جمال پرستی یا فطرت کا چمتکار

شاہد سردار  اتوار 26 مئ 2019

جن دنوں انور مقصود کا سیریل ’’ ستارہ اور مہرالنسا ‘‘ مقبولیت حاصل کر رہا تھا ، ان دنوں انور مقصود حرم شریف میں طواف میں مصروف تھے۔ ان کے مطابق ’’اس دوران کاندھے پر تھپکی محسوس ہوئی میں نے پلٹ کر دیکھا یہ سوچ کر کہ شاید کوئی فرشتہ گناہوں سے نجات کی بشارت دینے خود آگیا ہو، لیکن کاندھے پر تھپکی دینے والا پاکستانی نکلا۔ مسکرا کر پوچھنے لگا آپ انور مقصود ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ وہ بولا آپ سے ایک کام تھا۔ میں نے کہا جی بولیں۔ حرم شریف کا طواف کرتے، احرام باندھے شخص نے ادھر اُدھر دیکھ کر سرگوشی کی ذرا عتیقہ اوڈھوکا ٹیلی فون نمبر تو مجھے لکھوائیے گا۔‘‘

دراصل غزلوں اور گیتوں کے تربیت یافتہ اور وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ جیسے اشعار کے دلدادہ مردوں کی اکثریت عورت کو پانچ پھولوں کے وزن والی پری ہی سمجھتی ہے، جمال کی ملکہ اور جمالیات کے فلسفے میں ہی اسے دیکھتی ہے۔ شاعرِ مشرق یا شاعرِ مغرب لاکھ برا مناتے رہیں مگر عورت کو اعصاب پر سوار کرلینے میں جو بات ہے وہ ناقابل بیان اور انمول ہے، سب کہہ سن کر بلا آخر یہی تسلیم کرنا پڑا ہر کس و ناکس کو کہ عورت فطرت کا چمتکار ہے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ جب کوئی دوشیزہ یا خوبصورت عورت پبلک مقام سے گزرتی ہے تو نوجوان اپنی ڈرائیونگ تک بھول کر اسے ’’ونڈ اسکرین‘‘ سمجھ لیتے ہیں، دکاندار مسکرا کر ان کے استقبال پر تل جاتے ہیں، ادھیڑ عمر اپنی پوشاک پر نگاہ ڈالتے اور بزرگ اپنی داڑھی کھجانے لگتے ہیں اور خوش پوش مرد کا ہاتھ فوراً اپنی ٹائی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔

دراصل اس میں قصور انسانوں کا نہیں اس لیے کہ جمال پرستی اس کی سرشت میں ڈالی گئی ہے اور ویسے بھی بعض چہرے اپنی کشش اور دلکشی کے باعث شہرت اورکامیابی کے ساتھ حد درجہ توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ’’ہیلن آف ٹرائے‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا چہرہ تھا جس کی وجہ سے ایک ہزار بحری جنگی جہازوں کا بیڑہ حرکت میں آگیا تھا ، ویسے بھی گناہوں کی ترغیب دینے والی تمام چیزیں خوبصورت، دلکش یا پرکشش ہی ہوتی ہیں اور اپنی طرف راغب کرتی ہیں، یہی اللہ کی مصلحت ہے۔

امریکا، لندن، چین، جاپان، تھائی لینڈ اور فلپائن وغیرہ کی معاشرت کا یہ پہلو ہمیں بہت اچھا لگا کہ عورتیں اور مرد تمام کام ایک ساتھ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر کوئی پلٹ کر عورت کو دیکھتا تک نہیں ہے۔ عورتیں بھی بلا خوف و خطر ہر جگہ گھومتی اور کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کسی قسم کی جھجک یا خوف ان میں نہیں پایا جاتا۔ کیوں کہ نہ انھیں کوئی گھورتا ہے، نہ ان پر آوازے کستا ہے۔ یہ سب حرکتیں ہم نے صرف اپنے ملک ہی میں دیکھی ہیں جہاں عورت کو مرد حضرات اس قدر ندیدے پن سے دیکھتے ہیں کہ بس نہیں چلتا کہ انھیں آنکھوں ہی آنکھوں میں نگل جائیں۔ یہ معیوب حرکت محض ان پڑھ اور غیر مہذب لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والے مرد بھی زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔ خدا جانے یہ ہمارا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا تربیت کی کمی ہے۔ ہم نے عورتوں کے بارے میں جو رویہ برصغیر کے مردوں کا دیکھا وہ کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایشیائی ممالک بھی اس بدعت سے محفوظ ہیں۔

ایران، افغانستان، مشرق وسطیٰ کے ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے لوگ بھی ہم سے قطعی مختلف ہیں اور تو اور سری لنکا میں بھی یہ رواج نہیں دیکھا گیا حالانکہ کسی زمانے میں وہ بھی برصغیر ہی کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا مگر شاید درمیان میں سمندرکے مختصر فاصلے سے دوری کی بنا پر وہاں کا معاشرتی ڈھانچہ بھی ہم سے کچھ مختلف ہے۔ سری لنکا کے شہروں اور دیہاتوں میں عورتیں ہر طرح کے ملبوسات اور حلیوں میں گھومتی ہوئی اور کام کرتی نظر آتی ہیں مگر یوں لگتا ہے جیسے کہ مردوں کے نزدیک صنف مخالف کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ وہ ان سے قطعی بے پرواہ اور بے نیاز نظر آتے ہیں۔ خصوصیات سے پاکستان میں یہ رویہ انتہائی افسوسناک معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور ہم سب اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر افسوس کہ اخلاق و عادات کے معاملے میں مسلمانوں جیسا طرز عمل ہم نہیں اپناتے۔

ایک بار ہم نے اس موضوع پر ماہرین معاشرت اور ماہرین نفسیات کے علاوہ کئی دانشوروں اور علما سے بھی تبادلہ خیالات کیا اور یہ جاننا چاہا کہ ہمارے ملک میں صنف مخالف کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی مرد حضرات ایک دم چوکنا کیوں ہو جاتے ہیں؟ اور ان کی آنکھیں اور کان ان کی طرف کیوں مرکوز ہوجاتے ہیں؟ علما نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کن جواب نہیں دیا۔ اتنا کہا کہ اگر عورتیں بے پردہ اور مختلف قسم کے ترغیب انگیز لباس پہن کر سر عام نظر آئیں گی تو مردوں کا اپنی سرشت کے ہاتھوں مجبور ہوجانا لازم ہے۔ ہم نے پوچھا مگر باپردہ عورتوں کو دیکھ کر بھی تو ان کا رویہ یہی ہوتا ہے ایسا کیوں؟ جواب ملا اسی لیے ہمارے مذہب نے عورتوں کو بلا ضرورت گھر سے نکلنے اور اپنی زیب و زینت کا مظاہرہ کرنے کی ممانعت کی ہے۔ عرض کیا لیکن جو خواتین کسی ضرورت کے تحت باہر نکلتی ہیں ان سے بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور پھر یہ کیوں کر علم ہو کہ یہ عورت بلا ضرورت باہر نکلی ہے یا کسی شدید ضرورت کے تحت مجبور ہوکر گھر سے باہر آئی ہے؟

بہرکیف جہاں تک عورتوں کا گھروں کے اندر بیٹھ جانے کا تعلق ہے، اسلام اس قسم کی پابندیوں سے عملی طور پر بے نیاز ہے۔ قدیم عربوں کے ماحول میں عورتیں بے باکی سے پھرتی تھیں۔ طلوع اسلام کے بعد انھیں حجاب اور پردے کی ہدایت ملی تو انھوں نے چادریں اوڑھ کر باہر نکلنا شروع کردیا مگر اسلامی تاریخ میں یہ پابندی کہیں نظر نہیں آئی کہ عورتیں گھروں کے اندر قید ہوکر بیٹھ گئی ہوں۔

اس کے برعکس ماہرین نفسیات اور دانشوروں کی رائے یہ تھی کہ ہمارے ہاں عورتوں کا چھپ کر رہنا یا سخت پردے میں رہنا ہی اس رویے کا سبب ہے۔ اگر خواتین کو بے جا پابندیوں سے آزاد کرکے معاشرے میں گھلنے ملنے کی عام اجازت مل جائے تو کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔مگر یہ دلیل بھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ شہروں میں اب عورتیں کافی تعداد میں نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود مرد حضرات کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کے برعکس دیہاتی زندگی میں عورتیں بڑھ چڑھ کر روز مرہ کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں یہاں تک کے کھیت کھلیانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ مصروف نظر آتی ہیں مگر وہاں کے مرد و زن اس فرق سے بے خبر اور بے نیاز کیوں ہوتے ہیں؟ دیہاتی لوگ عورتوں کو ندیدوں کی طرح کیوں نہیں دیکھتے؟ ان پر آوازے کیوں نہیں کستے؟ سیٹیاں کیوں نہیں بجاتے؟ یہ گتھی ہم آج تک نہیں سلجھا سکے؟

خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا مگر ہے ایک قابل غور حقیقت جس پر ہم سب کو غور ضرورکرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔