بچ کے رہنا!

رئیس فاطمہ  ہفتہ 20 جولائی 2013

ہمارا پیارا وطن مختلف حوالوں سے دنیا بھر میں مشہور ہے، خصوصاً دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، چوری، بھتہ خوری، مذہبی منافرت اور تعصب جیسی لعنتوں کی افراط کے علاوہ جھوٹ بولنا اور اسے سچ ثابت کرنا بھی اب ایک صنعت ہے۔ جھوٹ بول کر مال بیچنا اب ایک آرٹ ہے۔ یہی نہیں بلکہ عام زندگی میں لوگوں کو جھوٹ بول کر کس طرح بے وقوف بنا کر لوٹا جاتا ہے۔۔۔۔ یہ بھی اب ایک آرٹ ہے۔ لیکن اس کے لیے حلیہ بدلنا بہت ضروری ہے۔ بازاروں میں شاپنگ سینٹروں میں اس کا مشاہدہ عام ہے۔ آپ کسی دکاندار کے ظاہری ایمان افروز حلیے اور باتوں سے متاثر ہو کر کوئی چیز خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس وقت آپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں جب پچھلی دکانوں کی بہ نسبت یہاں قیمت بہت زیادہ مانگی جا رہی ہے۔

اگر آپ تھوڑے سے بھی سمجھدار ہیں تو خاموشی سے باہر نکل آئیں گے۔ لیکن کانوں سے یہ جملے ضرور ٹکرائیں گے۔۔۔ ’’اچھا آپ بتائیے کیا دیں گے؟‘‘ ۔۔۔۔ ’’لیجیے میں نے ایک دم تین سو کم کر دیے۔۔۔۔ بس میں چاہ رہا ہوں میری دکان سے آپ خالی ہاتھ نہ جائیں‘‘۔۔۔۔۔ اور اگر آپ نے بحث کی اور بتایا کہ جس مردانہ سوٹ کی قیمت آپ تین ہزار بتا رہے ہیں وہ تو دوسری دکان پر ڈھائی ہزار کا ہے تو فوراً ایک تاجرانہ جواب سننے کو ملے گا۔۔۔۔ ’’مال میں فرق ہو گا، ہمارا مال الگ ہے‘‘۔۔۔۔۔ ان سب وارداتوں سے تقریباً لوگ واقف ہیں۔ اسی لیے وہ خریدار فائدے میں رہتے ہیں جو سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ تین دکانوں سے کسی بھی شے کی قیمت معلوم کرتے ہیں۔۔۔۔ لیکن یہ بات تو برسبیل تذکرہ آ گئی۔۔۔۔ ورنہ آج کے کالم کا موضوع کچھ اور ہے۔۔۔۔ دراصل مختلف لوگ خصوصاً عورتیں گھروں اور محلوں میں ان اوقات میں حیلے بہانوں سے وارداتیں کرنے آتے ہیں، جب مرد گھر پر موجود نہ ہوں۔ اس موضوع پر میں پہلے بھی ایک دو کالم لکھ چکی ہوں۔ لیکن واردات کے نت نئے طریقے بھی مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔

اکیلے مرد خصوصاً گاڑی والے اور وہ خواتین جو تنہا شاپنگ کرتی ہوں یا اکیلی گھر پر رہتی ہوں زیادہ ان جرائم پیشہ لوگوں کا شکار ہوتی ہیں۔ وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ لیکن اس لحاظ سے پولیس کی تعداد نہیں بڑھی۔ جو موجود ہیں ان میں سے زیادہ تر وی آئی پی کی حفاظت پہ مامور رہتے ہیں کہ الیکشن جیتتے ہی انھیں ان ہی لوگوں سے اتنا خطرہ ہو جاتا ہے کہ بغیر حفاظتی اسکواڈ کے گھر سے نہیں نکلتے۔۔۔۔ لیکن نتیجہ۔۔۔۔۔؟ بلال شیخ، خالد شہنشاہ اور منور سہروردی کو یاد کیجیے۔ صدر زرداری نے اچھا کیا جو پیر صاحب کے مشورے پر عمل کر کے پردیس سدھار گئے۔بقیہ  پولیس والے چوراہوں پہ موٹر سائیکلوں اور ویگنوں والوں کو روک کر چالان کرنے میں مصروف۔۔۔۔۔ ویسے بھی رمضان کا بابرکت مہینہ ہے، عید قریب آ رہی ہے، انھیں اپنے بچوں کے لیے ’’عیدی‘‘ تو اکٹھا کرنا ہی ہے۔۔۔۔ اب یہ بڑی زیادتی کی بات ہے کہ لوگ خواہ مخواہ عیدی کو ’’بھتہ وصولی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔۔۔۔ اور ان کے بعد جو پولیس والے بچے وہ کچھ نادیدہ کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔۔۔۔

خدا نہ کرے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ لوگ خود ڈکیتیاں کرتے ہیں اور خطرناک مجرموں کو رات کو جیلوں سے نکال کر وارداتوں کے لیے مختلف علاقوں میں خود بھیجتے ہیں، جن کی ریکی یہ دن میں پولیس موبائلوں میں گھوم کر کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ویسے یوں ہی میرا دھیان اس خبر کی طرف چلا گیا جس میں جیلوں میں قیدیوں کے پاس لاتعداد موبائل فون ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔۔۔۔ بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ جیل کی چہار دیواری کے اندر جہاں ہر طرف بندوق بردار پہریدار کھڑے ہوں، مجرم کوٹھریوں میں بند ہوں، وہاں موبائل فون، ہتھیار اور منشیات با آسانی پہنچ جائیں۔۔۔۔!! یقیناً کوئی ’’پیر مرد‘‘ غیبی طاقت سے یہ ممنوعہ سامان جیل کی کوٹھریوں تک پہنچاتا ہو گا۔۔۔۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں جب پولیس اپنے اپنے ’’دھندے‘‘ میں لگی ہو لوگوں کو اپنی حفاظت کے لیے خود چوکس رہنا چاہیے ورنہ اب جو ماحول ہے اس میں گھروں میں لوگ مار دیے جاتے ہیں اور پڑوس میں کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ پولیس کے خوف سے ہر انسان دامن بچاتا ہے اور جان بوجھ کر انجان بننے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔

ایک صاحب جو چیٹنگ کے بہت شوقین ہیں، اس حد تک کہ بعض اوقات ناشتہ کرنا بھول جاتے ہیں لیکن کمپیوٹر سے بے وفائی نہیں کرتے۔ ایک دن چیٹنگ کے دوران ان کا رابطہ ایک خاتون سے ہوا، پتہ چلا دونوں کی دلچسپیاں مشترک ہیں۔ مثلاً دونوں جاسوسی ناولیں پڑھنے کے شوقین، کرائم پر مبنی فلمیں بہت شوق سے دیکھتے ہیں، آئس کریم اور برگر شوق سے کھاتے ہیں، نہاری اور حلیم کے بھی شوقین ہیں۔ دونوں نے اپنی اپنی تصاویر کا بھی تبادلہ کر لیا۔ خاصی خوش شکل خاتون تھیں اور کھانا بہت اچھا پکانا جانتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے صاحب کو ایک ہوٹل میں مدعو کیا جہاں دونوں کی ملاقات ہوئی، یہ خاتون بیوہ تھیں، لیکن صاحب کی فیملی تھی۔۔۔۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جہاں معاملہ دوسری عورت کا ہو وہاں مرد کی عقل  گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ ایک دن جب صاحب گھر سے دفتر کے لیے نکلے تو خاتون نے فون کر کے کہا کہ وہ انھیں کلفٹن کے اسی ہوٹل کے پاس ملیں جہاں دو دن پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ صاحب خوش خوش وہاں پہنچ گئے۔

مقررہ جگہ پر خاتون برقعے میں موجود تھیں۔ ان کے ساتھ ایک لمبے بالوں والا آدمی بھی تھا۔ خاتون گاڑی میں بیٹھ گئیں اور بتایا کہ وہ شخص ان کا بھائی ہے۔ یہ بے روزگار ہے اور مدد چاہتا ہے۔ صاحب نے خوش دلی سے اس نوجوان سے ملاقات کی اور مدد کا وعدہ کیا۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے صاحب نے اس نوجوان کو لفٹ کی پیشکش کی تو وہ فوراً پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور بولا کہ اسے عبداﷲ شاہ غازی کے مزار کے پاس چھوڑ دیں۔۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ مزار کے عقب میں جوں ہی گاڑی رکی اور اس شخص نے اترنے کے لیے دروازہ کھولا، جھٹ سے ایک اور آدمی اندر سے آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور صاحب بہادر کی گردن پہ پستول رکھ کر ایک طرف گاڑی بڑھانے کو کہا۔ اسی دوران خاتون نے بھی بیگ سے اپنا پستول نکال لیا۔۔۔۔ پھر ایک ویرانے میں لے جاکر ان کی قیمتی گھڑی اتروائی، جیب میں جو کچھ تھا وہ لیا۔ اے ٹی ایم سے ان سے پیسے نکلوائے اور کچھ دور جا کر انھیں ان کا قیمتی موبائل قبضے میں لے کر چھوڑ دیا۔ خیر ہوئی کہ سستے چھوٹے۔ گاڑی اس لیے بچ گئی کہ سامنے سے پولیس موبائل آتی دکھائی دے گئی تھی۔

ایک خاتون گھر میں اکیلی تھیں۔ سامنے والا فلیٹ بھی بند تھا کیونکہ لوگ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر میں گھنٹی بجی تو دروازے پر ایک مسکین صورت نوجوان کھڑا تھا جو خاصے قیمتی کپڑے پہنے تھا۔ اس نے سلام کیا اور پڑوس والوں کے متعلق پوچھا جب پتہ چلا کہ وہ لوگ لاہور گئے ہوئے ہیں تو وہ پریشان ہو کر بولا کہ اس کے والد کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ وہ قریبی اسپتال میں ہیں۔ اور اسے ان کے آپریشن کے لیے کچھ رقم درکار ہے۔ پڑوسیوں کے بارے میں بتایا کہ وہ ان کا بھتیجا ہے۔ گھر جانے کا وقت نہیں ہے۔ ناظم آباد سے ڈیفنس خاصا فاصلہ ہے۔ اس لیے وہ خاتون اگر دس ہزار کا بندوبست کر دیں تو وہ کل واپس کر دے گا۔

اسی اثناء میں اس نے اپنی جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر دیا ۔ خاتون نے کارڈ دیکھا اور بولیں کہ دس ہزار کا بندوبست تو مشکل ہے البتہ وہ فی الوقت صرف چار ہزار دے سکتی ہیں۔ اس نے کہا ٹھیک ہے وہی دے دیجیے۔ وہ اندر گئیں کہ رقم لے آئیں لیکن دروازہ بند کرنا بھول گئیں۔ جوں ہی مڑیں وہ شخص اندر آ گیا اس نے دروازہ لاک کیا جیب سے پستول نکالا اور جو کچھ ممکن تھا سمیٹ کر یہ جا وہ جا۔ 50 ہزار نقد، ایک سونے کا سیٹ، لیپ ٹاپ، چھوٹا LCD۔ یہ سب چادر میں باندھ کر یہ جا وہ جا۔ خاتون کو اس نے کمرے میں بند کر دیا اور جاتے ہوئے باہر سے تالا ڈال گیا۔ شام کو شوہر لوٹے تو اجنبی تالا دیکھ کر حیران پریشان، موبائل آف، معاملہ مشکوک۔ بہرحال محلے والوں کی مدد سے تالا توڑا توواردات کا پتہ چلا۔۔۔۔ یہ وہ وارداتیں ہیں جو تواتر سے شہروں میں ہو رہی ہیں لیکن لوگ رپورٹ درج نہیںکرواتے کیونکہ پولیس پر اب کسی کو اعتماد نہیں ہے۔ یہ دیس ہے ٹھگوں کا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔