لڑکیوں کی تعلیم کی حالت زار
پرائمری اسکول کی عمر کی 32 فیصد طالبات اسکول سے باہر ہیں جب کہ 13 فیصد لڑکیاں نویں کلاس کی سطح سے اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔
پرائمری اسکول کی عمر کی 32 فیصد طالبات اسکول سے باہر ہیں جب کہ 13 فیصد لڑکیاں نویں کلاس کی سطح سے اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس
پاکستان میں شرح تعلیم جنوبی ایشیا میں بھارت' سری لنکا وغیرہ سے کم ہے۔ خصوصاً بچیوں میں تعلیم کی شرح افسوس ناک حد تک کم ہے' پاکستان کے بڑے شہروں جیسے کراچی' لاہور اور راولپنڈی' اسلام آباد میں بچیوں کو پڑھانے کا رجحان موجود ہے ، پشاور میں بھی بچیوں کو تعلیم دلانے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن پنجاب' سندھ' خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں میں بچیوں میں شرح تعلیم بہت ہی کم ہے جب کہ بلوچستان اور فاٹا کی صورتحال مایوس کن ہے۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق فاٹا میں تقریباً 79 فیصد لڑکیاں ابتدائی مراحل ہی میں اسکول چھوڑ دیتی ہیں جب کہ مڈل اور سکینڈری درجے سے تقریباً 50 فیصد لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے اس نظر انداز شدہ علاقے کو اب مین اسٹریم میں شامل کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے کیونکہ فاٹا کو اب صوبہ کے پی کے میں شامل کر دیا جائے گا لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ اب وہاں بھی تعلیم کی شرح میں اضافہ ہو گا۔
ملک بھر میں آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور اسکول سے باہر رہنے والے بچوں اور بچیوں کی بڑی تعداد اس بات کی متقاضی ہے کہ تعلیم کی مد میں زیادہ فنڈز مختص کیے جانے چاہئیں بلکہ صوبہ کے پی کے میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ کو ترجیحی حیثیت دی جانی چاہیے۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل125سے واضح ہے کہ حکومت کو 5 سے 16 سال کے تمام بچوں کے لیے مفت تعلیم کا اہتمام کرنا اور اسے یقینی بنانا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا اس آئینی شق کی طرف زیادہ دھیان نہیں ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے نے اس سمت میں پیش قدمی شروع کر دی ہے اور تعلیم کو بطور ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اپنا لیا ہے۔ والدین سے بھاری رقوم فیسوں اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر بٹوری جا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پرائمری اسکول کی عمر کی 32 فیصد طالبات اسکول سے باہر ہیں جب کہ 13 فیصد لڑکیاں نویں کلاس کی سطح سے اسکول چھوڑ دیتی ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
اگر تعلیم اور نصابی کتب بلاقیمت بھی بچوں کو فراہم کی جائیں پھر بھی کئی مدات میں بچوں سے رقم وصول کی جاتی ہے مثلاً داخلہ فیس' اسکول بیگ کی بھاری قیمت' یونیفارم' اسکول کے لیے جوتے وغیرہ ان سب چیزوں پر بھی غریب والدین کا کافی خرچ اٹھتا ہے جو بعض حالات میں ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی فیس اور کتابوں کے خرچ کے سوا بھی بعض گھرانے اضافی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق فاٹا میں تقریباً 79 فیصد لڑکیاں ابتدائی مراحل ہی میں اسکول چھوڑ دیتی ہیں جب کہ مڈل اور سکینڈری درجے سے تقریباً 50 فیصد لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے اس نظر انداز شدہ علاقے کو اب مین اسٹریم میں شامل کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے کیونکہ فاٹا کو اب صوبہ کے پی کے میں شامل کر دیا جائے گا لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ اب وہاں بھی تعلیم کی شرح میں اضافہ ہو گا۔
ملک بھر میں آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور اسکول سے باہر رہنے والے بچوں اور بچیوں کی بڑی تعداد اس بات کی متقاضی ہے کہ تعلیم کی مد میں زیادہ فنڈز مختص کیے جانے چاہئیں بلکہ صوبہ کے پی کے میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ کو ترجیحی حیثیت دی جانی چاہیے۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل125سے واضح ہے کہ حکومت کو 5 سے 16 سال کے تمام بچوں کے لیے مفت تعلیم کا اہتمام کرنا اور اسے یقینی بنانا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا اس آئینی شق کی طرف زیادہ دھیان نہیں ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے نے اس سمت میں پیش قدمی شروع کر دی ہے اور تعلیم کو بطور ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اپنا لیا ہے۔ والدین سے بھاری رقوم فیسوں اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر بٹوری جا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پرائمری اسکول کی عمر کی 32 فیصد طالبات اسکول سے باہر ہیں جب کہ 13 فیصد لڑکیاں نویں کلاس کی سطح سے اسکول چھوڑ دیتی ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
اگر تعلیم اور نصابی کتب بلاقیمت بھی بچوں کو فراہم کی جائیں پھر بھی کئی مدات میں بچوں سے رقم وصول کی جاتی ہے مثلاً داخلہ فیس' اسکول بیگ کی بھاری قیمت' یونیفارم' اسکول کے لیے جوتے وغیرہ ان سب چیزوں پر بھی غریب والدین کا کافی خرچ اٹھتا ہے جو بعض حالات میں ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی فیس اور کتابوں کے خرچ کے سوا بھی بعض گھرانے اضافی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔