بلاول کی سیاسی تربیت

توقیر چغتائی  بدھ 10 اپريل 2019

شیخ رشید نہ صرف عوام بلکہ ’’خواص‘‘ کے مزاج کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے دونوں کے ساتھ دل لگی میں مصروف رہتے ہیں ۔ خود پر عوامی لیڈر کا ٹھپہ لگانے کے لیے انھوں نے تمام پارٹیوں سے مایوس ہوکر’’ عوامی مسلم لیگ ‘‘ کے نام سے نئی پارٹی کا اعلان کیا ، لیکن انتخابی مہم کے دوران وہ اپنی پارٹی کے کسی جلسے کے بجائے اسلام آباد کے اُس دھرنے میں زیادہ نظر آئے جس میں صاحب و بندہ و محتاج و غنی ایک ہوگئے تھے۔

شیخ صاحب کا سیاسی کیریئر آمرانہ حکومتوں کے ادوار جتنا طویل نہ سہی، مگر اُن سے کچھ ہی کم ہے ۔ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ انھوں نے جمہوریت کا پنچھی قید کرنے کے لیے آمریت کی ڈال پر بیٹھے ہر شکاری کا ساتھ دیا ۔ اس الزام سے بچنے کے لیے جوانی کے ابتدائی دنوں میں انھوں نے ایوب خان کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔

1988ء میں انھوں نے پیپلزپارٹی کے مضبوط امیدوار جنرل ٹکا خان کو شکست دی ، مگر 2008ء کے عام انتخابات میں جب مخدوم جاوید ہاشمی کے ہاتھوں شکست کھائی تو انھیں فورا خیال آیا کہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے اُس پارٹی سے اتحاد ضروری ہے جس کے جیتنے کی پیش گوئیاں اور انتخابی مہم مقررہ مدت سے ڈھائی سال قبل ہی شروع ہو چکی ہے۔

اپنی غلطیوں کی معافی مانگنا کوئی آسان کام نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سیاسی میدان میں غلطی کرنے والوں کو یا تو جان سے جانا پڑتا ہے یا جان بچانے کے لیے غلطیوں کی معافی مانگنا پڑتی ہے شاید اسی لیے زیادہ تر سیاست دان معافی مانگنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

شیخ رشید جیسے زیرک اور پختہ کار سیاست دان ایسی غلطیاں تو نہیں کرتے جن کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ ہو ہاں اپنی غلطیوں کا اعتراف ضرورکرلیتے ہیں ۔ چند دن قبل ریل گاڑیوں کی بندش پر شیخ رشید نے عوام سے معافی مانگی تو وہ عوام کے مزید قریب آ گئے۔ اس موقع پر متاثرہ مسافروں کی آنکھیں تو پہلے ہی نم تھیں مزید ٹرینیں چلانے کا اعلان سن کر ان کے بھی آنسو نکل آئے جو غلام احمد بلور کے زمانے سے ریلوے کی بہتری کی خبریں سنتے چلے آ رہے تھے۔

شیخ صاحب کی عوامی محبت اُس وقت بھی دیدنی تھی جب موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے وہ راولپنڈی کی تنگ و تاریک گلیوں میں الیکشن مہم پر نکلے تھے۔ اس مہم میں عوام کی اتنی تعداد تو نظر نہ آئی جتنی دھرنوں میں دیکھی گئی تھی، مگر وہ کیا کیا کرتے کہ پنڈی کی تنگ و تاریک گلیوں میں نہ اتنے زیادہ عوام سما سکتے تھے اور نہ ہی وہاں کنٹینر لایا جا سکتا ہے ۔ مخالفین کہتے ہیں کہ الیکشن میں کامیابی کے لیے انھیں سر بازار تنور پر روٹیاں لگانا پڑیں، مگر یہ درست نہیں ۔ ان کے اس عمل سے جہاں زندگی کے مختلف امور پر اُن کی دسترس کی سند ملتی ہے وہاں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام سے قربت کے لیے ستر سال کی عمر میں بھی کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ۔

کہتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے۔ وہ زندگی میں بے شمار غلطیاں کرتا ہے، مگر اُسے چند ہی یاد رہتی ہیں۔ زیادہ تر اُس وقت یاد آتی ہیں جب وہ عملی زندگی سے کنارہ کش ہونے کے بعد صرف زبان کے سہارے وقت کو دھکا لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیخ صاحب سے یا اُن کے ڈرائیور سے ایک غلطی اُس وقت بھی سرزد ہوئی تھی جب وہ وزیر منتخب ہونے کے بعد موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے لمبی چوڑی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر اُس سڑک سے گزرے تھے جہاں ان کے حلقے کے کچھ لوگوں کے موٹر سائیکل پارک تھے۔ شیخ صاحب کی گاڑی کو راستہ نہ ملا تو موٹر سائیکلوں کو انتہائی بے دردی سے ادھر ادھر گرا دیا گیا تھا اور اس پر معافی بھی نہیں مانگی گئی تھی۔

بہت ساری عوامی خوبیوں کی طرح شیخ صاحب میں یہ خوبی بھی موجود ہے کہ کوئی چاہے نہ چاہے وہ اپنی سیاسی بصیرت دوسروں تک منتقل کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ پچھلے دنوں ملک کے سر کردہ سیاست دان مولانا فضل الرحمن نے ایک انٹرویو کے دوران جب بلاول بھٹو کو اپنی شاگردی میں لینے کا اظہارکیا تو ان سے چپ نہ رہا گیا اور کہنے لگے ’’میں مرگیا ہوں کیا۔‘‘

مولانا فضل الرحمن اور شیخ رشید کو مرنے، مارنے کی باتیں کرنے کے بجائے اگلے الیکشن میں آنے والی تبدیلی کی طرف دھیان دینا چاہیے جو پہلے سے بھی زیادہ تبدیلیاں لانے والا ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ ان کی عمر کے بہت سارے سیاست دان جو موجودہ اسمبلی میں نظر آتے ہیں اگلی اسمبلی میںشاید ہی نظر آئیں۔ بقول ن م دانش

مر کر بھی کیا ساتھ رہے گی

بیماری کی حد ہوتی ہے

ماضی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ٹی وی کا کیمرہ جس طرف اٹھتا ہمیں وہی چہرے نظر آتے جو آدھی صدی سے ملک کی قسمت پر ٹریڈ مارک کی طرح چسپاں تھے ، مگر اب ایسا نہیں۔ پرویز مشرف کی چند یادگاروں کے ساتھ اسمبلی میں اب ایسے چہرے زیادہ دکھائی دینے لگے ہیں جو پچھلے ادوارمیں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے مقابلے میں زیادہ نوجوان تو ہیںمگر انتہائی نا تجربہ کار بھی ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ ان سب کو چھوڑ کر شیخ رشید بلاول بھٹو کے ہی استاد کیوں بننا چاہتے ہیں ؟

جہاں تک ہمیں علم ہے بلاول کے منہ سے نہ تو کوئی ایسا سخت لفظ نکلا ہے جس کی اصلاح کرنا پڑے ، نہ ہی انھوں نے کسی بزرگ سے کوئی بد تمیزی کی اور نہ ہی ماضی کی کوئی حکومت گرانے یا بنانے میں ان کا کوئی کردار رہا ۔ وہ دنیا کی ایک اہم درس گاہ سے تاریخ اور سیاست کے شعبے میں ڈگری بھی حاصل کرچکے ہیں اور کئی ہم عصر سیاست دانوں سے زیادہ بہتر انداز سے دنیا میں آنے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا ادراک رکھتے ہیں۔

شیخ صاحب کی سیاسی دانش اگلی نسلوں تک منتقل ہونا اس لیے ضروری ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت ساری حکومتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مر کزی کر دار ادا کیا، مگر اب وہ زمانہ گزر چکا ہے ۔ بلاول اور اُس جیسے کروڑوں نوجوانوں کی تربیت کے لیے ہر لمحے کا حساب رکھنے اور ہرگھڑی کو حساب دینے کے لیے دنیا کی جدید ترین یونی ورسٹیوں سے کمپیوٹرسائنس کے ذریعے علم حاصل کرنے کے ساتھ ایسے حالات کا تجربہ بھی ضروری ہے جن میں کبھی نانا پھانسی پر لٹک جاتا ہے،کبھی ماں کا سر لاٹھیوں سے اڑا دیا جاتا ہے اورکبھی دراز قد ماموں کو قتل کرنے کے والے لاش کے آس پاس ہونے کے باوجود گرفتار نہیں ہو پاتے۔

بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن کو انتہائی تحمل سے جواب دیتے ہوئے کہا ہے ’’ میں نوجوان ہوں میری نئی سوچ ہے، مولانا ہماری ٹریننگ میں آجائیں تو ملک کے لیے بہتر ہوگا ‘‘ اُن کی اس بات میں صرف مولانا فضل الرحمن کے لیے ہی نہیں، شیخ رشید کے لیے بھی شاید ایک پیغام پوشیدہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔