کروڑوں انسانوں کی سرگوشیاں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 16 دسمبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

رابرٹ فراسٹ کہتا ہے ’’ایک جنگل میں دو راستے نکلتے تھے میں نے اس کا انتخاب کیا جو بہت کم استعمال ہوا تھا اور اسی نے فرق پیدا کیا‘‘ ہر فرد اپنی زندگی میں ان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے، چاہے وہ بوڑھا ہو یا جوان، امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کا انتخاب ان باتوں سے مشروط نہیں ایک راستہ خوب کشادہ اور مانوس یعنی عام لوگوں کی طرف سے خوب استعمال کیاگیا ہے۔

اس کی منزل معمولی اور بے معنیٰ ہے دوسرا راستہ ذرا مختلف ہے اسے بہت کم لوگوں نے استعمال کیا ہے جو عظمت اور معنویت کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم میں اسے ہر ایک کے اندر گہرائی میں ایک داخلی خواہش پائی جاتی ہے کہ عظمت اور بھرپور کردار کی زندگی گزاری جائے جو واقعی اہم ہو اور جو واقعی ایک فرق رکھتی ہو۔ ممکن ہے ایسا کرسکنے کے بارے میں ہم اپنے آپ کے لیے اور اپنی صلاحیتوں کے لیے شک و شبہ میں گرفتار ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ ایسی زندگی گزار سکتے ہیں آپ ایسا کرسکتے ہیں۔

دنیا کے عظیم ادیب و نفسیات دان اسٹیفن آر۔کو وے لکھتے ہیں ’’میں ایک دفعہ ایک ملٹری بیس کے کمانڈر سے ملنے کے لیے گیا تھا جو اپنے ارادے میں زبردست کلچرل تبدیلی لانے کی پر زور خواہش رکھتا تھا اس کی سروس تیس سال سے زیادہ ہو چکی تھی اب وہ فل کرنل تھا اور اسی سال ریٹائر ہونے والا تھا، اپنے ادارے کوکئی ماہ تک تربیت دینے کے بعد اس نے مجھے مشورہ کے لیے بلایا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آخر وہ کیوں یہ قدم اٹھانا چاہتا ہے یہ اقدام بہت بڑا ہے۔

یہ عمل روایت، تساہل، بے اعتنائی اور اعتماد کے فقدان جیسی طاقتور مزاحمتی لہروں کے خلاف تیرنے کا تقاضا کرتا ہے اور پھر اب تم ریٹائر ہونے والے ہو پر سکون رہو ریٹا ئر منٹ کے مرحلے سے آرام سے گزرو تمہارے اعزاز میں ایوارڈ بینکوئیٹ منعقدکیاجائے گا، تمہارے دوست اور خیرخواہ تمہاری تعریف و توصیف کرنا چاہیں گے تم کیوں اس جھنجھٹ میں پڑتے ہو اس کے چہرے پرگہری سنجیدگی چھاگئی ایک طویل وقفے کے بعد اس نے مجھے ایک انتہائی ذاتی اور قابل احترام واقعہ سنانے کا فیصلہ کیا۔

اس نے بتایا کہ میرے والد کی وفات حال ہی میں ہوئی ہے جب وہ بستر مرگ پر تھا تو اس نے مجھے اور میری ماں کو ’’خدا حافظ‘‘ کہنے کے لیے بلایا، اس کے لیے بولنا بہت مشکل تھا میری ماں مسلسل رو روہی تھی میں اپنے والد کے قریب ہوگیا۔ اس نے سر گو شی جیسی آواز میں مجھے مخاطب کرکے کہا ’’بیٹے زندگی اس طرح مت گزارنا جیسے میں نے گزاری ہے میں نے تمہارے اور تمہاری ماں کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا تمہار ی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں لا سکا۔ بیٹے مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس طرح زندگی نہیں گزارو گے جس طرح میں نے گزاری‘‘ ۔

یہ تھے وہ آخری الفاظ جو کر نل نے اپنے والد سے سنے اس کے وہ جلد ہی انتقال کرگیا لیکن یہ الفاظ کرنل کے دل و دما غ پر چپک کر رہ گئے وہ انہیں اپنے والد کا عظیم ترین تحفہ اور ورثاء سمجھتا ہے اس نے والد کی وفات کے روز ہی خود سے عہد کرلیا کہ و ہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایک فرق لائے گا پہلے وہ چاہتا تھا کہ فوج کے اس ادارے میں اس کا جانشین اتنی اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے جتنی اس نے دکھائی ہے اور یہ سب پر اچھی طرح واضح ہوجائے لیکن والد کے بستر مر گ پہ ہونے والی گفتگو نے اس کا ذہن یکسر تبدیل کردیا ہے اب وہ پورے عزم کے ساتھ چاہتا ہے کہ نہ صرف اپنی کمان میں دائمی لیڈر شپ کے اصول راسخ کرنے کے لیے تبدیلی کا عمل انگیز بنے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اس کا جانشین اس سے بھی زیادہ کامیا ب ہو اور اس کا ورثہ ایک قائدانہ نسل کے بعد دوسری کومنتقل ہونے کا سلسلہ چل پڑے اس نے مزید بتایا کہ اپنے والد کے آخری الفاظ سننے تک اس نے ہمیشہ آسان راستہ اپنایا تھا اور ماضی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک محافظ کا کردار ادا کرتا رہاہوں میں نے ایک معمولی اور عام قسم کی زندگی گزارنے کا انتخاب کر رکھا تھا لیکن اب اپنے والد کے ساتھ کیے گئے وعدے کے بعد اس نے عہد کر رکھا ہے کہ ماضی کے برعکس وہ ایک عظیم زندگی گزارے گا،ایسی زندگی جو واقعی دوسروں کے کام آئے ایک زندگی جو بامعنیٰ ہو جو واقعی ایک فرق پیدا کرے۔‘‘

ہمارے ملک کے سیاسی قائدین کی اکثریت 60 سال کی عمرکی حد پار کرچکی ہے، ان سے قوم کو بہت امیدیں تھیں کہ وہ ان کی زندگیوں میں فرق پیدا کریں گے ان کی زندگیوں میں آسانیاں لائیں گے اور دنیا کے دیگر لوگوں کی طر ح وہ بھی ایک خوشحال، کامیاب، عزت دار زندگی کے مالک بن سکیں گے لیکن بد قسمتی سے ان کی کوئی بھی امید پوری نہ ہوسکی اور زندگی میں فرق اور آسانی تو دور کی بات ان کی تو زندگی اور مشکل سے مشکل ہوتی چلی گئی ۔

ہمارے کرتا دھرتائوں نے ہمیشہ آسان راستہ اپنایا اور ماضی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے محافظوں کا کردار ادا کرتے رہے انھوں نے اپنے لیے ایک معمولی اور عام قسم کی زندگی گزارنے کا انتخاب کیا دوسری طرف کروڑوں امیدیں ترستی آنکھوں سے ان کاانتظار کرتی رہیں کہ شاید کبھی انہیں ہمارا بھی خیال آجائے۔ لیکن انہیں اپنے علاوہ کبھی دوسروں کا خیال نہ آیا افریقی کہاوت ہے ’’جب کلہاڑا جنگل میں داخل ہوتا ہے تو درخت آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ دیکھو اس کا دستہ ہم میں سے ہی ہے‘‘ ہمارے حکمران اور سیاستدانوں کے ذہن میں رہے کہ پاکستان کے بائیس کروڑ انسانوں کی تمہارے بارے میں سرگوشیاں جنگل کے درختوں کی سرگوشیوں سے مختلف نہیں ہیں۔

تمہیں یہ بھی یاد رہے کہ جلد یا بدیر تم عمر کے اس حصے تک پہنچ جائوگے کہ جب تم کچھ بھی نہ کرنے کے قابل ہوجائو گے اور پھر تم اگر چاہو گے بھی تو اس وقت تک اتنی دیر ہوچکی ہوگی کہ تمہارے پاس ’’کاش‘‘ کے علاوہ اورکچھ بھی نہ ہوگا لیکن ابھی تمہارے پاس وقت ہے کہ تم کچھ مختلف کرسکتے ہو،کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں فرق لاسکتے ہو،انہیں یکسر تبدیل کرسکتے ہو، ان گنت دعائوں کے در اپنے لیے کھول سکتے ہو،اپنے آپ کو سرخرو کرسکتے ہو اپنے آپ کو لافانی بنا سکتے ہو ابدی بناسکتے ہو۔ ورنہ وہ دن اب دور نہیں کہ تم بھی اپنے پیاروں سے سرگو شی میں کہہ رہے ہو گے’’بیٹے زندگی اس طرح مت گزارنا جیسے میں نے گزاری ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔