بابری مسجد آج بھی انصاف کی منتظر

عابد محمود عزام  پير 17 دسمبر 2018

بھارت میں سیکڑوں برس پرانی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو26 سال ہوچکے ہیں، لیکن امسلمانوں کی عظیم عبادت گاہ کو شہید کرنے والوں کے خلاف بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت تاحال کوئی کارروائی نہیں کر سکی۔ بھارت کے آئین میں ہر شخص کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر کے یہ ثابت کیا کہ منافقت اور مسلمان دشمنی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کی تاریخ بھارت کی متعصب اور نام نہاد سیکولر حکومت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، جو کبھی بھی صاف نہیں ہوسکتا۔ بابری مسجد اتر پردیش (بھارت) کے ضلع فیض آباد کے ایک شہر ایودھیا میں واقع تھی، جوکہ 1527ء میں مشہور مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابرکے حکم سے اس کے جرنیل اورگورنر میر باقی نے بنوائی تھی، یہ مسجد مسلم فن تعمیر کا شاہکار تھی اور اس کی بنیاد تغلق طرز تعمیر پر رکھی گئی تھی۔

بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ اچانک پیش نہیں آیا، بلکہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں انتہا پسند تنظیموں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ مل کر رام مندرکی تعمیرکے لیے تحریک چلائی اورکانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ کی حکومت میں 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں جنونیوں پر مشتمل مشتعل ریلی نے نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں اس تاریخی مسجد کو شہید کر دیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کی شہادت میں اس وقت کی حکومت ملوث تھی ۔

مرلی منوہر جوشی اورایڈوانی نے اپنی نگرانی میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اورمسجد کی شہادت کے وقت یہ دونوںلیڈر بابری مسجد سے دو سو میٹر دور واقع ’’رام کتھا کنج‘‘ کی عمارت میں موجود تھے۔ بابری مسجد کو شہید کرنے کے منصوبے میںسیکولرازم کا دم بھرنے والی تمام جماعتیں ہی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے المناک واقعے سے پورے عالم اسلام میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور انڈیا میں بد ترین ہندو مسلم فسادات شروع ہو ئے۔ گودھرا، گجرات ٹرین حملوں سمیت ان فسادات میں کم و بیش تین ہزار سے زاید مسلمانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو مسمار کرنے کے سلسلے میں 49 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے، جوگزشتہ 26 برسوں سے قانونی داؤ پیچ اور عدالتوں کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی متعصب حکومت خود ہی اس واقعے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔ بھارت کی حکومت آخر مجرموں کو سزا کیسے دے گی، بھارت میں تو خود ایک متعصب حکومت قائم ہے، جو بھارتی وزیر اعظم خود گجرات میں مسلمانوں کا خون بہانے میں ملوث ہو، وہ بابری مسجد کے ساتھ کیا انصاف کرے گا۔

بھارتی وزیر اعظم تو خود بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش میں شریک تھا، جس کا اظہار بھارت کے صدر پرناب مکھر جی بھارتی صدر نے اپنی یاد داشتوں پر مبنی کتاب ’’ہنگامہ خیز سال1980ء تا 1996ء ‘‘ میں کیا ہے: ’’یہ درست ہے کہ جس وقت بابری مسجد شہید کی گئی اس وقت بھارت میں کانگریس کی حکومت تھی ، لیکن یہ سارا ہنگامہ تو بی جے پی نے کھڑا کر رکھا تھا، جس میں لال کشن ایڈوانی اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی پیش پیش تھے۔‘‘

نریندر مودی کی انتہاپسندی کو تو ایک عالم جانتا ہے، جن کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت میں انتہاپسندی اور مسلمانوں کے خلاف مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نریندر مودی مسلمان مخالفت کی بنیاد پر ووٹ لے کر وزیراعظم بنے اور آیندہ الیکشن میں اپنا ووٹ بینک بچانے کے لیے وقتا فوقتا مذہبی کارڈ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ حقائق ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بابری مسجد کی جگہ پر ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر کو آئینی تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور مسلمان دشمنی کے معاملے میں ہر جماعت کو نریندر مودی کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مودی کو آر ایس ایس، بجرنگ دل، وی ایچ پی، بی جے پی اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے اہم رہنماؤں کا آشیر واد حاصل ہے۔ بابری مسجد اور مندر کا تنازع سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور جنوری کے بعد اس معاملے کی سماعت متوقع ہے۔

فیصلہ آنے میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں آر ایس ایس اور سخت گیر ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام سرکردہ ہندو سادھوؤں نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایودھیا کی متنازع زمین پر رام مندر کی تعمیر کے لیے بلا تاخیر ایک آرڈیننس جاری کرے۔ سادھوؤں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے بھی کہا ہے کہ وہ مندر کے معاملے کی فوراً سماعت شروع کرے اور جلد فیصہ دے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت عظمیٰ جلد فیصلہ نہیں سناتی تو سادھو اپنے لاکھوں حامیوں کے ساتھ ایک بار پھردسمبر میں دلی میں جمع ہوں گے اور یہ آر پار کی جنگ ہو گی۔ اس ریلی کا مقصد آرڈیننس کے لیے حکومت پر دباؤ بنانا تھا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایودھیا کی ریلی کا مقصد مندر کے سوال کو پس منظر سے نکال کر سامنے لانا تھا۔ اس ریلی کے بعد مندر کا ایشو ایک بار پھر ملک کی سیاست کا محور بنتا جا رہا ہے۔ مندرکی تعمیر حکمران بی جے پی کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے، مودی حکومت اپنے اقتدار کے آخری مرحلے میں ہے۔

ملک میں پارلیمانی انتخابات کی فضا بن رہی ہے۔ اس وقت کئی ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ آخراس مرحلے پر بی جے پی کی نظریاتی جماعتیں اچانک مندر کا سوال کیوں اٹھا رہی ہیں۔ ایودھیا میں سماج وادی پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیر تیج ناراین پانڈے کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ ان کی زمین کھسک چکی ہے، وہ ایک بار پھر مذہب کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، مگر عوام یہ جانتے ہیں کہ مندر ان کا مذہبی اسٹنٹ ہے۔ ان کو نہ رام سے مطلب ہے نہ مندر اور مسجد سے۔ یہ صرف مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت نے ایودھیا میں موجود بابری مسجد کو شہید کر کے جو فعل کیا، وہ بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ بھارت انتہا پسندی کی انتہا پر پہنچا ہوا ہے، جہاں آج بھی مسلمانوں کے لیے جینا مشکل ترین ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور تعصب بھارتی حکومت کی نس نس میں بھرا ہوا ہے۔ بھارتی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت ایک انتہا پسند، متعصب اور مسلم دشمن ملک ہے۔ بھارتی حکومت کے لیے لازم ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کر کے ان کی مذہبی عبادت گاہوں کا تحفظ کرے اور مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے اور بابری مسجد کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانا بھارتی حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری ہے۔25 سال گزرنے کے باوجود اس اندوہناک واقعے میں ملوث ملزمان آج بھی آزاد اور مسلمان انصاف کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔