کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

شاہد سردار  اتوار 23 جون 2019

اس حقیقت سے بھی کسی طور انکار ممکن نہیں کہ سب سے زیادہ جھوٹ انصاف فراہم کرنے والی جگہوں پر ہی بولا جاتا ہے۔ مشاہدے اور مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کرہ ارض میں سب سے زیادہ جھوٹ ہی بولا جاتا ہے، جب کہ بعض دانشور حد سے بڑھے ہوئے سچ کو بھی جھوٹ کہتے یا سمجھتے ہیں۔

یہ بھی ایک مسلم امر ہے کہ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے الیکشن سے قبل عوام کی تقدیریں بدلنے کے دعوے کیے اور نعرے لگائے لیکن کسی بھی دور میں ان کی تقدیریں نہیں بدلیں اور یوں حکمرانوں کا یہ جھوٹ ہمیشہ ہر دور میں اپنی اپنی ’’ باریاں‘‘ لیتے ہوئے تاریخی جھوٹ بنتا رہا۔ 1963 سے لے کر 2019 تک ایوب خان، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر، نواز شریف اور پرویز مشرف تک کم ازکم ڈیڑھ درجن بار سمندر سے تیل اور گیس کے ذخائرکی خبریں فلیش ہوئیں لیکن یہ سب جھوٹ نکلیں، پاکستان کے تازہ ترین وزیر اعظم عمران خان نے نئے پاکستان اور تبدیلی کے نام پر جوکچھ کہا وہ بھی جھوٹ ہی ثابت ہوا ۔

کون نہیں جانتا کہ اس ملک میں کوئی فلاحی منصوبہ ہو یا عوامی بہبود کا کوئی پروجیکٹ،کسی زیر زمین چھپے خزانے کی خوش خبری ہو عوام ترقی، سدھار یا انقلاب کے نام پر اتنی بار لٹ چکے، اتنی بار جھوٹ سن چکے کہ اب ان کی طرف سے بولے جانے والے جھوٹ ’’سفید جھوٹ‘‘ لگتے ہیں۔ (یاد رہے سفید جھوٹ جھوٹ کی سب سے بڑی اور اعلیٰ قسم کو کہا جاتا ہے۔)

روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جو انھوں نے اپنے عوام کو دینا تھا لیکن انھیں 40 سال دنیا سے گزرے ہوگئے لیکن ان کی پیپلز پارٹی متعدد بار اقتدار حاصل کرنے کے باوجود سوائے اپنا کرتا دھرتاؤں کو نوازنے کے اورکچھ نہ کرسکی۔ بے نظیر اور زرداری کے دور حکومت میں بھی ان کی پارٹی صرف اپنے اپنے لوگوں کو نوازنے کے اورکچھ نہ کرسکی۔

کشکول توڑنے اور ’’ قرض اتارو، ملک سنوارو ‘‘ کا نعرہ مستانہ لگانے والی ’’نون لیگ‘‘ بھی سوائے خاندانی بادشاہت کو قائم رکھنے اور صرف اپنے خاندان کو مالا مال کرنے کے اورکچھ نہ کرسکی ۔ 2015 کے دور میں چنیوٹ میں ایک سرکاری تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت اس دور کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کر رہے تھے، اس زمین پر انھوں نے عوام کو سونے اور تانبے کے ذخائر کی موجودگی کی خبر سنائی، اس تقریب پر 3 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے لیکن یہ خبر آگے چل کر جھوٹ ثابت ہوئی۔

90 دن کے اندر انتخابات کرا کے اقتدار منتخب لوگوں کے حوالے کرنے والے ضیا الحق ایک منتخب حکومت پر شب خون مار کر پورے گیارہ سال حکمران بنے رہے اور بالآخر بہاولپور میں ایک فضائی حادثے (جی ہاں ہمیں اور ہماری بھولی عوام کو تو حادثہ ہی بتایا گیا تھا) میں خاک میں مل گئے لیکن 90 دن کا دعویٰ یا وعدہ ان کا جھوٹ ہی نکلا۔

لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرکے ملک روشن کردینے والے پرویز مشرف اپنے سات سال کے دور اقتدار میں ایسا کچھ نہ کرسکے اور بالآخر کمر درد کا بہانہ کر کے وہ ملک سے باہر چلے گئے، اور ابھی تک نہیں پلٹے۔

الغرض کہ صرف 70 سالوں میں زراعت سے انڈسٹری تک، نہری نظام سے دریاؤں تک، پی آئی اے سے اسٹیل مل تک، جنگلوں سے ریگستانوں تک ملک سے قوم تک، معاشیات سے اخلاقیات تک زمین پر ہر شے کا تیل نکال کر اب زیر زمین تیل کی باتیں۔ لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب زیر زمین تیل کا تیل نکال کر ہم ہواؤں، خلاؤں کی باتیں کر رہے ہوں گے کیونکہ ہم اور ہمارے ارباب اختیار صرف باتوں کے ہی دھنی ہیں۔

تاریخی سچائی ہے کہ چھوٹی اور بد دیانت قوم کا مقدر ہمیشہ جھوٹے اور بددیانت حکمران بنتے ہیں ۔ حکمرانوں کے بدلنے سے کبھی اس قدم کے مسائل حل نہیں ہوں گے، اس قوم کو اپنا آپ بدلنا ہوگا تب کہیں جاکر کچھ بدلے گا۔ ظلم زیادتی پر برسوں سے زبانوں پر تالے یا خاموشی آخر یہ خاموشی کہاں تک اورکب تک رہے گی؟ اس قوم کی اصلیت کو اگر دیکھا جائے یا جانچا جائے تو ہر سال ماہ رمضان میں وہ بے نقاب ہوتی صاف دکھائی پڑے گی۔ حکمران کسی بھی سیاسی جماعت کا کیوں نہ ہو رمضان میں ہر دوسرا مسلمان شیطان بن کر روزہ داروں کو لوٹتا پایا جاتا ہے۔ اس ماہ نیکی محبوس ہوجاتی ہے اور مسلمان چور بازاری یا لوٹ مار کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس بابرکت مقدس مہینے میں جھوٹ، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی عروج پر ہوتی ہے۔

ہر دور میں ہمارے ملک میں اخبارات اور ٹی وی چینلز پرکم سے کم سچ کو اجاگر کرنے کی ریت چلی آرہی ہے۔ لہٰذا یار لوگ اخبار اور ٹی وی پر سچ نہیں بول سکتے تو وہ ’’سوشل میڈیا ‘‘ پر سچ بول کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں۔ اب جھوٹ کو نمایاں کرنے اور سچ کو دبانے والے اس ملک کے مفاد کا تحفظ کرنے کے دعوے داروں کو کون بتائے کہ وہ پاکستان کو 1971 کی طرف واپس لے کر جا رہے ہیں، کاش وہ جان سکتے کہ ملک کو سنوارنے اور بچانے کے لیے سچ بولنا لازم ہوگا، آزادی اظہار کی جنگ انھیں لڑنی ہوگی، آزادی اظہار پر پابندیاں ہی اصل ’’ ففتھ جنریشن وار ‘‘ ہے کیونکہ یہ پابندیاں وہ حالات پیدا کرتی ہیں جن سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔

معاشرتی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو ایک کڑوی سچائی ہمیں ایسی ملے گی کہ یہاں بسنے، رہنے یا سانس لینے والے لوگوں کی اکثریت صاحبوں پر مشتمل ہے مثلاً فلاں صاحب، فلاں صاحب یا فلاں صاحب۔ حالانکہ حقیقت میں بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جن کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ کا اسم توصیف رسمی اخلاقیات سے ہٹ کر دل کی اتھاہ گہرائیوں اور سچائیوں کے ساتھ لگانے کو جی چاہتا ہے، لیکن پھر بھی ہر دوسرے نام کے ساتھ یہ ’’لاحقے‘‘ کے طور پر غالباً لگایا جاتا ہے جو صریحاً جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

آخر میں ایک لطیفہ سنتے یا پڑھتے چلیں۔ ایک شخص نے چراغ رگڑا تو حسب معمول ایک آسمان سے باتیں کرتے ہوئے قد کا جن دھوئیں کے مرغولے سے برآمد ہوا اور اپنا روایتی خوفناک قہقہہ لگانے کے بعد بولا کیا حکم ہے میرے آقا؟ مگر ایک بات یاد رکھیں میں معمولی جن ہوں کوئی بہت بڑی خواہش نہ بتائیں۔ اس شخص نے کہا ٹھیک ہے تم لاہور سے نیویارک تک ایک پل بنادو۔ جن نے کہا میرے آقا میں گریڈ بائیس کا جن نہیں ہوں پانچویں گریڈ کا جن ہوں، کوئی آسان فرمائش کریں۔ اس شخص نے کہا ٹھیک ہے تم یہ بتا دو کہ عورت ذات آخر چیز کیا ہے؟ جن نے ایک منٹ سوچا اور پھر کہا میرے آقا پل یک طرفہ بنانا ہے یا دو طرفہ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔