مبالغوں کی دلدادہ قوم

خرم علی راؤ  جمعـء 31 مئ 2019

اگر دیکھا جائے تو ہم اور ہماری قوم مختلف مبالغوں اور مفروضوں کے دلدادہ اور ان میں کچھ یوں گھرے رہتے ہیں کہ بہت سی حقیقتوں کو فراموش کرجاتے ہیں۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ ہم ایک مفروضہ و مبالغہ پسند قوم ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ بہت سے مفروضے ہر سطح پر یعنی عوامی سے لے کر خواص اور اشرافیہ کی سطح تک ، نیزسیاسی ،سماجی اور مذہبی سطح پر ہم اپنائے ہوئے اور محبوب دلبر ودلنشیں کی مانند سینے سے لگائے بس جئے ہی چلے جارہے ہیں۔ تو آئیے ذرا ان مفروضوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پہلا مفروضہ بڑا ہی زبردست ہے اور وہ یہ کہ ہم ایک بخشی بخشائی قوم ہیں۔ خدا کے بہت ہی لاڈلے ہیں۔ جنت ہم نے ٹھیکے پر اپنے نام لکھوالی ہے۔ ہم چاہے جو بھی عمل بد کرلیں جیسا بھی برا رجحان رویہ اور عمل اپنالیں ہم پرکبھی عذاب، عتاب یا عقاب کا معاملہ نہیں ہوگا۔ ہم چاہے ان تمام گناہوں،خطاؤں اور سیئات میں من حیث الامہ گرفتار ہوں، جن میں کسی ایک میں بھی گرفتار ہونے پرسابقہ قومیں برباد کردی گئیں جیسے ناپ تول میں کمی، زنا ، لواطت، انصاف کا امیر اور غریب کے لیے الگ الگ معیار ، جھوٹ ، سود ، حسد ، تکبر، شیخی خوری، تعصب، اپنی خواہش کو دین سمجھنا اور دیگر بہت سے معاصیء حیوانیہ و شیطانیہ وغیرہ، ہمیں تو کبھی کچھ نہیں ہوگا اور یہ عجیب وغریب مفروضہ اب مغالطے کی حد تک ہم میں سرائیت کرکے جو تنائج دکھا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہی ہیں۔

بلکہ یہ مفروضہ یا مغالطہ ہمیں لا یعنی خیالوں اور بے معنی اور بے سر وپا روایتوں کی ایک ایسی خود فریب دنیا میں لے گیا ہے جہاں سے واپس آنے کا دل ہی نہیں کرتا کہ خود فریبی چیز ہی ایسی ہے۔ وہ بقول حضرت علامہ… حقیقت خرافات میں کھوگئی۔ یہ امت روایات میں کھوگئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جولوگ دین پر پورے کا پورا چل رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کو مطلوب ایمانی سطح کے حامل ہیں یا حصول کے لیے کوشش اور محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ انسانی بھلائی اور خدمت کے اعمال میں لگے ہوئے ہیں وہ بلاشبہ تمام ان رحمتوں،نعمتوں، چین سکون، آرام اور اخروی بہشتوں کے وارث ہیں لیکن تقریبا دو ارب کی امت مسلمہ میں ایسے کتنے ہونگے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

ایک اور مقبول عام مفروضہ جوکہ بہت زیادہ بکتا ہے اور ہم اس میں گہرائی تک مبتلا ہیں یہ ہے کہ ہم ایک نابغہ روزگار قسم کی قوم ہیں اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے محافظ ہیں اور دنیا کی ساری اسلام دشمن طاقتیں اپنے سب کام چھوڑ کر بس دن رات ہمارے خلاف نت نئی سازشیں کرنے، ہمیں کمزورکرنے ، ہمارے خلاف طویل اور قلیل المدتی منصوبے بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تھوڑا بہت ایسا ہے بھی لیکن ہم نے تو اس تھوڑے بہت کو اس رائی کو جیسے پہاڑ بنا کر اپنے اعصاب پر گویا سوار ہی کرلیا ہے۔

دنیا کی دوسری اقوام کہاں سے کہاں تک جا رہی ہیں ترقی اور تمدن کی نت نئی منزلیں طے کررہی ہیں۔ان کے عوام فلاح کے نت نئے نظاموں سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور وہ اقوام اپنے لیے نئے راستے نئی راہیں تراش رہی ہیں ان کے پاس یقین مانیں کہ اتنا وقت نہیں کہ ہم جیسی خود گزیدہ قوم کے لیے کسی قسم کی سازشیں کریں اس کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو۔

ایک اورمفروضہ ہم یہ بھی لیے بیٹھے ہیں کہ ہم چاہے کچھ کریں یا نہ کریں ، سعی وعمل کے تیشے کو اٹھا کرکامیابی کی راہیں تراشنے کی بجائے بس صرف اور صرف لفاظی اور حاشیہ آرائی میں لگے رہیں ہم خود بخود دنیا میں ممتاز ترین مقام اور سیادت جلد حاصل کرلیں گے یا کوئی آئے گا اور وہ سپرمین کی طرح ہمارے سب مسئلے حل کردے گا۔ یعنی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا کی روشن مثال ہیں۔یہ روشن طنزا لکھا گیا ہے کہ علامہ کے جواب شکوہ کے مصرعے کے ساتھ کوئی ہلکا لفظ استعمال کرنا اچھا نہیں لگا ورنہ روشن کی جگہ ایک اورلفظ بہت مناسب تھا ۔حالانکہ یہ نظامِ قدرت کے خلاف ہے یہاں سب کو کوشش پر ملتا ہے وہ فرد ہو یا قوم جب تک محنت،کوشش، جہد مسلسل کو اپنا شعار نہیں بنائے گا کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے گا۔

مگر ہم میں سے بہت سارے یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی معجزہ بپا ہوجائے گا۔ ملک میں خزانوں کی شاید بارش ہوجائے گی۔ یہ بیانیہ بھی بڑا سپرہٹ ہے کہ ایسی ایسی قیمتی معدنیات پاکستان میں ہیں جن کے نکلتے ہی ہم دنیا میں سب سے امیرقوم بن جائیں گے۔ تو پھر نکالتے کیوں نہیں کس انتظار میں ہو بھائی؟ مر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے… منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔

تو جناب یہ تو بس تین چار دانے ہیں دیگ کے ابھی تو پوری دیگ باقی ہے اورکوئی دقیق النظر ذرا غورکرکے نمبر وار ان مفروضوں، مبالغوں اور مغالطوں پر تحقیق کرنا شروع کرے جو ہمیں ہر سطح پرگھیرے ہوئے ہیں اور ہم اپنی احمقوں کی اس جنت میں بے پروائے نشیمن بنے مست پڑے ہیں تو یقین کیجیے ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ جاتے جاتے چند اور بھی مفروضے، مغالطے اور مبالغے ملاحظہ کیجیے۔ ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا ہم تو ہر شعبے میں ناقابل شکست ہیں خصوصا کھیلوں کے میدان میں وہ تو بس سازشیں کام دکھا جاتی ہیں ورنہ ہر ٹرافی ٹائٹل ہر ورلڈ کپ ہمارا ہو۔

ہم ہرقسم کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر عبور رکھتے ہیں ، دنیا میں جو بھی جہاں بھی ایجاد ہوتی ہے وہ ہمارے ہی بتائے ہوئے اصولوں پر ہوتی ہے ہمیں سب پتہ ہے بس بتاتے جب ہیں جب وہ سائنسی حقیقت دوسرے دریافت کرلیتے ہیں تو ہم فورا خودی کو بلند کرتے ہوئے بڑے بے نیازانہ اور سرپرستانہ انداز میں بیان کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ارے یار! یہ تو ہمیں فلاں فلاں ذریعے سے پہلے ہی پتہ تھا۔ ہم بڑی روحانی بلندیوں کی حامل قوم ہیں اسی لیے دنیا پر توجہ نہیں دیتے کہ یہ تو فانی ہے چھوڑکر جانی ہے اور اسے برباد کیے بیٹھے ہیں۔ ہم میں ہر شخص سیاست میں ارسطو اور ابن خلدون کے پائے کا ہے۔ ہم ہر قسم کی سیاست کو اور اس کی چھپی ہوئی چالوں کو فورا سمجھ جاتے ہیں۔ دین اور سیاست دو ایسے شعبے ہیں جن پر ہم تھڑوں، چائے خانوں سے لے کر عالیشان ڈرائنگ رومز تک گھنٹوں بحث کر سکتے ہیں۔

ہم میں ہر فن مولا قسم کے کاملین کی بہتات ہے اور ہم ہر مسئلے کو چٹکی بجا کر حل کرسکتے ہیں مگر بوجوہ وہ چٹکی نہیں بجاتے یا کبھی کبھی ہی بجایا کرتے ہیں۔ ہمارے سڑکوں پر چادر بچھائے بیٹھے ماہرین ایسی ہمہ صفت اور عبقری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں رہتا اور اگر وہ زیادہ جلال میں آجائیں تو یہ سڑک چھاپ بابے تقدیریں بھی بدل دیتے ہیں۔ تو کرہ ارض پر موجود یہ عجیب و غریب یقینوں، معمولات ، مبالغوں ، مفروضوں اور مغالطوں سے بھری قوم یقینا اس کی اہل ہے کہ اس دنیا کی اس کرہ ارض کی قیادت فی الفور سونپ دی جائے تاکہ دکھوں اور آلام سے،غربت اور پریشانی سے، بیماریوں اور تکلیفوں سے بھری یہ دنیا اور اس کے لوگ بھی ہماری طرح خود فریبی کی لت اور احمقوں کی جنت کے طبیعت سے مزے لینے والے بن جائیں اور سب غم بھول جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔