عرب ممالک اور اسرائیل میں قربتیں (پہلا حصہ)

صابر ابو مریم  منگل 15 جنوری 2019
گذشتہ چند برسوں میں عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

گذشتہ چند برسوں میں عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسرائیل جو ایک نسل پرست صہیونی ریاست ہے، اور اس کا وجود چونکہ صہیونیوں نے بوڑھے استعمار برطانیہ کی مدد سے عالم اسلام کے قلب فلسطین پر غاصبانہ طور پر سنہ 1948ء میں قائم کیا تھا۔ تاہم ستر برس کے اس غاصبانہ قبضہ اور تسلط کے نتیجہ میں آج بھی صہیونیوں کے اندر خوف اور شکست کا خطرہ پہلے کی نسبت زیادہ پایا جا تا ہے۔ اور اس بات کا ثبوت صہیونیوں کی بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ اور فلسطین کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے مظالم اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کی پیداوار سمیت ان کی مدد کرنا جیسے معاملات ہیں۔ جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔

دوسری طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکا ہے کہ جس کا ہر حکمران اسرائیل کے تحفظ اور بقاء کو اپنے ایمان اور امریکی دستور کا کلیدی حصہ سمجھ کر صہیونیوں کے تمام جرائم کی سرپرستی کرتا ہے۔ بلکہ ساتھ ساتھ ان جرائم کی انجام دہی کے لیے اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی امداد کے نام پر دیا جاتا ہے۔ جبکہ فلسطینی قوم جو نہتے اور پا برہنہ ہیں، ہر طرح سے ان تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ اپنے وطن اور سرزمین سے کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔

امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا پہلا ہدف یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر ڈالے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے ماضی میں بھی فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جبری طور پر ہجرت کروائی گئی تھی، اور یوم نکبہ کو سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے ہی وطن سے آوارہ کر کے نکال دئیے گئے تھے جو پڑوسی ممالک بشمول لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں میں جا کر آباد ہوئے؛ اور آج ان کی تیسری نسل وہاں پر جوان ہو رہی ہے۔

اسرائیل گذشتہ ستر برس سے یہی کوشش کر رہا ہے کہ ظلم وجبر اور استبداد کے ذریعہ ملت فلسطین کو اپنے ہی وطن اور گھر سے بے دخل کر دے، اور پورے فلسطین پر قابض ہو کر اسے ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا حصہ بنا لے۔

امریکا اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم سمیت تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود بھی فلسطینی قوم بالخصوص نوجوانوں اور بالعموم بزرگوں اور ہر طبقہ فکر کے فلسطینی باشندوں کے دلوں سے ان کے وطن کی محبت اور لگن کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم اب امریکی شیطان اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے حالیہ دور میں نیا ہتھکنڈا جو اپنایا ہے اس میں خطے میں موجود عرب حکمرانوں اور ریاستوں کو اسرائیل کا دوست بنانے کا کام کیا جا رہاہے، تا کہ ان عرب بادشاہوں کی مدد سے فلسطینیوں کی باقی ماندہ زمین اور علاقوں پر شب خون مارا جا سکے۔ عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں کہ جو پہلے خفیہ تھے، لیکن اب کافی حد تک اعلانیہ بھی ہو چکے ہیں۔

صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ ایک ایسی زمین پر قائم ہوا ہے کہ جس کے باشندے اپنی زمین کو چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہیں، اور ستر سالوں سے اسرائیل کے مقابلہ پر کھڑے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں۔ جبکہ اسرائیل ایسی صورتحال کے تسلسل میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا ہے۔

لیکن گزشتہ چند ایک سالوں میں اور بالخصوص گذشتہ دو برسوں میں جس طرح سے عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ شاید اب صہیونیوں کا خیال ہے کہ کچھ خطرات کم ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس فلسطینی مسلسل اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہ جد وجہد نہ تو کسی عرب ملک کے حاکم کے کہنے پر شروع ہوئی تھی اور نہ ہی کسی عرب ملک کے بادشاہ کے کہنے پر ختم کی جا سکتی ہے۔ فلسطین کے عوام اپنے حقوق کی بقاء اور اپنے دفاع کی جنگ اپنے حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

گذشتہ برس کے آخری چند ماہ میں اسرائیلی حکام کی عرب حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں کافی اہم رہی ہیں، اور اس بات کی دلیل ہیں کہ سنہ 1948ء کے بعد سے جس طرح سے عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کو ناجائز تصور کیا تھا، اب شاید اس تصور سے منحرف ہو رہے ہیں۔

اسرائیلی تجزیہ نگار دورے گولڈ کے مطابق عرب اسرائیل تعلقات کی اہم پیشرفت میں گزشتہ چند ماہ میں عمان اورعرب امارات میں ہونے والے واقعات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیلی اور عرب دنیا کے تعلقات میں ایک نئی اور گہری پیشرفت وجود میں آ چکی ہے۔ اکتوبر2018ء کے آخری دنوں میں صہیونیوں کے وزیرا عظم نیتن یاہو نے اچانک ہی عمان کا دورہ کیا، اور اس دورے میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ یہ گذشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔ سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ سلطان سے ان کی ’بات چیت بہت اچھی‘ رہی، اور یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔

صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم کی درج بالا بات بالکل درست ثابت ہوئی۔ کیونکہ جب اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کو عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں خوش خبری سنائی تو اس موقع پر کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں موجود تھیں، جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے دیکھ رہی تھیں۔ ان مقابلوں میں اسرائیل کی ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا تو اس موقع پر عرب امارات کے دارلحکومت میں اسرائیلی ترانہ کی دھن بھی بجائی گئی، یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس موقع پر صہیونی جعلی ریاست کی وزیر کھیل و ثقافت قومی ترانہ کی دھن سن کر آب دیدہ ہو گئیں۔ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

اسی طرح اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کو بھی حتمی شکل دے چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سرکاری سطح پر عمان یا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں۔

جاری ہے…

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔