسی امور سے وابستگی کا آغاز 1957ء میں ایک بیرونی ملک کے دورے میں پاکستانی وفد میں شرکت سے ہوا اور اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف کرواتے ہوئے ایوب خان کی مرکزی کابینہ میں شمولیت اختیارکی۔ جنگ ستمبرکی جنگ بندی اور جنرل ایوب خان کی تاشقند میں بھارت سے معاہدہ تاشقند پر ایوب خان سے شدید اختلاف کی وجہ سے بھٹو نے استعفیٰ دے دیا۔ عوام میں ان کی زبردست پذیرائی ہوئی عوام کی محبت نے ان کو مجبورکر دیا کہ وہ سامراجی گماشتوں کے چنگل سے پاکستان کے عوام کو آزاد کرائیں اور استحصال زدہ عوام اور مملکت پاکستان ترقی وتعمیر کے لیے آگے بڑھیں اور نئی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔

30  نومبر 1967ء کو دو روزہ اجلاس میں پارٹی کی بنیادی دستاویز پیش کی گئیں۔ پارٹی کے چار بنیادی اصول طے کیے گئے۔ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ اجلاس میں پارٹی کا سہ رنگا پرچم منظورکیا گیا، سرخ، سیاہ اور سبز۔ لال رنگ جدوجہد کی علامت، سیاہ رنگ سماج پر چھائی ظلم اور ناانصافی کی علامت اور سبز رنگ ترقی و خوشحالی کی علامت ہے۔ اس پرچم کے رنگوں کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ ہم اپنے لہو کی سرخی سے سماج پر چھائی سیاہی کا خاتمہ کر کے سر سبز و شاداب سویرا لائیں گے۔

آج ہم ان تمام دستاویزات کا مطالعہ کرتے ہیں تو بنیادی مسائل وہی ہیں، آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مرکز میں چار مرتبہ حکومت بنائی۔ سندھ میں پانچ، پنجاب میں دو، خیبر پختونخوا میں دو اور بلوچستان میں دو مرتبہ مخلوط حکومت بنائی۔ 1973ء کا آئین دیا اور ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا جس نے ملک کو ناقابل تسخیرکر دیا لیکن 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء ، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل، جمہوری حکومتوں کی بار بار برطرفی ریاستی سطح پر فرقہ واریت، لسانی تعصب، لاقانونیت و دہشتگردی، ناانصافی اورکرپشن نے آج بھی وہی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ آج بھی امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ آج 22 خاندان سے بڑھ کر 222 خاندان ملک کی تمام تر دولت اور وسائل پر قابض ہیں آج بھی مزدور ناانصافی اور استحصال کا شکار ہے، آج بھی کسان، ہاری، چھوٹا کاشتکار ظلم و ناانصافی کا شکار ہیں، جرائم، لاقانونیت، نا انصافی بے روزگاری کے مسائل موجود ہیں۔

مصنف کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں میں قائد اعظم کا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان، بینظیر بھٹوکا پاکستان ایک طوفان میں گھرا ہوا ہے۔ بے پناہ قدرتی وسائل کے باوجود ہم مقروض و بد حال قوم ہیں۔ ہم ایک منتشر قوم ہیں قائد و حکمران امیر ترین ہیں، عوام غریب ترین ہیں۔ ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے تجارت کے لیے اللہ کے وعدے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ امریکا اور آرمی کی طرف دیکھتے ہیں، آنے والے دنوں میں قربانی عوام کو نہیں لیڈروں کو دینی ہو گی ۔پاکستان کے عوام کو اب کسی کی جان کی قربانی نہیں چاہیے۔

اگر ہمارے سیاستدان محب وطن ہیں اگر عوام دوست ہیں تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یہ وقت ہے کہ وہ مال کی قربانی دیں۔ تمام سیاستدان، تاجر و صنعتکار، سول و ملٹری ریٹائرڈ و حاضر بیوروکریٹ بیرون ملک سے اپنی دولت پاکستان واپس لائیں۔ اب عوام صرف نعروں سے فریب نہیں کھائیں گے وہ ایمان دار قیادت کا عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ بلاول بھٹو تادم تحریر ایک صاف و شفاف قیادت ہیں، لیکن ان کو اپنی ٹیم کا کلین اپ کرنا ہو گا صرف جیتنے والے امیدوار نہیں بلکہ باصلاحیت صاحب کردار مخلص عہدے دار بھی پارٹی کی اولین ضرورت ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پچاس سال مکمل ہو جانے پر فیصلہ کرنا ہے۔ آگے بڑھو یا راستہ چھوڑ دو۔

اٹھ باندھ کمرکیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

پاکستان پیپلزپارٹی کے پچاس سال، ایک پرمغزکتاب ہے، سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک ریفرنس بک ہے، اس میں ہر پہلو سے تفصیل کے ساتھ ملکی سیاست کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔