معاشی صورتحال اور زمینی حقائق

بیرونی و اندرونی قرضوں پر انحصار کم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے

بیرونی و اندرونی قرضوں پر انحصار کم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی اقتصادی اور سیاسی صورتحال کے مکسڈ سگنل مل رہے ہیں۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف ملکی اقتصادیات کو درپش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت غیر معمولی اقدامات کی سمت پیش رفت کر رہی ہے، اس کی ترجیحات میں دوست اور برادر ملکوں کی طرف سے ملنے والی مالی امداد ، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت اور اسٹاک مارکیٹ میں استحکام اور کاروباری سرگرمیوں کی موجودہ مثبت لہر کے ٹمپو کو برقراررکھنے کے معاشی صورت گری ناگزیر ہے۔

جب کہ دوسری جانب بیرونی و اندرونی قرضوں پر انحصار کم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے ، کیونکہ موجودہ حکومت بادی النظر میں سابق حکومتوں کے لیے گئے ہوشربا اور بے تحاشہ قرضوں کے بوجھ سے ملک کو نجات دلانے کے نعرہ پر ہی برسراقتدار آئی ہے اور وہ بھی اگر قرضوں کی بیساکھیوں پر معاشی استحکام کے دعوے کرے گی تو زمینی حقائق اور اقتصادی جبر کے سامنے اس کا ٹھہرنا مشکل ترین ٹاسک ثابت ہو سکتا ہے، اقتصادی ماہرین کی رائے ہے کہ پولیٹیکل اکانومی کی درست سمت میں معاشی بریک تھرو کے لیے لازمی ہے کہ ایسے معاشی فیصلے کیے جائیں کہ ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ نہ پڑے اور جن شاندار معاشی پیکیجز، دوررس ترجیحات اور نتیجہ خیز منصوبوں پر عملدرآمد کا وزیراعظم عمران خان قوم سے وعدہ کرچکے ہیں۔


ان کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی سکیں، تاہم تجزیہ کاروں نے حکومت کو یاد دلایا ہے کہ تجارتی خسارہ، ادائیگیوں کے توازن،گردشی قرضے، ٹیکس نیٹ میں توسیع ، کرپشن کے انسداد، علاوہ ازیں رہائش، روزگارکی فراہمی، غربت کے خاتمہ، غیرممالک سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی تک بڑے اقدامات حقیقت کا روپ نہیں دھار لیتے اس وقت تک سعودی عرب، چین اور یو اے ای سے ملنے والی غیر ملکی امداد فوری ریلیف کے باوجود معاشی مصائب اور اقتصادی درد کا درماں ہونے کا مکمل نسخہ کیمیا نہیں بن سکتی، وجہ یہ ہے کہ ابتدائی حکومتی ترجیحات سے معاشی اہداف پورے نہیں ہوئے، ڈالر نے اڑان بھری، روپیہ بے توقیر ہوا اور اسٹاک مارکیٹ کو بار بار مندی کے جھٹکے لگے، افرط زر بڑھنے لگا ، پھر بجلی اور گیس کے قیمتوں میں اضافے نے عوام کی چیخیں نکال دیں، اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران حکومت کے اندرونی و بیرونی قرضوں میں مجموعی طور پر 22 کھرب40 ارب روپے کا اضافہ ہوا، مرکزی بینک کی رپورٹ چشم کشا ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ قرضوں پر انحصار کی روش دیرپا اقتصادی استحکام کی ضمانت نہیں دے سکے گی، چونکہ قرضے تو بڑھتے ہی چلے جائیں گے،ادھر بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ سلوشنز نے پاکستان میں مالی سال 2018ء-19 کی دوسری ششماہی کے دوران شرح سود10 فیصد پر مستحکم رہنے کی پیشگوئی کی ہے، فچ سلوشنزکی جانب سے پیر کو جاری ہونے والی ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ماضی قریب میں مانیٹری پالیسیوں میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں مجموعی طور پر425 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر کے شرح 10 فیصد تک بڑھائی ہے۔

رپورٹ میں فچ سلوشنز نے پیشگوئی کی ہے کہ مالیاتی خسارے کے سبب پاکستان رواں مالی سال کے ریونیو اہداف بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک استحصال اور کرپشن سے پاک معاشی نظام کی طرف قدم بڑھائے، غربت کا خاتمہ ہو، لوگوں کو ریلیف اور روزگار ملے۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران پاکستان کے لیے 6.2 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کو حتمی شکل دینے کا تاجر برادری نے خیر مقدم کیا ہے، تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ حل کرنے میںاہم مدد ملے گی اور معیشت پر نجی شعبے و سرمایہ کاروں کا اعتماد بہتر ہو گا۔ تاہم حکومت کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے داخلی اور خارجی سطح پر مالیاتی تعاون کے حصول کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے دوراندیشی، وژن، معاشی بصیرت اور سیاسی بالغ نظری سے تندی باد مخالف کا رخ موڑنا ہو گا، انھی تدبیروں کی قوم منتظر ہے، لہٰذا وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کی ٹیم کو اقتصادی بحالی کا پیغام دینے کے لیے ہر نئے امکان کو تعبیر شدہ معاشی خوابوں کی شکل دینا ہو گی۔

اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات کی فوری ضرورت ہے، حکومتی مشیران معیشت سر جوڑ کر بیٹھیں، مربوط، متفقہ اور ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کر کے قوم کو معاشی صورتحال کی بہتری کا پیغام دیں۔ پانچ ماہ کا جو عرصہ بیت گیا وہ سمت سازی کے لیے کافی تھا اب بڑھتے ہوئے کرنٹ خسارے کی روک تھام اور مثبت معاشی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے تن دہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر اقتصادی صورتحال بہتر ہو گی تو سیاسی درجہ حرارت میں از خود کمی آئیگی، اقصادیات و سیاسیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
Load Next Story