قومی فٹ بال .... عروج سے محروم (آخری قسط)

نادر شاہ عادل  ہفتہ 12 جنوری 2019

’’فٹبال کی ماں انگلینڈ ہے۔‘‘ یہ بات پاکستان کے معروف انٹرنیشنل کھلاڑی مرحوم غلام عباس بلوچ نے راقم  کو 60  کی دہائی میں بتائی۔ میں ان دنوں طالب علم اور سیفی یوتھ فٹبال ٹیم کا کیپٹن تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے مایہ ناز فٹبالر علی نواز کی شہرت لیاری کے میرا ڈونا جیسی تھی۔ غلام عباس بلوچی زبان کے معروف دانشور اور انقلابی ادیب پروفیسرصبا دشتیاری(مرحوم)کے بڑے بھائی تھے۔ عباس بلوچ لاطینی طرز فٹ بال کے شیدائی بھی تھے جب کہ عالمی فٹبال کی سحرانگیزی کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔

ان کا کہنا تھا برازیل ، یوروگوائے، پیرا گوئے، میکسیکو سمیت چلی اورکولمبیا کی ٹیمیں ایک دوسرے سے مسابقت میں بے مثال تھیں، یورپی میڈیا اور غلام عباس کا انداز نظر برازیلی طرز فٹبال پر یکساں تھا،عباس کا کہنا تھا کہ برازیلی فٹبال در حقیقت شاطرانہ گھاتوں، سوئنگ ، برجستگی ، تیز تر چھوٹے بڑے پاسز اورگول پر دھواں دھارحملوں سے عبارت تھی۔ برازیل کے پرجوش عوام کو اس کھیل کی نغمگی کے حوالہ سے یہ پیغام ملا تھا کہ Jogo boniti  یعنی ’’کھیلو مگر خوبصورتی سے‘‘۔ یورپی کھیل میں فٹبال کی آمد ، تربیت وتعلیم اور کوچنگ فلسفہ کے طرز پر کی گئی، یورپی اسٹائل میں وہ تھرل نہیں جو لاطینی کھیل کا طرہ امتیاز ہے، مگر کوئی ڈیوڈ بیکھم کی اس کک کو کیسے فراموش کرسکتا ہے جو 2002 ء میں یونان کے خلاف ڈی سے کافی دور رہتے ہوئے بھی تیر کی طرح جاکر جال سے ٹکرائی۔ اس گول کے باعث انگلینڈ کو ورلڈ کپ میں جانے کا راستہ ملا۔ غلام عباس نے ’’کھیل اور کھلاڑی‘‘ نامی جریدے میں فٹبال پر فکر انگیز مضامیں لکھے۔وہ فیفا کے پاکستان ریجن میں اعلیٰ عہدیدار بھی رہے۔

وہ برصغیر کے نامور فٹبالر محمد عمر کے ہمعصر تھے، کلکتہ محمڈن ، محمڈن اسپورٹنگ اور کراچی ککرز میں کمال کے کھلاڑی تھے، حسین کلر، عابد ، موسی غازیٰ،   جمیل فخری،تراب علی،معین الدین کٹی،اسماعیل درانی، ابراہیم ، سرور ، محمد یعقوب، سوالی، قیوم چنگیزی، استاد داد محمد، محمد علی پھلو،عبدالغفور مجنا، سنبل خان، نعمت اللہ درانی سمیت دیگر کے نام شامل ہیں ۔ پھر مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان اور لیاری کے کئی کھلاڑیوں نے اپنے شاندار کیریئرکے بہترین سال گزارے، خوبرو عبدالغفور بلوچ جو گل محمد لین کے مکین تھے بنگلہ دیش بننے کے باوجود وہاں کی ٹیم سے وابستہ رہے اور کوچنگ کے فرائض بھی انجام دیتے رہے، بنگالی فٹ بال کے منتظمین اور شائقین نے انھیں بے پناہ محبت دی، غفور مجنا اور عبداللہ راہی کی شریک حیات ڈھاکا کی معصوم بہاری بچیاں تھیں جو لیاری میں وفا کا پیکر بنی رہیں ، اور بھابھی آف لیاری کہلائیں۔ لیکن اسی لیاری کی فٹبال نرسری کو اجاڑ کر رکھ دیا گیا ، فیڈریشن کا دفتر جو لوگ سندھ سے اٹھا کر اسلام آباد لے گئے اسی دن سے فٹبال کے زوال کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوا، پھر رفتہ رفتہ کے ایم سی ،کے پی ٹی ، ریلوے ، اور پیپلز پلے گراؤنڈ (گنجی گراؤنڈ) پر فٹبال کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔

ان دنوں کے پی ٹی، سندھ گورنمنٹ پریس، کے ایم سی، بینکوں کی ٹیموں ، پی آئی اے، واپڈا اور ملک کی معروف ٹیموں کے مابین دلچسپ میچز ہوا کرتے تھے، ہزاروں شائقین ان گراؤنڈز پر میچز دیکھنے آتے  جن میں اعلیٰ خاندانوں کی خواتین بھی شریک ہوا کرتی تھیں۔ شاید کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں دو فٹبال فیڈریشنز ساتھ ساتھ چلتی تھیں، فیفا نے جسے تسلیم کیا اس کے خلاف بھی دوسری فیڈریشن نے چیمپین شپ منعقد کرائیں، 90ء کی دھائی میں فیفا کے سربراہ ڈاکٹر ہیولانج نے پولو گراؤنڈ میں نمائشی میچ بھی دیکھا، رات کو کراچی بوٹ کلب کے عشائیہ میں پاکستان کے فٹبالروں کے ٹیلنٹ کی تعریف کی مگر وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ جب تک عالمی سطح کے ہموار پلے گراؤنڈ اور سٹیڈیمز تعمیر نہیں ہونگے اور بین الاقوامی سطح کی ٹیموں کی پاکستان آمد اور ان کے ٹورنامنٹس نہیں ہونگے یہ ٹیلنٹ  بے مقصد دوڑنے بھاگنے اور بال کنٹرول کرنے کی ناکام کوششوں کے ہاتھوں تھک جائے گا۔ اس وقت پرتگال کے لیجنڈ لوئیس فیگو اور برازیلی اسٹار کاکا پاکستان آئے ہیں ،یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

آج بھی ملک بھر میں فٹبال کے بے شمار مقامی کلبس ہیں، کراچی میں بے لوث منتظمین نے نئی نسل کے فٹ بالروں کو گروم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، ماضی میں حاجی احمد خان، اللہ بخش، پیر بخش، عبدالستار کوہاٹی، خواجہ سعید احمد، رشید تبسم ، کنڈیکر وغیرہ فٹبال منیجمنٹ سے وابستہ تھے، یہی لوگ فٹبالروں کو برصغیر، مشرق وسطیٰ ملائیشیا اور مشرقی پاکستان لے جاتے تھے، بدترین غربت تھی، پسماندگی، ناخواندگی اور بیروزگاری و منشیات کے بے پناہ مسائل تھے مگرایک جنون ، شوق اور کھیل سے مکمل کمٹمنٹ موجود تھی، الیکٹرانک میڈیا اور اس کے گلیمرکا نام ونشان نہ تھا، صرف پرنٹ میڈیا نے ابتدائی فٹبال کی کوریج کا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔

برصغیرمیں فٹبال کا حقیقی آغاز 1888ء میں ہوا ۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کا قیام 1947ء میں ہوا، 50 ء کی دہائی میں فٹبال ننگے پیر کھیلی جاتی تھی، اگلے تین عشروں تک پاکستان میں فٹبال نرسری کے طور پر لیاری کا نام سر فہرست رہا، کئی فٹبالر سامنے آئے، مولابخش گوٹائی ، جبار ، غفار، تقی، محمود ڈھوک، استاد ددو، فیض محمد ، خمیسہ ، شفیع ، گل محمد لاڑی، امین ، یوسف جونیئر، تاجی، یوسف سینئر، غلام ربانی، روشو فیمیلی ، مولابخش مومن، غلام رسول عرف ٹھنڈا شیدی، عمری، عبدل آف دبئی چوک، شدو ، شفو، مظفر ، یعقوب،ایوب ڈار، گول کیپر محمد حسین، شموں اور سیکڑوں ہونہار فٹبالر شائقین کو لطف اندوز کرتے رہے۔معاف کیجیے کئی نام رہ بھی گئے ہونگے۔

مگر افسوس ہے کہ پاکستان فٹبال بحران کی الم ناک داستان میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں اور جب کبھی ملک گیر پروفیشنل اور پریمییئر لیگ چمپین شپس کی طرف سنجیدہ پیش رفت سے چشم پوشی یا کمزور مالی و انتظامی معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں تو فٹبال کے دلگرفتہ کردینے والے زوال پر عمومی گفتگو کا معیار بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سے مختلف نظر نہیں آتا، ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر نوجوان اینکرز کوشش کرتے ہیں اور بین الاقوامی اور ملکی فٹبال کے مابین سنجیدہ تقابلی جائزے پیش کرتے ہیں مگر ضرورت ان گورکنوں کی تلاش اور ماضی کی کوتاہیوں کے ذمے داروں تارا مسیحاؤں تک پہنچنے کی ہے جو قومی فٹبال کو فیفا ورلڈ کپ کی چکاچوند میں بھی کنویں کا مینڈک بنائے رکھنے کے ہنر میں تاک نکلے۔آج 2019ء کا سورج طلوع ہوا ہے ،دیکھیں حکومت کیا کرتی ہیَ۔

ہاں ایک حقیقت اہل وطن کے لیے دل کشی کا سامان لیے ہوئے ہے کہ 2018 ء کے فیفا ورلڈ کپ کے لیے سیالکوٹ میں بنی ہوئی فٹبال منتخب ہوئی۔ فیفا کے کوالیفائنگ مرحلے سے بخیروخوبی گزرنے والی فائنل ٹیموں میں پاکستان کا نام کبھی نہیں آیا تاہم برٹش راج میں جو 1886ء پر محیط تھا  ایک سارجنٹ نے سیالکوٹی جفت ساز سے فٹبال مینیوفیکچر کروائی، اس گورے کو فٹبال کی سلائی بے حد پسند آئی، پھر فٹبال کی تیاری اور اس کی عالمی سطح پر پذیرائی اور پسندیدگی نے فیفاکا کاروباری رشتہ پاکستان کے تیارکردہ خوبصورت، مضبوط اور پائیدار فٹبال سے جوڑ دیا۔ سیالکوٹ کے ہنرمندوں اور متعلقہ کمپنی سے فیفا کا کنٹریکٹ ہوا، اس گیند کو اڈیڈاس ٹینگو کا نام دیا گیا۔یہ گیند واٹر پروف تھی۔ آج اس نے لیدر ورلڈ کپ فٹبال کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔پاکستان فیفا اسپورٹس کلچر کا حصہ ہے۔ بعض فٹبال سرپرستوں کے نزدیک فیفاکی سیالکوٹی گیند سے ہنرمندانہ نسبت میں بھی ایک  امکانی بریک تھرو ’’سلور لائننگ‘‘ موجود ہے، اگر فیفا حکام پاکستان کی مینیوفیکچرڈ گیند کی محبت میں گرفتار ہوسکتے ہیں تو ایک پاکستانی فٹ بال ٹیم کا تحفہ وہ جس جذبہ سے قبول کریں گے اس کا اندازہ وہی ملکی آرگنائزر اور ٹیم مینجمنٹ  کرسکتی ہے جسے حکومت ناقابل شکست ٹیم بنانے کا ٹاسک اور خطیر فنڈز دے ۔پھر چند سالوں میں دیکھ لے ، پاکستانی ٹیم دنیائے فٹبال کے شائقین پر ثابت کردے گی کہ

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی

مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا

(مصطفیٰ زیدی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔