پاکستان مخالفت میں ہندوستان اور ایران... یک زبان

جاوید احمد ادریسی  منگل 19 فروری 2019
ہمارے دونوں ’’پڑوسیوں‘‘ کا اندازِ بیان تو ملاحظہ فرمائیے، لگتا ہے جیسے ایک ہی ملک کے دو باشندے ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے دونوں ’’پڑوسیوں‘‘ کا اندازِ بیان تو ملاحظہ فرمائیے، لگتا ہے جیسے ایک ہی ملک کے دو باشندے ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اِس دنیا میں شاید برصغیر ہی وہ واحد خطہ ہے کہ جہاں تنقید کاروں کو نہایت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کیوں کہ ہر کام، نام میں مذہب/ مسلک تلاش لینا یہاں کاخاصّہ رہا ہے۔ راقم کو ایک گلہ اُن تنقید کاروں سے بھی ہے کہ جنہوں نے بعض موضوعات کو شجرِ ممنوعہ قرار دے کر اُن سے منہ ہی موڑ لیا ہے۔ حالانکہ اُنہیں اُن مضامین پر قلم کاری اور لب کُشائی کرکے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ یہی تو اختلافِ رائے کا حُسن ہے۔

گزشتہ ہفتہ بین الاقوامی اور سفارتی اعتبار سے پاکستان کےلیے خاصا گِراں گزرا۔ پڑوسی ملک ایران کے سُنّی اکثریتی صوبے سیستان سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیم ’’جیش العدل‘‘ کی جانب سے پاسدارانِ انقلاب کے محافظوں کی گاڑی پر خود کُش حملہ ہوا جس میں کم و بیش 30 محافظ ہلاک ہوئے۔ اُس کے اگلے ہی روز دوسرے پڑوسی ہندوستان کے زیرِ تسلط مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں پلوامہ میں کشمیری جہادی تنظیم کی جانب سے پیرا ملٹری پولیس اہلکاروں کے قافلے پر مُبینہ خود کُش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 45 سے زائد قابض اہلکار ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد پاکستان سے خائف دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے باقاعدہ الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سنیچر کے روز ایران کے ریاستی چینل پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈرمیجر جنرل محمد علی جعفری نے سیستان واقعے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیکیورٹی سروسز اِن خود کُش حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ موصوف یہیں تک نہ رُکے بلکہ دھمکی آمیز انداز میں پاکستان کو ’’خبردار‘‘ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیئے۔ فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اِن کے خلاف کاروائی کرے اور انہیں سزا دے۔ یعنی وہ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر پاکستانی سیکیورٹی فورسز اِن گروہوں کی پشت پناہی ختم نہیں کرتی تو پاسدارانِ انقلاب کے ’’مجاہدین‘‘ پاکستان میں داخل ہوکر بذریعہ ’’سرجیکل اسٹرائیکس‘‘ فوجی کارروائی عمل میں لائے گی… واہ! کیا کہنے ہیں ہمارے ’’برادر‘‘ اسلامی ملک کے۔

اب بات ہوجائے اُس کی جو ہر پل پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے اور توڑنے کا خواب دیکھتا رہتا ہے۔ بھارتی وزیرِاعظم اور سابق قصابِ گجرات نریندر مودی صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کو اِس حملے کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ میں نے اپنے شہید جوانوں کا بدلہ لینے کےلیے فورسز کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اِس چائے فروش کا دھمکی آمیز لہجہ ملاحظہ فرمائیے: ’’ہم بدلہ ضرور لیں گے اور اِس حملے کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ لیکن یہ جواب کب، کہاں اور کیسے دیا جائے گا، اِس کا فیصلہ ہماری فوج کرے گی۔ اِس لیے آپ تھوڑا سا صبر کیجیے۔‘‘

قارئین! ہمارے دونوں پڑوسیوں کا اندازِ بیان تو ملاحظہ فرمائیے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک ہی ملک کے دو باشندے ہوں۔ اتفاق سے یہ دونوں ممالک پاکستان سے گہرے تعلق کے حامل ہیں۔ ایک کے بطن سے ہماری پیدائش ہوئی جبکہ دوسرے سے ہمارا دینی رشتہ ہے۔ لیکن افسوس کہ دونوں ہی پاکستان کی ترقی اور امن و استحکام سے نہ صرف ناخوش ہیں بلکہ پاکستان مخالف بیانات دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر پاکستان کے خلاف باقاعدہ الزام تراشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت سے تو خیر اسی قسم کے رویّے کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن تکلیف تب ہوتی ہے کہ جب ہمارا ’’برادر اسلامی ملک‘‘ ہمارے دیرینہ دشمن ہندوستان کی سی کڑوی کسیلی زبان بولتا دکھائی دیتا ہے۔

ایک انتہائی معتبر صحافی سے، جو کئی دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے وابستہ ہیں، دورانِ گفتگو پتا چلا کہ ایران کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات پر تنقید کرنے کو ہمارے ہاں مسلکی رنگ دیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کی کہ حضور، پاکستان مخالف بیانات کا جواب دینے میں مسلک کہاں سے آگیا؟ فرمایا کہ مجھے اور مجھ جیسے کئی کالم نویسوں کو کبھی ’’آلِ سعود کے ٹکڑوں پر پلنے والے‘‘ تو کبھی ’’ایران نواز صحافی‘‘ جیسے ’’اعزازات‘‘ سے نوازا جا چکا ہے۔

ماضی میں بھی پاکستان مخالف بیانات دینے اور دہشت گردوں کی سرپرستی جیسے الزامات لگانے میں ایران ہمیشہ ہندوستان کے شانہ بشانہ ہی رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کے گرفتاری کے بعد ہندوستان اور ایران کا پاکستان مخالف گٹھ جوڑ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ہندوستان کی طرح پاسدارانِ انقلاب نے بھی پاکستان میں داخل ہوکر کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی علاقوں میں مارٹر گولے فائر کرنے سے لے کر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادت کرنے تک، نہ جانے کتنے ہی واقعات ہیں جن میں ایران براہِ راست شامل رہا ہے۔ رہی بات ان کے مُلکوں میں اِن حملوں کی، تو حضور عسکریت پسند گروہوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہ دونوں ممالک خود ہیں۔

جیش العدل ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی انتہا پسند پالیسوں اور اقلیتوں سے ناروا سلوک کے ردِعمل کی بناء پر وجود میں آئی جبکہ جیشِ محمد جیسی تنظیموں کا وجود، کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی بدولت ہے۔ یہ دونوں ممالک اپنے اپنے گناہوں کا بوجھ زبردستی پاکستان پر لادنا چاہتے ہیں جو کسی صورت ممکن ہی نہیں۔

پاکستان دشمنی کو ہوا دے کر ہندوستان میں الیکشن جیتنے کا نسخہ سب سے آسان ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی) کے نیتا شری نریندر مودی جی اِس کام میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ بھارت میں پارلیمانی انتخابات قریب ہیں۔ کرسی کے حصول کےلیے مودی نے اپنے جوانوں کو بَلی چڑھا تو دیا لیکن اُن کی یہ چال اُلٹا اُن ہی کے گلے آپڑی۔

رہی بات ایران کی، توسیدھی بات ہے کہ دینی رشتے کا لحاظ اپنی جگہ لیکن ہمارے لیے وطنِ عزیز سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ پاکستان مخالف منافرتی فتنے کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا بطور پاکستانی ہمارا فرض ہے۔ ایران تو کیا اگر کسی دوسرے ’’برادر اسلامی ملک‘‘ کی جانب سے بھی پاکستان مخالف بیان آتا ہے یا ہم پر دہشت گردی کا الزام لگتا ہے، تب بھی ہمیں کسی قسم کی رعایت نہیں برتنی چاہیے۔

ہم پاکستان کا نمک کھاتے ہیں اور اُس کی نمک حلالی کرنا ہم پرفرضِ عین ہے۔ پاکستان کی مثال اُس چمن کے جیسی ہے جس میں مختلف رنگ و بو کے گُل پائے جاتے ہیں؛ اور یہی وہ خاصیت ہے جو ہمیں اوروں سے منفرد بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی کم عقل ہماری وطن پرستی کو مسلک پسندی کا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے چاہیے کہ اپنا گھر وہیں کرلے جس کی نمک حلالی کرنے کی اُسے خواہش ہو۔ المختصر:

اندازِ بیاں گر چہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مِری بات

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔