ہنسی میں سنجیدگی ۔۔۔’’آئی جی نوبیل پرائز‘‘

سید بابر علی  اتوار 17 فروری 2019
غیرسنجیدہ موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کو دیا جانے والا انعام۔ فوٹو: فائل

غیرسنجیدہ موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کو دیا جانے والا انعام۔ فوٹو: فائل

نوبیل انعام کو دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔

اس ایوارڈ کے بانی سوئیڈن میں پیدا ہونے والے موجد الفریڈ نوبیل تھے، اپنی پوری زندگی میں الفریڈ نوبیل نے بہت سی ایجادات کیں ، لیکن ان کی ایک ایجاد ڈائنامائٹ نے نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ڈائنامائٹ کے موجد الفریٖڈ نوبیل کا انتقال 1896میں ہوا اور اس وقت ان کے اکاؤنٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم موجود تھی۔

الفریڈ نوبیل نے اپنی تمام تر دولت کو ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو بہ طور انعام دینے کی وصیت کی، جنہوں نے اس عرصے میں طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی ایجاد کی ہو یا کارنامہ انجام دیا ہو۔ الفریڈ کی وصیت کے مطابق ان کی چھوڑٰی گئی دولت سے ایک فنڈ قائم کردیا گیا۔ نوبیل انعام دینے کا آغاز الفریڈ نوبیل کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10دسمبر1901سے کیا گیا جب سے ہر سال اسی تاریخ کو یہ تقریب منعقد ہوتی ہے۔ لیکن اسی الفریڈ نوبیل کی یاد میں ہر سال ایک ایوارڈ تقریب  اور منعقد کی جاتی ہے۔

نوبیل انعام کی پیروڈی سمجھے جانے والی آئی جی نوبیل انعام کی تقریب ہر سال ستمبر کے پہلے ہفتے میں کی جاتی ہے۔ یہ انعام ایسے موضوع کی تحقیق پر دیا جاتا ہے جو پہلی نظر میں ایک مذاق نظر آتا ہے لیکن جب اس پر غور کیا جائے تو اس کی وجوہات خالصتاً سائنسی نظریات پر مبنی ہوتی ہیں۔ ٰآئی جی نوبیل انعام کا بنیادی نعرہ ’ لوگوں کو ہنسانا پھر انھیں سوچنے پر مجبور کرنا‘ ہے۔ اس ایوارڈ کی دل چسپ بات یہ ہے کہ سال میں طب، سائنس اور ٹیکنالوجی پر کی گئی سب سے احمقانہ تحقیق یا ایجاد پر یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ بات بہت بچکانہ لگتی ہے لیکن درحقیقت اس کا مقصد حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ تحقیقی مقالے دنیا کے مشہور تحقیقی جرائد میں شایع بھی ہوتے ہیں۔

آئی جی نوبیل پرائز کا آغاز1991میں امریکی مزاحیہ سائنسی جریدے ’’اینلز آف امپروبیبل ریسرچ‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ آئی جی نوبیل انعام دس کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے، جن میں فزکس، نیوروسائنس، نفسیات، پبلک ہیلتھ، بائیولوجی، آرٹ، معاشیات، ادویات، آرکٹک سائنس اور نیوٹریشن شامل ہیں۔ یہ جریدہ امریکا اور دنیا بھر میں کسی بھی موضوع پر ہونے والی غیرحقیقی تحقیق اور حقیقی تحقیق جمع کرتا ہے۔ یہ تحقیق یا ایجاد اچھی اور بُری بھی ہوسکتی ہے، اہم اور غیراہم بھی ہوسکتی ہے، قابل قدر اور بے وقعت بھی ہوسکتی ہے۔ ہر سال ستمبر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ’سینڈرز تھیٹر‘ میں سب سے زیادہ احمقانہ اور غیرسنجیدہ تحقیق کرنے والے افراد کو آئی جی نوبیل انعام دینے کی عظیم الشان تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

اس ایوارڈ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ فاتحین کو انعامات دینے کے لیے حقیقی الفریڈ نوبیل انعام جیتنے والے افراد کو مدعو کیا جاتا ہے۔ آئی جی نوبیل انعام جیتنے والے شخص کو اسٹیج پر اظہارخیال کے لیے ایک منٹ کا وقت دیا جاتاہے۔ اگر وہ ساٹھ سیکنڈ سے زیادہ وقت لے لے تو ایک چھوٹی سی لڑکی ’بورنگ، بورنگ‘ پکارنا شروع کردیتی ہے۔ دل چسپ روایات سے بھرپور اس تقریب کی ایک اور خاص بات کاغذ کے بنے ہوائی جہاز ہال میں اُڑانا ہے۔

گذشتہ سال  طب کا آئی جی نوبیل انعام ’رولر کوسٹر کے ذریعے مثانے کی پتھری جلد نکالنے ‘ پر کی گئی تحقیق کرنے والے امریکی ماہر طب ڈیوڈ ڈی وارٹنگر کو دیا گیا۔ تحقیقی طبی جریدے American Osteopathic Association  میں شایع ہونے والی یہ تحقیق مارک اے مچل اور ڈیوڈ ڈی وارٹنگر نے کی۔ محققین نے اس انوکھی تحقیق میں ایسے مریضوں کو منتخب کیا جو پہلے ہی ureteroscopy (پیشاب کی نالی سے پتھری نکالنے کے لیے اختیار کیا جانے والا سب سے عام طریقۂ کار) سے گزر چکے تھے۔ ان مریضوں کو مختلف اوقات میں 60 مرتبہ رولر کوسٹر کی رائیڈ کرائی گئی، جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ رولر کوسٹر میں پیچھے بیٹھنے والے مریضوں میں پتھری کے ریزہ ریزہ ہونے کی شرح55 فی صد رہی، لہٰذا  مثانے میں پتھری کے مریضوں کے لیے رولر کوسٹر کی عقبی سیٹ پر رائیڈ کرنا طبی فوائد کا حامل ہے۔

اینتھروپولوجی (علمِ بشریات) کا آئی جی نوبیل انعام ’چمپینزی اور چُڑیا گھر میں آنے والے وزیٹررز کے درمیان ہونے والے بے ساختہ کراس اسپیشیز باہمی عمل اور نقالی‘ پر دیا گیا۔ سوئیڈن، رومانیہ، ڈنمارک، نیدرلینڈ، جرمنی، برطانیہ، انڈونیشیا اور اٹلی  میں ہونے والی اس مشترکہ تحقیق کو تحقیقی جریدے Primates نے شائع کیا۔ اس ریسرچ کے محققین ٹوماس، Gabriela-Alina Sauciuc اور ایلائینی میڈسین نے چُڑیا گھر میں چمپینزی کس طرح انسانوں کی نقل کرتے ہیں اور انسان کس طرح چمپینزی کی نقل کرتے ہیں، کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔

حیاتیات کے میدان میں آئی جی نوبیل انعام ایک مضحکہ خیز تحقیق کرنے والے  سوئیڈن، کولمبیا، جرمنی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ کے پال بیکر، Sebastien Lebreton، ایریکا والن، ایرک ہیڈین اسٹارم، فیلیپ بوریرو، میری بینگسٹین، واکر جورگر اور پیٹر وٹزگال کو دیا گیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع یہ تھا کہ ’ شراب کے رسیا افراد صرف سونگھ کر جام میں موجود کسی مکھی کی موجودگی کا بتا سکتے ہیں۔‘ دی سینٹ آف فلائی کے عنوان سے ہونے والی اس انوکھی تحقیق کو bioRxiv نامی ایک تحقیقی جریدے نے شائع کیا۔ اس تحقیق کا نتیجہ اس بات پر اخذ کیا گیا کہ مکھیاں ایک مخصوص بو پیدا کرتی ہیں، اور نر کی نسبت مادہ سے خارج ہونے والی یہ بو زیادہ تیز ہوتی ہے۔ نر مکھیوں کے مقابلے میں مادہ کی بو کی شناخت کرنا زیادہ آسان ہے۔

کیمسٹری کا آئی جی نوبیل انعام پرتگال کے محققین پاؤلا روماؤ،  Adília Alarcãاور آنجہانی سیزر ویانا کو دیا گیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع بہت ہی انوکھا تھا۔ ان افراد نے چار سال کا طویل عرصہ صرف اس بات کی تحقیق میں صرف کیا کہ کس انسان کا تھوک گندی سطح کی صفائی کے لیے بہترین کلیننگ ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ ’ہیومین سلیوا ایز اے کلیننگ ایجنٹ فار ڈرٹی سرفیسز‘ کے عنوان سے ہونے والی اس تحقیق کو Studies in Conservation نامی ریسرچ جرنل نے شائع کیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق انسانی تھوک کئی نسلوں سے گندی سطح کی صفائی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچرز نے کرومیٹوگرافک طریقہ استعمال کرتے ہوئے عملی تجربہ کیا۔

جب بھی ہم کوئی دوا یا روزمرہ استعمال کی پراڈکٹ خریدتے ہیں تو اس میں ایک معلوماتی کتابچہ بھی موجود ہوتا ہے۔ دنیا بھر خصوصاً ایشیائی ممالک میںزیادہ تر اس معلوماتی کتابچے کو کھولے بنا ہی پھینک دیا جاتا ہے۔  یہاں تک کہ ہم ادویات کے ساتھ ملنے والے معلوماتی کتابچے کو پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے، حالانکہ اس میں اس دوا کی خوراک، اس کے مضمرات، دوسری دواؤں کے ساتھ تعامل، اور زیادہ خوراک کھا لینے کی صورت میں فوری طبی امداد کی معلومات تک درج ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال ادب کا آئی جی نوبیل انعام بھی ان ہی معلوماتی کتابچے کے مفید اور غیرضروری ہونے پر کی گئی تحقیق پر دیا گیا۔

سائنسی جریدے ’ انٹریکٹنگ ود کمپیوٹرز‘ میں “Life Is Too Short to RTFM: How Users Relate to Documentation and Excess Features in Consumer Products,” کے نام سے شایع ہونے والی اس ریسرچ کو تین ممالک آسٹریلیا، ایلسواڈور اور برطانیہ کے ریسرچرز تھیابیکلر، رافیل گومیز، ویزنا پوپووک اور ایم ہیلین تھامپسن نے سات سال تحقیق کے بعد مکمل کیا۔ اس تحقیق کو انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا۔ سات سال بعد انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں کی اکثریت پراڈکٹ میں دیے گئے مینول کو نہیں پڑھتی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صارفین اس پراڈکٹ کے تمام تر فیچرز کو اچھی طرح استعمال نہیں کر پاتے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خواتین، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں میں معلوماتی کتابچے کو پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے۔

نیوٹریشن کا آئی جی نوبیل انعام زمبابوے کے جیمز کولی کو دیا گیا۔ جیمز کی تحقیق کا موضوع کچھ اچھوتا اور کافی حد تک وہشت ناک تھا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں قدیم دور میں انسانوں کے گوشت پرمبنی غذا میں موجود کیلوریز (حراروں) اور دورحاضر میں جانوروں کے گوشت میں موجود کیلوریز کا حساب کتاب کیا۔ طبی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں “Assessing the Calorific Significance of Episodes of Human Cannibalism in the Paleolithic,” کے عنوان سے شایع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق انسانی گوشت میں موجود حراروں کی تعداد جانوروں کے گوشت میں موجود حراروں سے کم ہے۔ جیمز نے ایک پُرانی تحقیق گارن اینڈ بلیک کا ریفرینس کچھ اس طرح پیش کیا ہے ’ پچاس کلو وزن کے حامل ایک مرد کے جسم میں سے 30کلو کھانے کے لائق گوشت حاصل ہوتا ہے، اس تیس کلو گوشت میں پروٹین کی مقدار ساڑھے چار کلو ہوتی ہے، جو کہ 18ہزار کیلوریز بنتی ہیں۔ (تاہم یہ معلومات صرف اندازے تک محدود ہیں اور اس کی کبھی جانچ نہیں کی گئی)۔‘ محقق کا مزید کہنا ہے کہ پروٹین کی یہ مقدار ایک دن میں 60کلو کا اوسط وزن رکھنے والے 60 لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ پروٹین کی ضروریات کے اصولوں کے مطابق ایک انسان کو ایک کلو وزن کے لیے روزانہ ایک گرام پروٹین درکار ہوتی ہے۔

امن کا آئی جی نوبیل انعام دو ممالک اسپین اور کولمبیا کے فرانسسکو ایلونسو، کرسٹینا اسٹیبین، اینڈریا سرج، ماریا لوئسا بالیسٹر، جیمی سین مارٹن، کونسٹینزا اور بیٹ رِِزالامر کو دیا گیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع ڈرائیونگ کے دوران چیخنے چلانے اور دوسرے ڈرائیوروں کو کوسنے سے امن وامان پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔ یہ تحقیق جرنل آف سوشیالوجی اینڈ اینتھروپولوجی میں  “Shouting and Cursing While Driving: Frequency, Reasons, Perceived Risk and Punishment,” کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس تحقیق میں روڈ سیفٹی اور ڈرائیونگ کے درمیان ربط تلاش کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق گاڑی چلاتے ہوئے 26 اعشاریہ 4 فی صد ڈرائیور دوسرے ڈرائیوروں پر چیختے اور ان کی توہین کرتے ہیں، جب کہ 66 اعشاریہ4 فی صد ڈرائیوروں نے کبھی اس طرح کی حرکت نہیں کی۔ ساڑھے بائیس فی صد ڈرائیورز نے قانون توڑنے، 21 اعشاریہ4 فی صد ڈرائیورز نے روڈ پر خطرناک انداز میں ڈرائیونگ کرنے پر، 13اعشاریہ 6 نے دوسرے ڈرائیورز کو خطرے میں ڈالنے، تین فی صد نے غصے، 2اعشاریہ 7فی صد نے دوسروں کی غیرذمے داری اور 13اعشاریہ 6   فی صد نے ذہنی دباؤ کے نتیجے میں سڑک پر چیخنے اور دوسروں کی اہانت کرنے کا اعتراف کیا۔ بہ ظاہر یہ ریسرچ بچکانہ اور غیراہم لگتی ہے لیکن اہم سڑکوں پر ڈرائیونگ کے دوران ڈرائیور حضرات کے اس طرزعمل کا حادثات کے ساتھ گہر ا تعلق ہے۔

معیشت اور دفتر میں باس کے  اپنے ماتحت افسران کے ساتھ روا رکھے جانے والے طرزعمل کا گہرا تعلق ہے۔ وہ آرگنائزیشن جس میں باس اپنے ماتحتوں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہو، اس کی ترقی کی شرح ایک ایسی آرگنائزیشن کی نسبت کم ہوگی جہاں دفتری ماحول تناؤ کا شکار نہ ہو۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کینیڈا، چین، سنگاپور اور امریکا کے محققین نے مشترکہ طور پر ایک اچھوتے موضوع  پر تحقیق کی۔ بزنس جریدے ’دی لیڈر شپ کوارٹرلی‘ میں  “Righting a Wrong: Retaliation on a Voodoo Doll Symbolizing an Abusive Supervisor Restores Justice,”  کے عنوان سے شایع ہونے اس تحقیق میں اس بات کی انویسٹی گیشن کی گئی کہ بدتمیز باس سے بدلہ لینے کے لیے جادو کی گڑیا  کا استعمال کس حد تک موثر ہے۔ ریسرچر Lindie Hanyu Liang، ڈگلس جے براؤن، ہوئی وین لیان، سیموئیل ہانگ، ڈی لینسے فیرس اور لیزا ایم کیپنگ نے اس ریسرچ کا نتیجہ کچھ اس طرح اخذ کیا ہے’باس یا سپروائزر کی جانب سے روا رکھے جانے والا توہین آمیز رویہ ماتحت ملازمین میں انتقامی جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریسرچرز نے بدتمیز باس کو ٹھیک کرنے کے لیے جادو کی گڑیوں کا استعمال کیا، جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔‘‘

اس سے قبل آئی جی نوبیل انعام  بہت ہی عجیب و غریب تحقیق پر دیے گئے، جیسے کہ ’چمپینزی دوسرے چمپینزیوں کو پیچھے سے دیکھ کر کیسے پہچان لیتے ہیں‘ یا ’ وہ کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے حرکت کرتی ہوئی پیالی سے کافی چھلک جاتی ہے۔ ‘ اسی طرح اگر آپ کا پاؤں کیلے کے چھلکے پر پڑ جائے تو آپ پھسل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ کو جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے واقعات عام طور پر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن جاپان میں ایک سائنس داں کو صرف اس بات پر تحقیق کرنے کی وجہ سے آئی جی نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ کیلے کی اسی خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جاپانی سائنس داں کیوشی مابوشی نے کیلے کے چھلکے پر تحقیق کی کہ اس میں ایسی کیا چیز پائی جاتی ہے جو پھسلن پیدا کرکے حادثے کا سبب بنتی ہے۔

جاپانی سائنس داں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ کیلے کا چھلکا سیب یا سنگترے کے چھلکے سے زیادہ خطرناک کیوں ہوتا ہے جس کے لیے انہوں نے کیلے کے چھلکے میں موجود ’رگڑ‘ کی پیمائش کی اور اس میں موجود رگڑ اور پھسلن کا سبب بننے والے مادے کا جائزہ لیا جو ہماری حرکت کو متاثر کرتا ہے۔ سائنس داں کا کہنا ہے کہ کیلے کے چھلکے میں موجود ایک مادہ ’فولیکولر جیل‘ اس میں پھسلنے والی خصوصیات پیدا کرتا ہے اور یہی جیل ہمارے جسم کے اندر موجود ان ممبرین میں پائی جاتی ہے جو ہمارے جوڑوں میں ہوتی ہے۔ سائنس داں کے مطابق اس نظریے کی مدد سے مصنوعی ہڈیوں کو تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

نیوروسائنس کا نوبیل پرائز یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے سائنس داں کینگ لی نے جیتا۔ انہوں نے تحقیق کی کہ لوگوں کوکھانے پینے کی مختلف اشیاء مثلاً توس پر کچھ مشہور لوگوں کے چہرے کیوں بنے نظر آتے ہیں۔ ایک دل چسپ تحقیق پبلک ہیلتھ کے شعبے میں سامنے آئی کہ کسی فرد کے لیے بلی کا پالنا یا رکھنا کیوں خطرناک ہوتا ہے۔ اس دل چسپ تحقیق سے انسانی زندگی کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جنہیں ہم مذاق میں نظرانداز کردیتے ہیں تاہم اس کے اندر ایک سنجیدہ پہلو چھپا ہوتا ہے جس پر تحقیق کے نتیجے میں کئی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے اور انسانیت کی بھی خدمت کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔