عرب ممالک اور اسرائیل میں قربتیں (دوسرا اور آخری حصہ)

صابر ابو مریم  بدھ 23 جنوری 2019
یہ عرب اسرائیل ملاقاتیں کئی برسوں کا تسلسل ہیں اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کےلیے کامیابی کی کنجی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ عرب اسرائیل ملاقاتیں کئی برسوں کا تسلسل ہیں اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کےلیے کامیابی کی کنجی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عرب دنیا کے حکمرانوں اور اسرائیل کی قرابت میں آئے روز ہونے والا اضافہ جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاژ کر رہا ہے وہیں اسرائیل کےلیے خطے میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دہشت گردی کے راستے بھی کھول رہا ہے؛ اور یہ دہشت گردی بالآخر خطے میں موجود اسرائیل کے قرابت دار عرب حکمرانوں کو بھی اپنی آگ میں لپیٹ لے گی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور بادشاہ اپنے انجام اور عاقبت سے بے خبر امریکی و صہیونی کاسہ لیسی میں غرق ہو چکے ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: عرب ممالک اور اسرائیل میں قربتیں (پہلا حصہ)

سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کا کہنا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے اسرائیل کی مشکلات میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہوچکا ہے۔ انہوں نے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ملاقاتوں اور تعلقات کے راز کو افشا کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ کئی برسوں کا تسلسل ہیں اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کےلیے کامیابی کی کنجی ہیں۔ اس تجزیہ نگار کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے فرمانروا اور اسرائیل کے حکمران اب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ تاہم اب صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔ سابق اسرائیلی سفارتکار کے تجزیئے کے مطابق، عرب خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل سے قریب آنے کی ایک وجہ اسرائیل اور ان عرب ممالک کا ایران مخالف ہونا ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران پر قابو رکھنے کےلیے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں فلسطین اور اس کے عوام شدید خطرات سے لاحق ہو رہے ہیں، القدس خطرے میں ہے۔ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کےلیے اس ’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اُن پر دباؤ بڑھانے کےلیے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی ہے اور یہ امریکی انتظامیہ، فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔

فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے لیکن گزشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔ وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں، انہوں نے اسے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کردیا ہے۔ انھوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کرلیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے باوجود مشرق وسطی کےلیے امریکا کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔ اپنی ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم ’ہماری امن کی کوششوں کےلیے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کےلیے ضروری بھی ہے۔‘

دوسری طرف عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا، وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہوگیا ہے۔ اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’ہولناک‘ خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔ بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس ’واضح مؤقف‘ کو اسی طرح سراہا ہے جیسا اس نے گزشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیراعظم کی آمد پر سراہا تھا۔

یہ امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لیے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پر جوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر ہی کو کافی سمجھنا پڑے گا جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

اس تمام تر صورتحال کا اثر اب پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو چکا ہے جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ تاہم دور حاضر میں تل ابیب سے پرواز کرکے آنے والے طیارے کی اسلام آباد میں لینڈنگ ہو اور دس گھنٹے قیام ہو یا پھر سابق جنرل کا اسرائیل حمایت میں لیکچر یا پھر حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی کی طرف صہیونیوں کی حمایت اور اسرائیل کےلیے راہ ہموار کرنے جیسے بیانات اور تقریریں ہوں، سب کے سب ریکارڈ پر موجود ہیں اور ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ اب پاکستان نے جن ممالک کےلیے ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے ان میں اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو بھی پاکستانی ویزا دیا جائے گا۔ یہ انتہائی خطرے کی بات ہے اور پاکستان کے آئین اور نظریاتی بنیادوں سمیت بانیان پاکستان کی اساس سے انحراف کے مترادف ہے۔ چونکہ پاکستان کی سیاست اور آنے والی حکومتوں کے حکمران عام طور پر امریکا کے بعد سعودی عرب اور امارات کو اپنا سب سے بڑا پیشوا اور مسیحا مانتے ہیں تاہم اس مریدی میں یقیناً پاکستان پر انہی عرب ممالک کی طرف سے یہ دباؤ بھی ضرور ہوگا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو نرم کیا جائے۔

بہرحال! خلاصہ یہی ہے کہ حالیہ دور میں فلسطینی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جو مثالی ہے، جبکہ عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کے ساتھ قربتیں پیدا کرکے نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپا جا رہاہے۔ اس صورتحال سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کےلیے مسلم دنیا اور عالم انسانیت کی خطرناک دشمن صہیونی جعلی ریاست اسرائیل ہے جو عنقریب ان عرب قرابت داروں کو بھی اپنے شکنجے میں دبوچ ڈالے گی لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

بلاگ کے اختتام پر سابق پاکستانی جنرل غلام مصطفی کی بات کو دہراتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان تل ابیب میں بیٹھ کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی چوکیداری بھی کرلے تب بھی یہ اسرائیل، پاکستان کو نہیں چھوڑے گا اور موقع ملتے ہی پاکستان کے خلاف اپنا ہر قسم کا وار کرے گا۔ اب پاکستان سمیت تمام عرب دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔