کراچی میں امن ضروری مگر کیسے

نصرت جاوید  جمعرات 5 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہوں تو میں لاہور کا لیکن جوان کراچی میں ہوا۔ میکسم گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ ضرورت سے کہیں زیادہ بار پڑھ بیٹھا اور دل ’’پرولتاری انقلاب‘‘ لانے کو مچل گیا۔ لاہور میں اس طرح کے مزدور اور ان کی بستیاں میں دریافت نہ کر سکا جنھیں اس انقلاب کا ’’ہراوّل دستہ‘‘ بنایا جا سکتا۔ کراچی چلا آیا اور شیر شاہ نام کی ایک کچی بستی میں رہنا شروع ہو گیا۔ وہاں مقیم مزدوروں کی اکثریت یا تو بنگالی تھی یا پشتون۔ بنگالیوں کو فکر لاحق تھی کہ شاید ان کا مشرقی پاکستان ایک الگ ملک بننے والا ہے۔ کسی نہ کسی طرح اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے تھے۔ پشتون اپنی شفٹ مکمل کرنے کے بعد اوور ٹائم لگاتے اور کچھ پیسے جمع کر کے قسطوں پر کوئی رکشا لے کر چلانے کی خواہش میں مبتلا دِکھتے یا لانچوں کے ذریعے دبئی پہنچ جانے کی تمنا پالتے۔

مجھ سے کارل مارکس اور اس کے انقلابی فلسفے کو سمجھنے کا ان کے پاس وقت نہ تھا۔ ویسے بھی مجھے اچانک یہ دریافت ہوا کہ جوانی تو عشق کرنے کے لیے آتی ہے۔ ایک سے زیادہ یک طرفہ عشق میں مبتلا ہو گیا۔ نہ انقلاب لا سکا نہ عشق میں کامیاب۔ بدھو لوٹ کر گھر آ گیا۔ کراچی سے آنے کے بعد مگر میرا دل لاہور میں اکثر بے چین رہتا۔ اکثر حیلے بہانوں سے کراچی پہنچ جاتا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد آ گیا۔ کل وقتی صحافت کرنے کا فیصلہ کیا تو نوکری کراچی میں ڈھونڈنا چاہی۔ جن رسالوں کے لیے کام کیا وہ جنرل ضیاء الحق کی پھیلائی نظریاتی یلغار کا شکار ہوکر بند ہو گئے۔ مستقل ٹھکانہ اسلام آباد نے ہی فراہم کیا مگر کراچی سے گہری وابستگی ہر صورت برقرار رہی۔

یہ پوری تمہید آپ کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے لکھی ہے کہ میں کراچی کو خوب جانتا ہوں اور اپنے اس شہر سے گہرے تعلق کی بنیاد پر دعویٰ یہ کر رہا ہوں کہ کراچی کے بارے میں میڈیا والے پورا سچ بیان نہیں کرتے۔ ہمت مجھ میں بھی نہیں ہے لیکن اپنے سچ نہ بولنے والی مجبوری کا اعتراف ضرور کر لیتا ہوں۔ سمندر کے ساتھ بسا یہ شہر بجائے خود ایک سمندر ہے۔ یہاں نسلی، لسانی اور طبقاتی بنیادوں پر قائم بہت سارے جزیرے ہیں۔ ان جزیروں میں زیادہ ترکافی پُر سکون، اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ نظر آتے ہیں اور وہاں کی زندگی میں خوش حالی اور راحت کی نمایاں علامتیں بھی موجود ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرینوں پر جو کراچی دکھایا جاتا ہے، وہ سارے کا سارے نسبتا غیر مطمئن جزیروں سے متعلق ہوتا ہے۔

مطمئن لوگوں پر مشتمل جزیروں میں رہنے والے اس کا ذکر میڈیا والوں سے بڑی فکر مندی کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر ان کی اپنی زندگیوں پر ناشاد علاقوں میں پائی جانے والی بے اطمینانی کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا۔ ان لوگوں کے گھروں پر حفاظت کے لیے بندوقوں والے گارڈ ہیں۔ وہ جب اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے محافظوں سے لدی جیپیں ہوتی ہیں۔ زیادہ تر کے بیوی بچے دبئی کے فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ ان کے غسل خانوں میں استعمال ہونے والا پانی ٹینکروں کے ذریعے آتا ہے اور پینے کے لیے بڑی بوتلیں مشہور کمپنیوں سے۔ ان کی شامیں ’’اکثر راتوں کو شروع ہوتی ہیں اور زیادہ تر رنگین بھی نظر آتی ہیں۔ مطمئن لوگوں پر مشتمل جزیروں میں رہنے والوں کی راحتیں اور رنگینیاں ہماری ٹی وی اسکرینوں پر نظر نہیں آتیں۔ چند اخباروں اور رسالوں کے مخصوص صفحات پر ان کی چند جھلکیاں ضرور نظر آ جاتی ہیں۔

حقیقت جو بھی رہی ہو۔ پاکستان بھر کے لوگ اب طے کر بیٹھے ہیں کہ اس ملک کو بچانا ہے تو کراچی میں امن لانا ہو گا۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ سمیت اس شہر میں چلے گئے اور یہ اُمید دلائی کہ ان کی حکومت اس ضمن میں کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی۔ دیکھتے ہیں کس طرح اورکیا کیا جاتا ہے؟ کراچی میں بہتری دیکھنے کی خواہش میری بھی بڑی پرخلوص ہے لیکن انسانوں کے سمندر جیسے اس شہر میں تقریبا ہر جزیرے کی نظر میں ’’حل‘‘ مانے جانے والا کلیہ دوسرے جزیروں میں پھنسے لوگوں کے لیے غلط نہ سہی مشکل اور کئی صورتوں میں ناممکن ضرور نظر آتا ہے۔ کراچی کی زندگی میں عجیب و غریب تضادات نظر آتے ہیں۔ چونکہ میرے پاس ان تضادات کا کوئی حل موجود نہیں لہذا میں اکثر ان تضادات کو دیکھ کر سنکی دیوانوں کی طرح بہت محظوظ ہوتا ہوں۔

مئی کے انتخابات کے دوران میں تقریبا ایک ہفتہ کراچی میں رہا۔ 11 مئی کو مجھے ہوٹل سے جس ڈرائیور نے دفتر لے کر جانا تھا، وہ صبح کافی دیر سے آیاکیونکہ وہ  ووٹ ڈالنے چلا گیا تھا۔ پنجابی تھا مگر شادی جن لوگوں میں کی تھی ان کے ساتھ مل کر اب تک ہونے والے انتخابات میں ووٹ ایم کیو ایم کو دیا کرتا تھا۔ میرے پوچھے بغیر ہی اس نے جیسے مجھے اپنا راز دار بناتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس بار وہ اور اس کا بیٹا اپنے ووٹ ’’چپکے سے‘‘ PTI کو ڈال آئے ہیں۔ یہ اطلاع دینے کے بعد اس نے بڑی فکر مندی سے پوچھا کہ نواز شریف وزیر اعظم بن جانے کے بعد ’’کراچی کو سیدھا کریں گے یا نہیں‘‘۔ میں حیرت کے ساتھ اس سے پوچھتا رہا کہ عمران خان کو ووٹ دینے کے باوجود وہ 11 مئی کی دوپہر سے پہلے ہی نواز شریف کو وزیر اعظم کیسے بنائے بیٹھا ہے۔

11 مئی ہی کو مجھے ایک پرانے دوست نے اپنے ہاں دوپہر کے کھانے پر بلا رکھا تھا۔ وہ گھر بدل کر جس علاقے میں گیا تھا، میں اس کا شناسا نہ تھا۔ اس نے اپنا ڈرائیور بھیج دیا۔ اس ڈرائیور کا تعلق بنوں سے تھا۔ میں نے صرف اتنا پوچھا کہ اس کا کراچی میں ووٹ بنا ہوا ہے یا نہیں۔ مگر اس نے خود ہی تفصیل سے بتایا کہ اس نے ووٹ 2002ء میں بنوا لیا تھا اور اس انتخاب تک ’’کانگریسیوں‘‘ کی حمایت کرتا رہا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صحافی ہوتے ہوئے بھی مجھے علم نہ تھا کہ پاکستان میں ’’کانگریس‘‘ نام کی کوئی جماعت انتخابات میں حصہ لیا کرتی ہے۔ میری پریشانی کو بھانپ کر اس نے چند نام لیے تو پتہ چلا کہ وہ دراصل ذکر اسفندیار ولی کی ANP کا کر رہا تھا۔ وہ شاہی سید سے بہت خفا تھا کہ چند دن پہلے وہ ایم کیو ایم والوں کے ساتھ بیٹھ کر ’’ان کو دوست‘‘ بناتا نظر آیا تھا۔

اس بار ووٹ اس نے نواز شریف کو دیا تھا تا کہ وہ ’’وزیر اعظم بن کر کراچی کو سیدھا کر دے‘‘۔ ایسی ان گنت کہانیاں میرے پاس ہیں۔ لب لباب ان کا یہ ہے کہ کراچی میں امن کی خواہش کرنے والوں کی ایک بڑی اکثریت نے 11 مئی کو اپنا ووٹ نواز شریف کو نہیں دیا تھا۔ مگر اُمید ان سے باندھی ہوئی تھی کہ وہ کراچی کو ’’سیدھا‘‘ کر دیں گے۔ ہے نا کھلا تضاد؟ مگر یہ کراچی ہے جزیروں سے اٹا انسانوں کا ایک بے پناہ سمندر جس کے گمبھیر مسائل کو حل کرنے کے بڑے ہی سادہ اور آسان نسخے ہم ان دنوں میڈیا پر سنتے چلے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔