لال مسجد کیس ذمہ داروں کیخلاف کارروائی متعلقہ فورم پر ہوگی سپریم کورٹ
لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، کمیشن کی رپورٹ آگئی اب ہم کیا کریں؟، جسٹس گلزار احمد
لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، کمیشن کی رپورٹ آگئی اب ہم کیا کریں؟، جسٹس گلزار احمد فوٹو:فائل
سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کیس میں ریمارکس دیے کہ فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کی۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے وکیل کے بغیر تیاری اور تاخیر سے آمد پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ لال مسجد کتنے رقبے پرقائم ہوئی اور زمین کس کی ملکیت ہے؟۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لال مسجد سرکاری زمین پر قائم ہے۔ لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ لال مسجد کو توسیع دی گئی۔ اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مسجد کی خلاف قانون توسیع اسلام میں بھی منع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سانحہ لال مسجد کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنے کا حکم
طارق اسد نے کہا کہ ایسے سوالات کے جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تو جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ طارق اسد صاحب یہ ہی تو اصل بات ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کیس فارغ کردیا جائے گا۔ جسٹس فائزعیسی نے کہا کہ طارق اسد آپ کس کے وکیل ہیں؟۔ طارق اسد نے کہا کہ میں لال مسجد کا وکیل ہوں۔ جسٹس فائزعیسی نے کہا کہ لال مسجد تو کوئی ادارہ ہی نہیں ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز اورام حسان کا وکالت نامہ جمع کرایا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، لال مسجد کمیشن رپورٹ آگئی اب ہم کیا کریں؟ اگر کوئی فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔ طارق اسد نے کہا کہ عدالت کچھ نہیں کر سکتی تو کیس بند کردے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کو معاونت کا کہیں تو کہتے ہیں جواب دینا مناسب نہیں۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت نے سی ڈی اے کو جامعہ حفصہ کی تعمیر کا جائزہ لینے کا کہا تھا، زمین کسی کو دینے کا حکم نہیں دیا تھا، اگر سی ڈی اے نے کسی کو زمین دی ہے تو واپس لے، جامعہ حفصہ کی تعمیر اور چلانا حکومت کا کام ہے، کسی نجی ادارے یا شخص کو مدرسہ بنانے اور چلانے کی اجازت نہیں۔
عدالت نے لال مسجد آپریشن میں دو لاپتہ افراد کی معلومات طلب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ٹھوس اقدامات پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے، اگر دونوں لاپتہ افراد زندہ ہیں تو والدین کو حوالگی یقینی بنائی جائے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد جامعہ حفصہ کیلئے زمین مختص کی اور جامعہ حفصہ انتظامیہ کیساتھ متبادل جگہ کیلئے معاہدہ ہوا۔ چیف کمشنر نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کو 2004 میں بطور خطیب برطرف کیا گیا، لیکن انہوں نے مسجد کا کنٹرول نہیں چھوڑا۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ انتظامیہ نے ام حسان کیساتھ معاہدہ کس حیثیت میں کیا؟، وہ تو برطرف شدہ ملازم کی اہلیہ ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ سی ڈی اے اپنی پراپرٹی کا کنٹرول واپس لے، سرکاری زمین پر نجی شخصیات کو مدارس نہیں بنانے دینگے، حکومتی زمین اگر بانٹنی ہی ہے تو غریبوں کو دیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے9 جولائی 2007 کو لال مسجد آپریشن کے دوران لال مسجد آپریشن کا از خود نوٹس لیا تھا۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کی۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے وکیل کے بغیر تیاری اور تاخیر سے آمد پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ لال مسجد کتنے رقبے پرقائم ہوئی اور زمین کس کی ملکیت ہے؟۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لال مسجد سرکاری زمین پر قائم ہے۔ لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ لال مسجد کو توسیع دی گئی۔ اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مسجد کی خلاف قانون توسیع اسلام میں بھی منع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سانحہ لال مسجد کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنے کا حکم
طارق اسد نے کہا کہ ایسے سوالات کے جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تو جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ طارق اسد صاحب یہ ہی تو اصل بات ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کیس فارغ کردیا جائے گا۔ جسٹس فائزعیسی نے کہا کہ طارق اسد آپ کس کے وکیل ہیں؟۔ طارق اسد نے کہا کہ میں لال مسجد کا وکیل ہوں۔ جسٹس فائزعیسی نے کہا کہ لال مسجد تو کوئی ادارہ ہی نہیں ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز اورام حسان کا وکالت نامہ جمع کرایا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، لال مسجد کمیشن رپورٹ آگئی اب ہم کیا کریں؟ اگر کوئی فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔ طارق اسد نے کہا کہ عدالت کچھ نہیں کر سکتی تو کیس بند کردے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کو معاونت کا کہیں تو کہتے ہیں جواب دینا مناسب نہیں۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت نے سی ڈی اے کو جامعہ حفصہ کی تعمیر کا جائزہ لینے کا کہا تھا، زمین کسی کو دینے کا حکم نہیں دیا تھا، اگر سی ڈی اے نے کسی کو زمین دی ہے تو واپس لے، جامعہ حفصہ کی تعمیر اور چلانا حکومت کا کام ہے، کسی نجی ادارے یا شخص کو مدرسہ بنانے اور چلانے کی اجازت نہیں۔
عدالت نے لال مسجد آپریشن میں دو لاپتہ افراد کی معلومات طلب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ٹھوس اقدامات پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے، اگر دونوں لاپتہ افراد زندہ ہیں تو والدین کو حوالگی یقینی بنائی جائے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد جامعہ حفصہ کیلئے زمین مختص کی اور جامعہ حفصہ انتظامیہ کیساتھ متبادل جگہ کیلئے معاہدہ ہوا۔ چیف کمشنر نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کو 2004 میں بطور خطیب برطرف کیا گیا، لیکن انہوں نے مسجد کا کنٹرول نہیں چھوڑا۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ انتظامیہ نے ام حسان کیساتھ معاہدہ کس حیثیت میں کیا؟، وہ تو برطرف شدہ ملازم کی اہلیہ ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ سی ڈی اے اپنی پراپرٹی کا کنٹرول واپس لے، سرکاری زمین پر نجی شخصیات کو مدارس نہیں بنانے دینگے، حکومتی زمین اگر بانٹنی ہی ہے تو غریبوں کو دیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے9 جولائی 2007 کو لال مسجد آپریشن کے دوران لال مسجد آپریشن کا از خود نوٹس لیا تھا۔