تیلے شاہ

طارق محمود میاں  بدھ 17 جولائی 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

مجھے نہیں معلوم کہ اس حکومت کے بھرے ہوئے پیٹ میں کتنی جگہ باقی ہے۔ لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ خالی پیٹ کو خوراک کے انبار پر بٹھا دیں تو سب سے پہلے وہ اپنا ہی پیٹ بھرے گا۔ جس کا پیٹ پہلے ہی بھرا ہوا ہو اس نے مزید کیا ٹھونسنا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب کہوں گا، وہ خود نہیں کھائے گا تو دوسروں کو بانٹے گا۔ ہاں! ایسا بھی ممکن ہے لیکن بانٹنے کا تعلق پیٹ کے بھرا ہونے سے زیادہ دل کے بڑا ہونے سے ہے۔ تنگ دل آدمی کو قارون کے خزانے پر بھی بٹھا دیں تو وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔

میں ایک شخص کو جانتا ہوں۔ پڑھا لکھا ہے لیکن چند برس پہلے تک تنگ دست تھا۔ ایک کاروبار شروع کیا۔ محنت کی تو خوش قسمت نکلا اور تھوڑے ہی عرصے میں کروڑوں میں کھیلنے لگا۔ لیکن دیکھنے میں ابھی تک روز اول کی طرح تنگ دست ہے۔ قمیض کا کالر پھٹا ہوا، جوتوں پر کئی برسوں کی گرد، موبائل فون پر تین جگہ پر ربر بینڈ چڑھائے ہوئے اور جب بھی ملاقات کرنی ہو اسے کار کے نیچے سے کھینچ کے باہر نکالنا پڑتا ہے۔ گھر ہو یا کہیں سڑک کے بیچ میں، اس کی گاڑی کا بونٹ کھلا ہوتا ہے اور وہ اس کے نیچے گھسا ہوا ہوتا ہے۔ کار بھی وہ جو شاید ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ساتھ لے کے آئی تھی۔ یہ کوئی انوکھا شخص نہیں ہے۔ ایسے لوگ آپ کو بھی اپنے اردگرد دکھائی دیتے ہوں گے۔ انھیں بڑے سے بڑا خزانہ دے دیں، ہر طرح کا اختیار اور آزادی بھی دے دیں لیکن یہ کبھی بھی حاتم طائی نہیں بن سکتے۔

ہماری بھرے ہوئے پیٹ والی حکومت کے ہاتھ ویسے ہی بندھے ہیں۔ نہ کھانے کو مال ہے اور نہ حاتم طائی بننے کو خزانہ۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ انھوں نے کنجوسی سے بھرپور روڈ میپ کا اعلان کر دیا ہے۔ آگے چل کے یہ کنجوسی برقرار رہتی ہے یا نہیں کیا معلوم لیکن فی الحال تو موجود ہے۔ وزیر اعظم چین گئے تو صحافیوں سے کہا آنا ہے تو اپنا اپنا انتظام خود کرو۔ سینئر افسروں کے غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جسے بہت ضروری جانا ہو گا اسے ایک دقت طلب چھلنی میں سے گزر کے اجازت لینا ہو گی۔

اسی طرح فیصلہ ہوا ہے کہ تمام وزارتوں کے اخراجات 30 فیصد کم کیے جائیں گے۔ پلاٹوں کی تقسیم اور بندر بانٹ پر مکمل پابندی ہو گی۔ نئی گاڑیاں خریدنے پر بھی پابندی ہو گی۔ تمام غیر ضروری سیکیورٹی ختم کر دی جائے گی۔ اس طرح وہ سیکڑوں افراد جو سیکیورٹی کے نام پر شاہی پروٹوکول سے لطف اٹھا رہے تھے انھیں اس سے محروم کر دیا جائے گا۔ وزیر اعظم ہاؤس کا لنگر بند کر دیا جائے گا۔ سرکاری تقریبات میں بھی حتی الامکان کنجوسی کی جائے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیکریٹ فنڈ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب کیش والے لفافے چلنا بند ہو جائیں گے۔ حکومت کو امید ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں بہت جلد خالی خزانہ بھرنا شروع ہو جائے گا گویا:

خشک انجیر کے کھانے سے افاقہ ہو گا

میرے مرشد نے بتایا ہے کہ کاکا ہو گا

کنجوسی کی یہ داستان ہمارے جیسے شاہ خرچ ملکوں کے لیے نئی دکھائی دیتی ہے لیکن ذرا امیر کبیر ترقی یافتہ ملکوں پر ایک نظر ڈالیں تو حساب اور احتساب ایک ایک پائی سے جپھا مار کے بیٹھا ہوا دکھائی دے گا۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ ملکہ برطانیہ کے پوتے کی شادی دنیا بھر کے لیے ایک دلچسپ اور یادگار تقریب تھی۔ کروڑوں افراد اسے ٹی وی پر دیکھ رہے تھے۔ ہزاروں شاہی محل کے باہر اور سڑکوں پر موجود تھے لیکن مرکزی تقریب میں صرف 1900 افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ انھیں پھوٹے منہ بھی کچھ کھانے کو نہیں دیا گیا۔ پانی پلا کے ٹرخا دیا گیا۔ بعد میں صرف گنے چنے لوگوں کو شاہی محل میں کھانا کھلایا گیا۔ اسی طرح یہ تو آپ آئے دن مشاہدہ کرتے ہی رہتے ہیں کہ ان ممالک میں حکومتی عہدیدار بہت سادگی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بعض کی کسمپرسی پر تو ترس آتا ہے۔

ہماری حکومت نے ابھی سادگی کا اعلان کیا ہے۔ کچھ کر کے دکھائے گی تو تھوڑے عرصے کے بعد اس کا صحیح پتہ چلے گا۔ ماضی میں ایسے اعلانات بے معنی ثابت ہو چکے ہیں۔ کبھی تو افسر شاہی کامیاب نہیں ہونے دیتی اور کبھی معاملہ گاندھی جی جیسا ہو جاتا ہے۔ ان کی دھوتی اور سادگی کو برقرار رکھنے پر بہت خرچ اٹھتا تھا۔ ٹرین کے تیسرے درجے میں سفر کرتے تو ساتھ کی بوگیوں میں سیکیورٹی کے انتظام پر اول درجے کے کئی ٹکٹ قربان کرنا پڑتے۔ ہماری حکومت کے عزائم میں اخلاص کتنا ہے؟ اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں لیکن آثار یہی ہیں کہ حکومت کی تمام کفایت شعاری عوام کو منتقل ہو جائے گی اور سادگی اختیار کرتے کرتے انھیں اپنی کفایت کو قائم رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

میرے مرحوم والد صاحب ہمیں بچپن میں ’’تیلے شاہ‘‘ کا قصہ سنایا کرتے تھے۔ یہ ایک پیر تھا۔ پیر تیلے شاہ۔ اس کے تمام خلیفے اور مرید اس کی بخیلی سے تنگ تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کھانے کا وقت ہوتا تو وہ تمام لوگوں کو جمع کر لیتا۔ درمیان میں شہد کا ایک مرتبان رکھ لیتا۔ مرید باری باری ایک ایک روٹی لے کر آتے اور پیر تیلے شاہ ایک تیلا (تنکا) شہد کے مرتبان میں ڈبو کے ان کی روٹی پر لگا دیتا۔ روز روز کی اس کنجوسی کی وجہ سے وہ سب اس کے مرنے کی دعائیں کرتے۔ سوچتے کہ اس سے جان چھوٹے تو کچھ عیش کریں۔ بالآخر ایک طویل مدت کے بعد وہ مر گیا۔ اگلے روز کھانے کا وقت ہوا تو اس کے جانشیں نے بالکل اسی طرح کی محفل سجائی۔ درمیان میں شہد بھرا مرتبان رکھا۔ پھر مرید کی روٹی کو بند مرتبان کے باہر پھیر کے لوٹا دیا اور بولا۔۔۔۔’’بس اب اسے اسی طرح کھا لو اور کان کھول کے سن لو، اب وہ تیلے شاہ والی عیاشی نہیں چلے گی۔‘‘

میرا خیال ہے میں جو بات کہنا چاہتا ہوں اسے آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔ اپنے مرتبان کو سنبھال کر رکھیے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔

�فیسر جمیل آذر کے مضمون ’’بیدی میرا دوست میرا ہمدم‘‘ کا ذکر کروں گی جو ایک معلوماتی اور دلچسپ تحریر ہے۔ اس میں اوبندر ناتھ اشک کی کتاب جو اس مضمون کا عنوان بھی ہے کا ذکر ہے اور پڑھنے کی چیز ہے۔ دیگر مضامین کا انتخاب بھی خوب ہے۔ اس سے پہلے منٹو نمبر بھی شایع ہوچکا ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ احمد زین الدین صاحب ایک بڑے ناول اور افسانہ نگار عزیز احمد پر بھی ایک معیاری نمبر شایع کریں جو اس ادیب کے شایان شان ہو، کیونکہ ہم نے انھیں بہت جلد بھلا دیا ہے۔ دوستوں اور ادبی دنیا کی روایتی سنگدلی کی بناء پر وہ آخری عمر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے اور کسی سے نہیں ملتے تھے۔ جب کہ انھوں نے قرۃ العین حیدر کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اور محترمہ ان کی بہت عزت کرتی تھیں ایسے نمبر جو بڑی اور اہم شخصیات پر شایع کیے جائیں ایک ادبی دستاویز کی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔