بلوچستان کابینہ؛ حکومت کی پہلی ناکامی

عابد میر  بدھ 31 جولائی 2013
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

میڈیا کے بعض حلقوں کی جانب سے بلوچستان کے نیلسن منڈیلا قرار دیے جانے والے بلوچستان کے پہلے غیر سردار، مڈل کلاس وزیر اعلیٰ حکومت سازی کے پہلے ہی مرحلے پر ایک ایسے گرداب میں پھنس کر رہ گئے ہیں، جہاں سے ان کی بازیابی یوں تو چند ایک دن میں ہو جائے گی لیکن یہ داغ ندامت ان کی حکومت کے ’صاف دامن‘ پہ صاف نظر آتا رہے گا۔ عموماََ حکومت کے منتخب ہونے کے اولین سو دنوں میں حکومت کی کارکردگی کو جانچتے ہوئے اس کے مستقبل سے متعلق اندازے لگائے جاتے ہیں، اِدھر ہماری نئی نویلی حکومت ہنی مون کے اس ابتدائی عرصے کا نصف دورانیہ گزر جانے کے باوجود اب تک کابینہ کی تشکیل جیسے بنیادی ایشو کو حل نہیں کر پائی، اور اس حکومت سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ بلوچستان کا مسئلہ حل کر لے گی۔

جمہوری قوتوں کی جانب سے اٹھارویں اور انیسویں ترمیم کا جھنڈا اب انھی کے گلے میں پھندا بن کے رہ گیا ہے۔ اہم وزارتوں کے سلسلے میں ہونے والی دوڑ دھوپ سے ہی مستقبل کے وزرا کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب تو یہ خبریں کوئٹہ کے صحافتی حلقوں میں زبان زدِ عام ہو چکی ہیں کہ کون سے وزیر موصوف کس وزارت کی فرمائش پہ اٹکے ہوئے ہیں، کون سی وزارت کی بولی کتنے میں لگائی گئی ہے۔ ایک طرف جہاں ن لیگ کی صوبائی قیادت کی سوئی اس بات پہ اٹکی ہوئی ہے کہ وزارت اعلیٰ اور گورنرشپ کی قربانی کے بعد اب صوبے میں اہم وزارتوں پہ ان کا حق بنتا ہے، تو دوسری طرف پہلی بار اسمبلی میں خاطر خواہ حصہ لینے والی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بیوروکریسی میں وسیع پیمانے کی اکھاڑ پچھاڑ کے لیے اہم وزارتوں پہ نظریں جمائے بیٹھی ہے، جب کہ حکومت کا حصہ واحد بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی بھی اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رکھنا چاہتی ہے۔ جس کے باعث کھینچا تانی کا عمل طویل اور حد درجہ پست ہو کر رہ گیا ہے۔

شنید میں تو یہ بھی ہے کہ ن لیگ کی اہم قیادت کی سوئی صوبے کی وزارتِ خزانہ کے لیے ایک ایسے آدمی کے نام پہ اٹکی ہوئی ہے، جو گزشتہ پندرہ برسوں سے مسلسل حکومتوں کا حصہ رہا ہے اورجس کے دامن کا ذرہ ذرہ کرپشن کی گواہی دے رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ موصوف صوبے میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث بعض گروہوں کی سربراہی کا برسر عام دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں دشت کے علاقے میں ایف سی کی جانب سے ہونے والی کارروائی میں ان کے دستِ راست بعض مجرموں کو جائے واردات پہ مغویوں کے ساتھ پکڑا گیا۔ لیکن اعلیٰ حکام ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ لوگ ہیں، ان پہ ہاتھ ڈالنے سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اسٹیبشلمنٹ کی نوکری کے عوض انھیں صوبے میں ہر قسم کی لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے۔ اس پہ طرہ یہ ہے کہ انھیں عوامی نمایندہ ہونے کا زعم بھی ہے اور اس وقت ملک کی سب سے بڑھ سیاسی اور حکومتی جماعت کا سائبان بھی انھیں حاصل ہے۔

اسی طرح پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اگر بعض اہم وزارتوں کے حصول پہ اڑی ہوئی ہے تو اس کا یہ دعویٰ بجا ہے کہ وہ اس وقت صوبے کی واحد اکثریتی جماعت ہے۔ اس وقت یہ بحث ہی بے معنی ہے کہ یہ اکثریت اسے کہاں سے اور کس طرح حاصل ہو ئی، فی الوقت تو وہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر حکومت میں حصے داری کی خواہاں ہے، اور وہ جو ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ ان کے ہر دوسرے بیان کی تان اسی پہ ٹوٹتی ہے کہ ہم نے اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود قربانی دی ہے، اس لیے اب وزارتوں پہ ہمارا جائز حق بنتا ہے۔ اور درست کہتے ہیں کہ پارٹی کو ملنے والی گورنرشپ اور خواتین کی مخصوص نشستوں پہ تو پارٹی سربراہ کی فیملی اکوموڈیٹ ہو گئی، ا ب ظاہر ہے کہ باقی امیدواروں کو بھی تو کہیں کھپانا ہے۔ اور ایسی جگہ کھپانا ہے کہ جہاں سے انتخابات میں کی گئی تمام تر سرمایہ کاری منافع سمیت واپس ہو سکے۔

اب رہ گئی ہماری بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی تو اس کا یہ عالم ہے کہ ان کے ٹکٹ پہ منتخب ہونے والا ہر ایم پی اے وزارت کا امیدوار ہے۔ اس سے کم کوئی بات سننے کو راضی ہی نہیں۔ بعض احباب ابھی سے وزارت نہ ملنے کا اشارہ پا کے خفا خفا سے ہیں۔ جنھیں کہیں جگہ نہ ملی، انھوں نے فارورڈ بلاک بنانے کی تیاریاں تک شروع کر دی ہیں۔ صحافی جس روز کابینہ سے متعلق سوال پوچھ لیں، جواب ہوتا ہے؛ کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے، دو چار دن میں معاملات طے ہو جائیں گے۔ ان دو، چار دنوں کو اب دو ماہ ہونے کو آئے، بھئی اگر اختلاف نہیں تو گورنرشپ کا فیصلہ ایک ہفتے میں ہو سکتا ہے، تو کابینہ کا فیصلہ دو مہینوں میں کیوں نہیں ہوتا؟

ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک بلوچستان کی کابینہ منتخب ہو چکی ہو، لیکن یہ بہرحال موجودہ ’عوامی‘ حکومت کی ناکامی ہی قرار پائے گی جو اپنے قیام کے دو ماہ تک کابینہ تشکیل نہ دے پائی۔ اور اس میں سب سے بڑائی برائی اور افسوس کا پہلو یہ ہے کہ وہ اسے اپنی ناکامی تسلیم کرنے تک کو تیار نہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اختیار کا اندازہ تو اسی سے ہوتا ہے کہ انھیں اپنی ٹیم تشکیل دینے کا اختیار بھی وزیراعظم کے حوالے کرنا پڑا۔ صوبائی دارلحکومت میں ہونے والی نجی سیاسی محفلوں میں تو اسمبلی کی غلام گردشوں کے بعض رازداروں نے کانا پھوسی کے انداز میں یہ پیش گوئی تک شروع کر دی ہے کہ انھیں یہ وزارت اعلیٰ برسوں نہیں، بمشکل مہینوں تک چلتی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر مالک کے مداحین بھی مسلسل شکوہ کناں ہیں کہ صوبے کے پہلے مڈل کلاس وزیر اعلیٰ کو بعض سرداروں نے بے بس کر رکھ دیا ہے، اور انھیں کھل کے کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ یہ توجیح نہایت عجب ہے! بھئی ایسی ہی بے بسی ہے تو اس آ گ سے کھیلنے کی ہی کیا ضرور ت ہے۔ سارا کھیل آگ لگانے والوں کے حوالے کیجیے ، اور اپنا دامن بچائیے۔ ورنہ اگر آگ کے کنویں میں کودے ہی ہیں تو پھر دامن تو جلے گا، اس میں دُہائی کیسی! اور پھر اس پہ طرہ یہ کہ جن سرداروں کی ’بلیک میلنگ‘ کی دُہائی دی جا رہی ہے، انھی کو کابینہ میں بھی لیا جار ہا ہے۔

اب یہ کابینہ بلوچستان کا کون سا مسئلہ حل کر پائے گی…آپ بھی دیکھئے، ہم بھی دیکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔