لٹتی رہے گی بنت حوا!!

شیریں حیدر  اتوار 26 مئ 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

گھر سے بہن کے ساتھ شاپنگ کے لیے نکلی، مین ایونیو پر مجھے سڑک کے انتہائی دائیں جانب وہ چھوٹی سی متحرک چیز دور سے نظر آئی۔ کبھی وہ کنارے پر ہوجاتی اور کبھی عین سڑک کے وسط کی طرف ڈولتی ہوئی وہ چیز… لمحوں کا معاملہ تھا کیونکہ سڑک اتنی طویل نہیں ہے۔ پاس سے گزرنے والی گاڑیاں اس سے بچ بچا کر نکل رہی تھیں، جونہی میں اس کے قریب پہنچی اور رفتار آہستہ کی تو میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔

ایک یا دو سال کی عمر کے بچوں کے لیے وہ سفید گاڑی اور اسے اس مرکزی سڑک پر چلانے والا وہ ننھا سا شاہسوار، جس کی عمر دو سال بھی نہیں ہو گی۔ اسے دیکھتے دیکھتے گاڑی آگے نکل آئی تھی، میں نے گاڑی کو ریورس کیا اور بہن سے کہا کہ باہر نکل کر دیکھے، جو کوئی بھی اس کے ساتھ ہے اس کی اچھی طرح کلاس لے۔ اس نے باہر نکل کر دیکھا، دور دور تک کوئی ایسا نہ تھا جو اس کے’’ ساتھ‘‘ نظر آتا۔

ہم سوچ ہی رہے تھے کہ اس بچے کو اپنی گاڑی میں ڈال کر گھر لے جائیں اور ان والدین کو ڈھونڈنے دیں جنہوں نے یوں اسے اس اہم سڑک پر اتنی سی گاڑی دے کرنکال دیا ہے کہ دور سے چند بچے بھاگتے اور پشتو زبان میں کچھ چلاتے ہوئے اسی طرف آتے دکھائی دیے ۔ پاس پہنچ کر ان میںسے ایک نے سفید گاڑی اٹھائی اور دوسرے نے دو تین جھانپڑ اس معصوم کو لگائے جسے یہ بھی علم نہ تھا کہ وہ موت کے کنویں میں گاڑی چلا رہا تھا۔ اسے وہ اپنے ساتھ ڈانٹتے پھٹکارتے ہوئے لے کر چلے گئے۔

اپنی جگہ میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے معاشرے میں کتنی بے حسی آ گئی ہے، اس کے پاس سے جانے کب سے کتنی ہی گاڑیاں گزر کر گئی تھیں اور اس وقت بھی گزری تھیں، کسی نے اس خطرے کا احساس نہیں کیا کہ اس بچے کے ساتھ کیا ہو سکتا تھا۔ کوئی تیز رفتار گاڑی آتی اور اسے کچل جاتی، کوئی شکاری تاک میں ہوتا اور اسے اٹھا کر لے جاتا، کسی کو علم تک نہ ہوتا۔ آج اس اہم موضوع پر کالم لکھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ کیا بچیوں ، بچوں، لڑکیوں اور عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات صرف اسی دور میں ہو رہے ہیں یا ہمارے ہاں ہی ہوتے ہیں؟ کیا یہ واقعات گزشتہ چند سالوں سے خطرناک حد تک بڑھ نہیں گئے ہیں؟ اس کے کیا اسباب ہیں، کبھی غور کیا آپ نے؟

ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات نہیں ہوتے رہے ہیں، حیوانی جبلت ہر دور کے انسانوں میں رہی ہے اور ایسا اکا دکا واقعات ہم نے بھی اپنے بچپن میں یا اپنے بزرگوں کے منہ سے اپنی پیدائش سے پہلے کے ادوار سے بھی سنے ہوں گے ۔ اس وقت ایسے واقعات کی یوں تشہیر نہ ہوتی تھی کیونکہ اپنی بدنامی کے خوف سے ان پر ’’ مٹی‘‘ ڈال دی جاتی تھی ۔ اس دور میں ایسے واقعات کا شکار ہونے والے بچوں کی اکثریت اپنے ان رشتہ داروں اور دوستوں سے ہوتی تھی جن کے بارے میں ان کے والدین گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ باہر سے آنے والا تو کوئی بھی شخص پورے محلے یا گاؤں کی نظر میں ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات میں اضافہ ہونے لگا اور ان شکاریوں میں گھریلو ملازمین، اسکولوں کے ملازمین، اسکول لے جانے والے ڈرائیور اور قریبی دوست شامل ہو گئے ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دور میں ایسے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے لیے چند اہم نکات یہ ہیں۔ معاشرتی نظام میں تبدیلی، والدین کی مذہب سے دوری اور اولاد کے معاملات کی طرف سے غفلت، مخلوط پارٹیاں ، میڈیا کا کردار، ٹیوشن سینٹرزاور رزق حرام کی فراوانی۔معاشرتی نظام کے لیے جیسا کہ میں نے اوپر مثال پیش کی ہے، کسی کا بچہ سڑک پر تنہا جا رہا ہو یا اسے کوئی بہلا پھسلا کر لے جا رہا ہو تو ہم پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو جاتے ہیں یا اس جگہ سے ہل جاتے ہیں کہ پرائے پھڈے میں ٹانگ کیا اڑانا، ہمیں اس سے کیا لینا دینا، ہم کون سا اس بچے کو جانتے ہیں، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہاں اس وقت فرق پڑتا ہے جب ہمارے اپنے بچے کے ساتھ کچھ ہو، پھر ہم دوسروں کی بے حسی کے رونے بھی روتے ہیں اور سماجی نظام کو لعن طعن بھی کرتے ہیں جس نے آپس میں دوریاں اور فاصلے پیدا کر دیے ہیں اور لاتعلقی بہت سے جرائم کا باعث بنتی ہے ۔

والدین اپنی اولادوں کو اچھے اور برے میں تمیز سکھانا چھوڑ گئے ہیں، اجنبیوں سے فاصلہ رکھنا اور والدین کو ہر معاملے میں اعتما د میں لینا انتہائی اہم ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کے لباس کے معاملات سے غافل ہیں اور انھیں گھر سے باہر جاتے ہوئے نازیبا اور نا مکمل لباس میں دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیتیں ہیں… انھیں علم ہے کہ وہ اگر بیٹی سے کہیں گی کہ لباس باہر جانے کے لیے مناسب نہیں تو وہ جواب میں چلائے گی کہ مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنا چاہئیں !! جب آپ ایسی بے لباسی سے باہر نکلیں گی تو یہ تو شیطا ن کو خود سے دعوت دینے والی بات ہے ۔ گھر کے ملازمین، باہر کے مرد تو ظاہر ہے کہ رالیں ٹپکائیں گے ہی، بچیوں کے محرم رشتوں کی طرف سے دراز دستی کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔

اسکولوں اور کالجوں کے بچوں اور بچیوں نے نت نئے رواج نکالے ہیں جن میں hang out اور  sleep over کی ٹرم سے آپ میں سے کئی لوگ واقف ہوں گے۔ والدین کی سرپرستی اور سخت نظر سے دور آپس میں بچے کیا کرتے ہیں، نہ اس کا کسی کو علم ہے نہ ہی ماں باپ پوچھنے کی جرات کرتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں بچوں میں نہ صرف غلط تعلقات پرورش پاتے ہیں بلکہ بچے مل کر مختلف انواع کے نشے کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ نہ صرف خود تباہ ہوجاتے اور اپنا مستقبل تاریک کر لیتے ہیں بلکہ والدین کے لیے بھی عمر بھر کا عذاب مول لیتے ہیں۔ اپنا ایک اصول رکھیں کہ بچوں کو کہیں بھی رات نہ رکنے دیں خواہ وہ آپ کے کسی سگے رشتہ دار کا گھر ہو، کتنا بھی قریبی ہو۔ جہاں آپ خود جائیں ، وہاں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں، جہاں آپ بیٹھیں، وہاں بچوں کو نظر کے سامنے رکھیں ۔ بچوں کے دوستوں کے والدین کے ساتھ دوستی بنائیں اور ان سے ملاقات کر کے سب کے والدین آپس میں لائحہ عمل طے کریں کہ اگر بچوں کو باہر جانا ہے یا کسی دوست کی طرف رات رکنا ہے خواہ وہ پڑھائی کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو، دو، ایک والدین اس میں شامل ہوں گے۔ اپنے بچے کو غلطی پر دیکھیں تو اس کی بھی سرزنش کریں نہ کہ اس کا ذمے دار کسی اور کے بچے کو ٹھہرائیں۔

ٹیوشن سینٹرز کی وباء نے والدین کو بے بس کر دیا ہے… اسکولوں میں وہی اساتذہ پڑھانے کی بجائے ’’ شکار‘ ‘ تاڑتے رہتے ہیں اور اپنے ٹیوشن سینٹرز کے لیے گاہک تلاش کرتے ہیں۔ اسکولوںکی انتظامیہ کی طرف سے اس کی سختی ہونا چاہیے کہ ان کے اسکول کا کوئی استاد ٹیوشن سینٹر میںنہیں پڑھائے گا یا کم از کم اسی اسکول کے بچوں کو نہیں پڑھائے گا۔ والدین کو اس بات کا بھی انتظام کرنا چاہیے کہ باری سے ٹیوشن سینٹرز کے باہر ڈیوٹی دیں یا کوئی آدمی ( اپنا ڈرائیور وغیرہ) اس بات کی ڈیوٹی کے لیے رکھ لیں کہ ان کے بچے ٹیوشن سینٹر میں صرف پڑھائی ہی کریں اور اس کی آڑ میں نشہ نہ کریں اور نہ ہی وہاں سے غائب ہو کر کسی اور قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوں ۔

رزق حرام کی فراوانی معاشرے میں جس بے اعتدالی کا سبب بنتی ہے وہ کس سے چھپا ہے۔ رزق حرام… کی چربی جب آنکھوں پر چڑھ جاتی ہے تو انسان، سؤر اور گدھ کا فرق مٹا دیتی ہے ۔ اپنے ارد گرد دیکھیں، یہ نہ سوچیں کہ آپ حرام نہیں کھا رہے، حرام صرف حرام گوشت، شراب، جوئے کی آمدنی یا حرام کاری سے کمائی ہوئی رقم نہیں ہے ۔ جھوٹ بول کر، دوسروں کا حق مار کر، ذخیرہ اندوزی کر کے، سفارش یا رشوت سے، اقرباء پروری سے، یتیم کے مال کو کھا کر، ناجائز ذرائع آمدنی کو چھپا کر، زکوۃ نہ ادا کر کے اور ٹیکس چوری کر کے، غرض ہر اس طریقے سے جس کی مذہب، معاشرہ یا قانون اجازت نہیں دیتا، ہم کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک اپنے رزق میں حرام کی آمیزش کر لیتے ہیں جو اصل خرابی کا ایک اہم سبب ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کے بچوں کو محفوظ و مامون رکھے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔