نئے حکمران کی باتیں
خبر ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر دو گھنٹے کی تھی جسے ایک گھنٹے تک مختصر کر دیا گیا۔
Abdulqhasan@hotmail.com
کوئی چودہ برس بعد میاں محمد نواز شریف صاحب کو بطور وزیر اعظم قوم سے خطاب کا موقع ملا۔ قوم ان کے تازہ اقتدار کے شروع کے 75 دنوں تک ان کے اس خطاب کا انتظار کرتی رہی۔ انھوں نے کوئی گھنٹہ بھر پانچ منٹ کم یہ تقریر کی کیوں کی شاید اس لیے کہ وزیر اعظم وقتاً فوقتاً قوم سے خطاب کیا کرتا ہے اور یہ ان کے نئے اقتدار کا پہلا خطاب تھا جو انھیں کرنا تھا، اس لیے قوم اس کے انتظار میں بھی تھی۔ محترم میاں صاحب نے قوم کو فلاح کا قابل عمل راستہ دکھانے کے بجائے اس سے بہت سے وعدے کیے، ان کا زیادہ تر زور سڑکوں پر رہا۔ گوادر سے خنجراب تک سڑک، خنجراب سے کراچی تک اورکراچی سے لاہور تک سڑک ،کراچی کے اندر زیر زمین ریل کی سڑک دوسری سڑکوں کے ساتھ ساتھ بھی برقی ریلوے کی سڑکیں غرض ہر طرف سڑک ہی سڑک۔ جیسے یہ کوئی ٹرانسپورٹروں کی قوم ہے جس کی سب سے بڑی ترجیح سڑک ہے۔
سڑکوں کے علاوہ قوم کو بہت کچھ بتایا گیا ،کسی محنتی رپورٹر کی طرح انھوں نے پوری قوم کے مسائل اور مصائب کا ذکر کیا۔ ان کی تفصیل بتائی اور ان کے خاتمے کے لیے اپنے مستقبل کے منصوبوں کا ذکر کیا کہ یہ ہو گا اور وہ ہو گا۔ اسی ہو گا اور ہو گی میں قوم کی پوری زندگی گزر گئی ہے مگر مستقبل کے وعدے بس وعدے ہی رہے اور قوم کسی خوش کن مستقبل کا انتظار ہی کرتی رہ گئی، اس دوران حکمران آتے جاتے رہے اور نئے نئے وعدے کرتے رہے۔ میاں صاحب نے حیرت ہے کہ ملک کی پچھتر فی صد آبادی کے مسائل کا ذکر تک نہیں کیا اور انھوں نے زراعت کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا، ان کی تقریر تاجروں صنعتکاروں کے لیے تھی اور وہی اس پر خوشی بھی منا رہے ہیں۔ کسی جج صاحب نے خوب کہا ہے کہ اس تقریر سے کوئی غیر ملکی ڈراما دیکھ لینا زیادہ بہتر تھا۔ ویسے عرض ہے کہ قوم نے فوراً ہی نو بجے ڈرامے کو دیکھنا شروع کر دیا اور تقریر بروقت ختم ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔
خبر ہے کہ تقریر دو گھنٹے کی تھی جسے ایک گھنٹے تک مختصر کر دیا گیا۔ میرے خیال میں میاں صاحب کے جس عملے نے یہ کام کیا ہے اس نے ان کے ساتھ بھلائی کی ہے لیکن ہماری زراعت کو کاٹ دیا ہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ دو گھنٹے کی تقریر میں زراعت کا ذکر تھا بھی یا نہیں تھا بہر کیف زراعت پیشہ لوگ اب شہری تاجروں سے مال خریدیں اور اپنا مال شہری منڈیوں میں ان کی مرضی کے نرخوں پر فروخت کریں اللہ بھلی کرے گا۔ زمین جسے ماں کہا جاتا ہے وہ روٹی دیتی ہی رہے گی۔ شہروں میں تو زمین فارم ہائوسوں کے کام آئی یا رہائشی کالونیوں کے لیے۔
اقتدار کے گزشتہ 74 دنوں میں میاں صاحب نے حالات کا مطالعہ کیا ہے جو ان کی اس تقریر سے ظاہر ہے۔ انھیں تفصیل کے ساتھ قومی مسائل کا علم ہو چکا ہے اس کا حل اگرچہ انھوں نے بتایا نہیں لیکن مسائل کا علم ہے تو حل بھی نکل ہی آئے گا ابھی تک آئینی طور پر ان کے اقتدار کے پانچ برس پڑے ہیں اور اس مدت میں کوئی کرنا چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ البتہ شہزادگی میں کچھ کمی کرنی پڑے گی جو بلاشبہ بہت مشکل کام ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ان دنوں میاں صاحبان کا پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں ہے۔ میں نے بھی سوچا تو بظاہر نہ کوئی صنعت نہ کوئی تجارت کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی بار اقتدار ملنے کے بعد دونوں بھائی جو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تھے اپنے والد ماجد جنھیں وہ پیر و مرشد بھی سمجھتے تھے کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ وزیر اعظم بھی ہم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ہم، لوگ اقتدار کے اس ارتکاز پر اعتراض کریں گے اس لیے اجازت دیں تو ہم اپنا کاروبار صنعت وغیرہ بند کر دیں اس کے جواب میں مرحوم میاں صاحب نے کہا کہ پھر میں کیا کروں گا۔ صنعتکاری ہی تو ہماری زندگی ہے۔ میں کیسے بے کار بیٹھ سکتا ہوں۔ آج جب میاں صاحب نہیں ہیں تو بظاہر دونوں بھائیوں کے پاس کاروبار بھی نہیں ہے نہ صنعت نہ حرفت اور نہ تجارت۔ ایسا اگر ہے تو کیوں ہے اور ہے تو بہت اچھا ہے وہ اپنا پورا وقت حکمرانی اور عوام کی خدمت میں صرف کریں گے اور قوم کا ان سے یہی مطالبہ ہے اور اس لیے ان کو حیرت انگیز حد تک زیادہ ووٹ دیے ہیں۔ میاں صاحب کوئی قادر حسن تو نہیں کہ نوکری جائے تو بھوکوں مرے ان کے پاس خزانے ہیں اس لیے اگر وہ کوئی کاروبار نہیں کر رہے تو یہ ان کی کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی معزول بادشاہ ہیں جس کے پیچھے دشمنوں کے لشکر لگے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے کرپشن کا ذکر کیا ہے شاید ان کو اندازہ نہیں کہ اس کے عروج کا کیا حال ہے۔ ایک ریٹائرڈ ٹیچر بتا رہی تھی کہ اے جی آفس میں پنشن کے لیے ان سے علانیہ رشوت مانگی گئی کہ وہ شرما گئیں کہ اس قدر دیدہ دلیری۔ یہ ایک معمولی سی مثال ہے۔ چھوٹے یا بڑے میاں صاحب کسی کو کسی دفتر میں کسی کام کے لیے بھیجیں اور خود ہی اپنے اداروں میں رشوت کا حال معلوم کر لیں۔ قوم اور سرکاری دفتروں کی جڑوں تک میں پھیلی ہوئی اس کرپشن کا علاج کوئی مقدمہ، کوئی عدالت یا کوئی سرکاری کارروائی نہیں ہے۔ پھانسیاں ہیں جن پر رشوت خور لٹکے ہوئے قوم کے سامنے عبرت بنے ہوئے ہوں۔ کسی وعظ اور دفتری ضابطے کی دھمکی سے رشوت ختم نہیں ہو سکتی اور اگر کرپشن ختم نہیں ہوتی تو پھر اس ملک کو ناکام ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میاں صاحب اور ان کی حکومت یہ کام بالکل نہیں کر سکتی۔
میاں صاحب نے اپنی تقریر میں بھی لوڈشیڈنگ کا بہت شور مچایا ہے لیکن اس کا سب سے بڑا چور اور ذمے دار جس کو سپریم کورٹ بھی مجرم اور ملزم بنا چکی ہے دندناتا پھرتا ہے اور میاں صاحب کے لوڈشیڈنگ کے خلاف اقتدار نے ان سے پوچھا تک نہیں بلکہ ان کی لی ہوئی رشوت متعلقہ اداروں کو اب قومی خزانے سے خود ادا کر رہے ہیں اور یہ جو اسلام آباد میں ڈراما لگا ہے تو اس کی وجہ کرپشن کے سوا اور کیا ہے۔ اسلام آباد میں 18 تھانے ہیں ساڑھے دس ہزار پولیس کی نفری ہے ایک آئی جی تین ڈی آئی جی اور تین ایس ایس پی تمغوں سے بھری وردیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کا بجٹ کوئی پانچ ارب روپے کے قریب ہے اور ان کے اوپر وزیر داخلہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار مجھے اپنے ساتھی تنویر قیصر شاہد نے اسلام آباد سے دیے ہیں اور اپنے کالم میں نقل کیے ہیں۔ کیا میاں صاحب اس عظیم المرتبت حیران کن واقعے سے عبرت پکڑ کر کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ جی نہیں ہر گز نہیں کر سکتے صرف بیان دے سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی تقریر۔
میں میاں صاحب کو ایک نیک نیت محب وطن اور ملک اور قوم کا درد رکھنے والا شخص سمجھتا ہوں جو اس وقت مکمل اقتدار میں ہے اور یہ امید کرتا ہوں کہ وہ جتنا کچھ کر سکیں گے کریں گے۔ دونوں بھائیوں سے ایک مشترکہ عرض ہے کہ وہ توازن رکھیں۔ زیادہ حد ادب۔
سڑکوں کے علاوہ قوم کو بہت کچھ بتایا گیا ،کسی محنتی رپورٹر کی طرح انھوں نے پوری قوم کے مسائل اور مصائب کا ذکر کیا۔ ان کی تفصیل بتائی اور ان کے خاتمے کے لیے اپنے مستقبل کے منصوبوں کا ذکر کیا کہ یہ ہو گا اور وہ ہو گا۔ اسی ہو گا اور ہو گی میں قوم کی پوری زندگی گزر گئی ہے مگر مستقبل کے وعدے بس وعدے ہی رہے اور قوم کسی خوش کن مستقبل کا انتظار ہی کرتی رہ گئی، اس دوران حکمران آتے جاتے رہے اور نئے نئے وعدے کرتے رہے۔ میاں صاحب نے حیرت ہے کہ ملک کی پچھتر فی صد آبادی کے مسائل کا ذکر تک نہیں کیا اور انھوں نے زراعت کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا، ان کی تقریر تاجروں صنعتکاروں کے لیے تھی اور وہی اس پر خوشی بھی منا رہے ہیں۔ کسی جج صاحب نے خوب کہا ہے کہ اس تقریر سے کوئی غیر ملکی ڈراما دیکھ لینا زیادہ بہتر تھا۔ ویسے عرض ہے کہ قوم نے فوراً ہی نو بجے ڈرامے کو دیکھنا شروع کر دیا اور تقریر بروقت ختم ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔
خبر ہے کہ تقریر دو گھنٹے کی تھی جسے ایک گھنٹے تک مختصر کر دیا گیا۔ میرے خیال میں میاں صاحب کے جس عملے نے یہ کام کیا ہے اس نے ان کے ساتھ بھلائی کی ہے لیکن ہماری زراعت کو کاٹ دیا ہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ دو گھنٹے کی تقریر میں زراعت کا ذکر تھا بھی یا نہیں تھا بہر کیف زراعت پیشہ لوگ اب شہری تاجروں سے مال خریدیں اور اپنا مال شہری منڈیوں میں ان کی مرضی کے نرخوں پر فروخت کریں اللہ بھلی کرے گا۔ زمین جسے ماں کہا جاتا ہے وہ روٹی دیتی ہی رہے گی۔ شہروں میں تو زمین فارم ہائوسوں کے کام آئی یا رہائشی کالونیوں کے لیے۔
اقتدار کے گزشتہ 74 دنوں میں میاں صاحب نے حالات کا مطالعہ کیا ہے جو ان کی اس تقریر سے ظاہر ہے۔ انھیں تفصیل کے ساتھ قومی مسائل کا علم ہو چکا ہے اس کا حل اگرچہ انھوں نے بتایا نہیں لیکن مسائل کا علم ہے تو حل بھی نکل ہی آئے گا ابھی تک آئینی طور پر ان کے اقتدار کے پانچ برس پڑے ہیں اور اس مدت میں کوئی کرنا چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ البتہ شہزادگی میں کچھ کمی کرنی پڑے گی جو بلاشبہ بہت مشکل کام ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ان دنوں میاں صاحبان کا پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں ہے۔ میں نے بھی سوچا تو بظاہر نہ کوئی صنعت نہ کوئی تجارت کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی بار اقتدار ملنے کے بعد دونوں بھائی جو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تھے اپنے والد ماجد جنھیں وہ پیر و مرشد بھی سمجھتے تھے کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ وزیر اعظم بھی ہم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ہم، لوگ اقتدار کے اس ارتکاز پر اعتراض کریں گے اس لیے اجازت دیں تو ہم اپنا کاروبار صنعت وغیرہ بند کر دیں اس کے جواب میں مرحوم میاں صاحب نے کہا کہ پھر میں کیا کروں گا۔ صنعتکاری ہی تو ہماری زندگی ہے۔ میں کیسے بے کار بیٹھ سکتا ہوں۔ آج جب میاں صاحب نہیں ہیں تو بظاہر دونوں بھائیوں کے پاس کاروبار بھی نہیں ہے نہ صنعت نہ حرفت اور نہ تجارت۔ ایسا اگر ہے تو کیوں ہے اور ہے تو بہت اچھا ہے وہ اپنا پورا وقت حکمرانی اور عوام کی خدمت میں صرف کریں گے اور قوم کا ان سے یہی مطالبہ ہے اور اس لیے ان کو حیرت انگیز حد تک زیادہ ووٹ دیے ہیں۔ میاں صاحب کوئی قادر حسن تو نہیں کہ نوکری جائے تو بھوکوں مرے ان کے پاس خزانے ہیں اس لیے اگر وہ کوئی کاروبار نہیں کر رہے تو یہ ان کی کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی معزول بادشاہ ہیں جس کے پیچھے دشمنوں کے لشکر لگے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے کرپشن کا ذکر کیا ہے شاید ان کو اندازہ نہیں کہ اس کے عروج کا کیا حال ہے۔ ایک ریٹائرڈ ٹیچر بتا رہی تھی کہ اے جی آفس میں پنشن کے لیے ان سے علانیہ رشوت مانگی گئی کہ وہ شرما گئیں کہ اس قدر دیدہ دلیری۔ یہ ایک معمولی سی مثال ہے۔ چھوٹے یا بڑے میاں صاحب کسی کو کسی دفتر میں کسی کام کے لیے بھیجیں اور خود ہی اپنے اداروں میں رشوت کا حال معلوم کر لیں۔ قوم اور سرکاری دفتروں کی جڑوں تک میں پھیلی ہوئی اس کرپشن کا علاج کوئی مقدمہ، کوئی عدالت یا کوئی سرکاری کارروائی نہیں ہے۔ پھانسیاں ہیں جن پر رشوت خور لٹکے ہوئے قوم کے سامنے عبرت بنے ہوئے ہوں۔ کسی وعظ اور دفتری ضابطے کی دھمکی سے رشوت ختم نہیں ہو سکتی اور اگر کرپشن ختم نہیں ہوتی تو پھر اس ملک کو ناکام ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میاں صاحب اور ان کی حکومت یہ کام بالکل نہیں کر سکتی۔
میاں صاحب نے اپنی تقریر میں بھی لوڈشیڈنگ کا بہت شور مچایا ہے لیکن اس کا سب سے بڑا چور اور ذمے دار جس کو سپریم کورٹ بھی مجرم اور ملزم بنا چکی ہے دندناتا پھرتا ہے اور میاں صاحب کے لوڈشیڈنگ کے خلاف اقتدار نے ان سے پوچھا تک نہیں بلکہ ان کی لی ہوئی رشوت متعلقہ اداروں کو اب قومی خزانے سے خود ادا کر رہے ہیں اور یہ جو اسلام آباد میں ڈراما لگا ہے تو اس کی وجہ کرپشن کے سوا اور کیا ہے۔ اسلام آباد میں 18 تھانے ہیں ساڑھے دس ہزار پولیس کی نفری ہے ایک آئی جی تین ڈی آئی جی اور تین ایس ایس پی تمغوں سے بھری وردیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کا بجٹ کوئی پانچ ارب روپے کے قریب ہے اور ان کے اوپر وزیر داخلہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار مجھے اپنے ساتھی تنویر قیصر شاہد نے اسلام آباد سے دیے ہیں اور اپنے کالم میں نقل کیے ہیں۔ کیا میاں صاحب اس عظیم المرتبت حیران کن واقعے سے عبرت پکڑ کر کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ جی نہیں ہر گز نہیں کر سکتے صرف بیان دے سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی تقریر۔
میں میاں صاحب کو ایک نیک نیت محب وطن اور ملک اور قوم کا درد رکھنے والا شخص سمجھتا ہوں جو اس وقت مکمل اقتدار میں ہے اور یہ امید کرتا ہوں کہ وہ جتنا کچھ کر سکیں گے کریں گے۔ دونوں بھائیوں سے ایک مشترکہ عرض ہے کہ وہ توازن رکھیں۔ زیادہ حد ادب۔