ایتھنز کی ڈوبتی ریاست اور پاکستان

وارث رضا  منگل 21 مئ 2019
Warza10@hotmail.com

[email protected]

جب ریاست کمزور بنیاد پرکھڑی رکھنے کی ضد یا ہٹ دھرمی برقرار رکھی جائے تو ریاست کی ترقی و بڑھوتری کے سوتے سوکھنے لگتے ہیں اور آخرکار ایسی ریاست کا انجام خاتمے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ ریاستوں کی تعمیر اورکوتاہی کا وہ سبق ہے جو ہمیں تاریخ ہر موڑ پردینے کی کوشش کرتی ہے، جسے ماننا ، تسلیم کرنا اور نہ کرنا ہمارا اپنا فعل ہوتا ہے۔

پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت کی صورتحال میں اتنے موضوع زیر بحث لائے جاسکتے ہیں کہ ان کا احاطہ کم ازکم کالم نہیں کرسکتا،لہذا بقول ڈاکٹر توصیف خان ، بہترعمل یہی ہے کہ تاریخ کے طالب علم کے فرائض ادا کرتے ہوئے کسی ایک موضوع کا انتخاب کرلیا جائے، آج کے پاکستان کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں مجھے قبل از مسیح کے ایتھنز کی یاد آرہی ہے، جب دنیا کے تغیر اور تبدیلی کو نہ چاہتے ہوئے قبول کرنا پڑا تھا، اس واسطے مجھے دوبارہ کارل مارکس کے ہم رکاب فریڈرک اینگلس کے نقطہ نظرکی کتابی صورت’’خاندان ، ذاتی ملکیت اور ریاست کے آغاز‘‘کو پڑھتے ہوئے گمان سا ہوا کہ ہم کیا اب تک ایتھنزکے قبل از مسیح سے نہیں نکل پائے ہیں۔

فریڈرک اینگلز ریاست کا جائزہ لیتے ہوئے 509 قبل مسیح کی تصویرکشی کرتے ہوئے مختلف جزئیات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے، اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’ ایتھنزکے زوال کی وجہ جمہوریت ہرگز نہ تھی، بلکہ اس کا زوال غلامی کی وجہ سے ہوا جس کی بدولت آزاد شہریوں میں محنت بری چیز سمجھی جانے لگی‘‘ ان کے خیال میں جب ریاستیں زوال کی جانب بڑھتی ہیں تو تاریخ کے بادشاہی تلوے چاٹنے والے عالم یا داستان گو ریاستی حکمرانوں کی چاپلوسی خاطر’’جمہوریت ‘‘ یا عوام کی آزاد سوچ کو مورد الزام ٹہرا کر بادشاہ سلامت یا طاقتور قوتوں سے اسناد وانعام کے روا دار ہوتے ہیں۔

ایتھنزکی مذکورہ تاریخی سچائی کے بھیانک رخ کی جانب جب نظر پڑتی ہے تو مجھے آج کے پاکستان کی وہی تصویر نظر آتی ہے جو قبل مسیح کے ’’ایتھنز‘‘ کی تھی ۔آج کے پاکستان میں جمہوری اداروں کوکمزور سے کمزور ترکرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں مگر اسمبلی کے منتخب ارکان میں اتنی جرات اور استقامت نہیں کہ وہ باہم بیٹھ کر جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی ٹھوس کوشش کریں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ جمہوری ادارے یا پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہو سکتے۔

جمہوری ادارے بالکل مضبوط اور مستحکم ہوسکتے ہیں مگر جمہوری اداروں کوکمزورکرنے والی بادشاہی طاقت کے ’’شاہ دولہ‘‘ جب اسمبلیوں میں جتوا کر بٹھا دیے جائیں گے اور عوام کے ووٹ بادشاہی فرمان برادری میں ان کی جیت کے ساتھ نتھی کر کے ایک جعلی منتخب رکن اسمبلی میں بھیج دیا جائے گا تو وہ کیونکر عوام کی سیاسی اور معاشی آزادی کا دفاع کرے گا؟ ہماری منتخب پارلیمنٹ 1970 سے لے کر آج تک انھی افراد اور’’بادشاہ گر‘‘ کے فرمانبرداروں پر مبنی چلتی چلی آرہی ہے جو کسی قیمت عوام کو ان کی سیاسی اور معاشی آزادی دینے کے حق میں نہیں، ہماری اسمبلی کے ارکان کی اکثریت ان افراد کی چنی جاتی ہے جو بظاہر ووٹ ڈالنے کے عمل سے منتخب ہوتے ہیں مگر ان کا حتمی فیصلہ’’ طاقت کے بادشاہ‘‘ ہی کرتے ہیں ۔

ہمارے منتخب ارکان کی طاقت اور حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ طلبہ کی سیاسی آزادی اور ان کے حق کے استعمال کے لیے’’طلبہ یونین سازی‘‘ کا آئینی حق درج ہے جوکہ اسمبلی بحال بھی کرچکی ہے۔ طلبہ یونین سازی کے حق کو پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں تسلیم کرتے ہوئے طلبہ یونین سازی کی اجازت دینے کا وعدہ اسمبلی کے فلور پرکیا مگر پی پی اور نواز شریف کی حکومت دس سال کے اقتدار میں بھی طلبہ کا یہ آئینی حق نہ دلوا سکی اور نہ ہی اب طلبہ کے اس حق پرکوئی بولنے یا قرار داد لانے پر تیار ہے،کیوں؟اس لیے کہ جب استاد علم دینے سے زیادہ نوکرشاہی کی مراعات اور مفاد کی چادر اوڑھنے کو ترجیح دیں گے اور پرنسپل یا وائس چانسلر میرٹ کے بجائے’’ طاقت کے بادشاہ‘‘ کی آبرو کے اشارے پر اپنی اسناد اور تعلیمی غیرت گروی رکھ دیں گے تو وہ اساتذہ جمہوری آزادی سے زیادہ طلبہ کے حقوق کو سلب کرنے کی بادشاہی خواہش کے غلام ہونگے۔

طلبہ یونین کی بحالی میں منتخب ارکان کے علاوہ استاد سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آمر ضیا کی طلبہ دشمنی اور ارکان پارلیمنٹ کے خلاف مشرف کے قانون’’ نیب آرڈینینس‘‘ کو اسمبلی اراکین چاہتے ہوئے بھی زیر بحث نہیں لا سکتے کہ ’’طاقت کے بادشاہ‘‘ کو ناراض کرنے کی جرات جاگیرداروں اور سرداروں میں کہاں سے لائی جائے۔ جب غیر جماعتی بنیاد پر ووٹ کے ذریعے طاقت کے بادشاہ اسمبلی لے آئیں اور عوام چپ سادھ لیں تو ایسے ملک کی ریاست کیونکر ’’جمہوری طاقت‘‘ کا وہ نشان بنے گی جہاں عوام کی سیاسی اور معاشی آزادی کا خواب دیکھا جائے گا۔

مجھے قبل از مسیح کے عوام پر رشک آتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بغیر اتنے باشعور تھے کہ سب سے پہلے انھوں نے ’’گن کلچر‘‘ اور’’دفاع‘‘ کو عوام کی آزادی کا دشمن قرار دیکر ریاست سے نکال دیا اور اس کے بعد ’’طاقت کے بادشاہ‘‘ کے ان سلیکٹیڈ اور نمک خواروں کا احتساب کیا جو ایتھنز کے عوام کے حقوق کو سرمائے کی چکی میں پیس کر اپنے بیرونی آقاؤں کی جھولی میں ڈال رہے تھے۔ آج کے پاکستان میں معاشی اور سیاسی ابتری کو ’’طاقت کے بادشاہ‘‘ نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب غلام نسل کو بیرونی سرمائے کی فراوانی کا جھانسہ دے کر مزید غلامی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ جب ریاست کے حکمران صبح وشام ’’طاقت کے بادشاہ‘‘ کی غلامی میں جھوٹ بولیں اور دیگر سیاسی جماعتیں عوام کی فلاح کے سوا تمام امور پر سیاست کریں تو آخری نتائج میں یہ عوامل ’’ ریاست‘‘ کی سیاسی اور معاشی موت ٹہر جاتے ہیں۔جب کہ بیرونی اثرکے بڑھتے ہوئے سائے پاکستان کی ریاست پر پڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس میں خطے کے معاشی حریف دیر یا بدیر دست وگریباں ہوتے نظر آرہے ہیں ۔

چین کے معاشی مفادات اور ایران کے امریکی دباؤکا ملبہ دوبارہ سے پاکستان کے کندھوں پر’’امریکا سعودی‘‘ فرمانبرداری میں قبول کرنے کی کوششیں جاری بھی ہیں تو دوسری جانب عوام کو بہادر قوم کی تصویر دکھانے کے واسطے وزیرخارجہ ’’طاقت کے بادشاہ‘‘ کے حکم پر خطے میں امریکی اثرکو قبول نہ کرنے کا ایسا ’’ ڈھونگی ‘‘ مظاہرہ کرنے پر مامورکردیے گئے ہیں جو صرف اپنی نوکری پکی کررہے ہیں وگرنہ کسی طور ایک وفاقی وزیر کا بیانیہ اس خطے کو امریکی اثر سے نہ بچا سکے گا کہ بنیادی شرط ہی امریکی بالادستی ہونا ہے۔

گو وزیر کے اس بیانیے کے ذریعے ہمارے وزیر چین اور ایران و روس کو باورکروا رہے ہیں کہ پاکستان پڑوسیوں سے دوری کی ماضی والی غلطی نہیں دہرائے گا، مگر دوسری جانب پاکستان کے امریکی مخالف اشارے کو چین ایران اوروس ایک سنجیدہ کوشش گرادننے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ اس مشکل خارجہ امور میں ’’طاقت کے بادشاہ‘‘ کے مفادات کو جب تک تحفظ دیا جاتا رہے گا اس وقت تک نہ ہی پاکستان میں جمہوری آزادی کے فروغ کو تقویت ملے گی اور نہ ہی بیرونی معاشی دباؤ سے ملک نکلے گا۔ایسی ہی شکستہ صورتحال میں اکثر ریاستیں بیرونی طاقت کا تختہ مشق بن جاتی ہیں جوکسی نہ کسی صورت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جواز ہوا کرتی ہیں۔

اس خطرناک حالات میں جب ’’ طاقت کے بادشاہ‘‘ کے سلیکٹیڈ کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا کر کسی صوبے کو اپنے جاگیری اور سرداری مفادات میں توڑنے پر لگا دیا جائے تو ریاست کی کمزوری اس کا بنیادی تقاضہ ہوا کرتی ہے۔ جس میں عوام ریاست سے بیزاری کا مظاہرہ کرکے اس کے معاملات میں دلچسپ لینا چھوڑ دیتے ہیں جوکہ ریاستی جڑکے مخالف فکر اور ریاستی کمزوری کی دلیل ہوتی ہے، جس سے بچنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی۔ ریاست ہر عوام کے اعتبارکی کمی سے پاکستان ایک مرتبہ پھر خطے کے معاشی مفادات میں تختہ مشق بنتا دکھائی دیتا ہے۔اس صورتحال کے ادراک خاطر جب تک بہتر اور سائنسی بنیادوں پر نظریاتی سیاسی اور معاشی حکمت عملی نہیں جوڑی جاتی اس وقت تک ریاست قائم رکھنا مشکل نظرآتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔