بلوچستان؛ کچھ یادیں، کچھ باتیں

نادر شاہ عادل  جمعرات 20 دسمبر 2018

یہ 1986ء کا منظر نامہ ہے، بلوچستان میں شورش عروج پر تھی، ممتاز قوم پرست بلوچ رہنما صوبہ بلوچستان اور ملکی سیاسی صورتحال کی تندی بادی مخالف سے گھبرا کر نہیں بلکہ آمریت کے خلاف مزاحمت کی جبلی اور جبری شدت کے باعث افغانستان کوچ کر رہے تھے۔

سیاستدان اور سیاسی تجزیہ کار جانتے ہیں کہ جب بھی ملک پر آمریت کے سیاہ بادل چھانے لگے تو جمہوریت کا سورج غروب ہوا سیاستدانوں کی گرفتاریوں کے سلسلے دراز ہوتے گئے۔ مجھے یاد ہے 60 کی دہائی میں، میرے والد محترم اسرارعارفی نے بیرسٹر ثمین خان کا ایک انگریزی مضمون ترجمے کے لیے دیا جو بلوچستان میں ایوب خان کی فوج کشی سے متعلق درد ناک واقعات کا دل ہلانے والا نوحہ تھا۔ میری طالب علمی کا دور تھا ، اپنی علمی کم مائیگی کے احساس کے ساتھ  ترجمہ کرکے دے دیا تو اس کی نوک پلک والد صاحب نے درست کی اور وہ مضمون کسی روزنامے میں چھپ گیا ۔

ان دنوں لیاری سیاسی شعورکے ساتھ ساتھ ادبی، لسانی، صحافتی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز نگاہ  بنا ہوا تھا، سیاسی اجتماع چاکیوارہ ٹرام جنکشن پر ہوا کرتے، جن میں ملک کے مین اسٹریم سیاستدانوں نے شرکت کی، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، سردار عطااللہ مینگل ، میر غوث بخش بزنجو ، میر عبدالباقی بلوچ  ، مختار رانا ، جی ایم سید ، پیر پگارا ، ولی خان، حیدر بخش جتوئی، فیض محمد قاضی ، مولانا بھاشانی سمیت دیگر معروف شخصیات شامل تھیں ۔ سید صالح شاہ شیرشاہ اکثر ان اجتماعات کے میزبانی کے فرائض انجام دیا کرتے تھے، بھاشانی نے لیاری کے کئی دورے کیے، ایک فٹبال کلب سیفی لین میں ان کی نشستیں لیاری کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہوئیں، انھوں نے کراچی میں جلسوں سے خطاب بھی کیا۔ ظہیر اختر بیدری اور مرحوم انور احسن صدیقی ان کے بارے میں مسلسل کئی یادگارکالم لکھ چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے لیاری میں ادبی اور علمی کام بھی ہوا، بلوچی گرائمر پر سید ظہور شاہ ہاشمی نے ریسرچ کی، وہ بھارت کے شہر پونا میں بھی ڈاکٹر اسٹرا سر کے ہمراہ بلوچی فونیم پر ریسرچ کرچکے تھے، ان کی گراں قدر ’’ سید گنج ‘‘ انسائیکلوپیڈیا بلوچی کی ون مین مساعی کی ناقابل یقین  تحقیق وتخلیق ہے، علیٰ عیسیٰ، صبا دشتیاری ، عابد آسکانی، محمد بیگ بلوچ ، ظفر علی ظفر، منصور بلوچ ،اصغر درآمد، عباس زیمی، جی آر ملا ، مبارک قاضی اورکئی ادیب ’سید گنج ‘کی تیاری میں شریک رہے یا ان کی خواہش اور تمنا تھی کہ اس لغت اور انسائیکلوپیڈیا کو کسی سرکاری مالی تعاون کے بغیر جلد مکمل کیا جائے۔

سید ہاشمی کی زندگی اور ان کی تخلیقی اور علمی جہتوں کے کیا کہنے، وہ اپنے وقت کے مایہ ناز ادیب، ماہر لسانیات، شاعر بے بدل تھے،ان کا المیہ یہ تھا کہ ان کی کوئی کتاب بلوچی سرکاری اداروں نے نہیں چھاپی، میں نے ان گناہ گار آنکھوں سے سید صاحب کو اپنے مجموعہ ہائے کلام کی  پروف ریڈنگ ، سر ورق کی تیاری ، طباعت اور مارکیٹنگ کے لیے خود ہی درد سر اٹھانا پڑتی تھی، یا ان کاموں میں علیٰ  عیسیٰ جیسے بے لوث عقیدت مند ان کا ساتھ دیا کرتے تھے، اسی لیاری میں سید ہاشمی نے سکونت اختیارکی، بلوچی زبان کے ایک دیو قامت ادیب وشاعر، عمرکے آخری ایام میں کلری احمد شاہ بخاری روڈ پر قائم ایک پرچوں کی دکان چلانے پر مجبور ہوئے ۔

وہ بلوچ سیاست اور بلوچستان کے چیستان dilemma کے حوالے سے پہلے مزاحمت کار ادیب و شاعر تھے جنہوں نے گوادر کی بے سرو سامانی اور اس کی خریدوفروخت کے خلاف ایک علمی، سیاسی اور سفارت کارانہ جنگ لڑی، ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے، وہ مسقط پہنچے توخطرہ تھا کہ انھیں پابند سلال کیا جائے گا ، مگر مسقط کے حکمراں کنگ قابوس کے مہمان بھی رہے، انھیں حکومت نے مسقط کی شہریت دی، ہماری سیاست میں بلوچ ادیبوں، شعروں اور سیاسی رہنماؤں اور مسند انصاف پر رہنے والے جسٹس خدا بخش مری کو بھی نہیں بخشا گیا، جب کہ وہ انصاف و ادب اور تاریخ و تہذیب کے زبردست نبض شناس تھے، سید ہاشمی نے ہمیشہ بلوچستان کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ’’سیاسی‘‘ فیصلوں سے شدید اختلاف کیا ، اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ان کا گوادر کی فروخت سے متعلق یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

شال پیسر سگارے ہرجاناں/دیناں بے سیتیں گنجیں گوادر شوت۔

ایک اور بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ میرگل خان نصیر بلاشبہ بلوچی انقلابی شاعری میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، مگر جب میر صاحب صوبائی وزیر تعلیم تھے تو انھوں نے بلوچی زبان وادب کو رومن رسم الخط میں ڈھالنے کا بیڑا اٹھایا تو اس کی مخالفت میں سب سے توانا آواز سیدہاشمی کی بلند ہوئی تھی۔ انھوں نے 1974ء میں ابراہیم جلیس کے جریدہ ’’عوامی عدالت‘‘اور پھر روزنامہ ’’مساوات‘‘ میں قسط وار مضامین لکھے اور رومن رسم الخط کی سرکاری مہم کو بلاجواز اور سم قاتل قراردیا۔ سید ہاشمی نے سٹبلشنٹ سے مستقل جوڑ توڑ پر مبنی بلوچ سیاست کو مفادات کے زیر اثر، بے روح ، عوام دشمن اور دھرتی کی مسائل سے لاتعلق سمجھا۔

بات 86 ء دہائی کی چلی تھی،ان دنوں راقم کراچی کے ایک موقر روزنامے سے وابستہ تھا، مجھے مجید نظامی اور بشیر جھمرہ صاحبان نے ہدایت کی کہ بلوچستان جاکر سیاسی صورتحال کی جائزہ رپورٹ تیارکریں، اور روزانہ خبریں بھی ممکن ہو تو ارسال کردیں ، ان دنوں ممتاز شاعر عطا شاد صوبہ بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات تھے، انھوں نے پہلی بلوچی فلم ’’ہمّل و ماہ گنج‘‘کے کچھ نغمات بھی لکھے تھے، باقی اسکرپٹ اور اسکرین پلے سید ظہور شاہ ہاشمی کا لکھا ہوا تھا، یہ بلوچی فلم ٹی وی آرٹسٹ انوراقبال کی پہلی اور آخری کاوش ثابت ہوئی ۔ بہر حال عطا شاد مجھے گھر پر ناشتہ کرانے کے بعد سیکریٹریٹ لے گئے وہاں ، میری ملاقات سینئر صحافی عالی سیدی سے بھی ہوئی ۔

عطا شاد نے دوران گفتگو اس بات کا اعتراف کیا کہ بلوچ قوم اور ادب دوست حلقوں نے سید ہاشمی کے ساتھ وفا نہیں کی اور وہ کوئٹہ کی ادبی حلقوں کی لیاری گریز شاونزم سے سخت دل گرفتہ بھی نظر آئے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ عطا جی! آپ کوئی خبر بھی بتادیجیے، تھوڑے سے مسکرائے، سوچ میں پرگئے پھرکہنے لگے ’’عادل 1988ء میں ایک لرزہ خیز خبر نازل ہوگی‘‘ ذہن پر زور دیجیے، عطا شاد نے کیا چیز عطا کی۔

یاد رہے لیاری اور بلوچستان کی سیاست میں مضمر ایک صورت اس خرابی کی بھی ہے، جسے آج کے شورش زدہ بلوچستان کے لیاری کنکشن سے الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے، لیاری کبھی بھی مسلح جدوجہد یا دہشتگردانہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا۔ لیاری اور بلوچستان کے درمیان سیاسی روابط جمہوری اور ملکی آئین و جمہوری پیرا میٹرز کے اندر پارلیمانی سیاست تک محدود تھے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے جید سیاست دان اپنی بات عوام اور میڈیا تک پہنچانے کے لیے لیاری کے ککری گراؤنڈ ،گبول پارک اور چاکیواڑہ ٹرام جنکشن کا رخ کرتے تھے۔

باقی مستند تفصیل بلوچ دانشور محمد رمضان کی حالیہ کتابوں میں مل جائے گی۔آزاد بلوچستان کی تحریک ،کشمیری حریت پسندوں کی طرح مقامی اور indiginous ہے ۔ اس لیے آج لیاری اور بلوچستان کی الجھی ہوئی سیاسی ڈورکو سلجھانے کے لیے بلوچ سیاست دانوں، جام کمال کی صوبائی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ بلوچستان اور لیاری میں دہشتگردی کے لنک کے معمہ کا حل کرنے کی سمت پیش رفت کرنی چاہیے، یہ پاکستان کی سالمیت کا معاملہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔