بیروزگاری، سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ

زبیر رحمٰن  اتوار 8 ستمبر 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

اس کرۂ ارض کے2000 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے اثاثے138کھرب ڈالر ہیں جب کہ اسی دنیا میں ہر ماہ صرف بھوک سے18لاکھ انسان مر جاتے ہیں۔ یعنی روزانہ 75 ہزار۔ 34 ترقی یافتہ اقوام OECD کے رکن ممالک میں ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ60 لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو کسی بھی طرح کی تعلیم، روزگار یا ہنر سے یکسر محروم ہیں۔ اسی طرح ترقی پذیر ممالک میں عالمی بینک کے سروے کے مطابق ایسے نوجوانوں کی تعداد 26 کروڑ سے زائد ہے۔

تیسری دنیا کے ممالک میں 15سے24 سال کی عمر کے 29 کروڑ نوجوان ایسے ہیں جن کی بازار محنت میں کوئی شرکت نہیں۔ اس وقت امریکا میں3 کروڑ، جاپان میں65 لاکھ اور جرمنی میں50 لاکھ شہری بے روزگار ہیں۔ اس عالمی بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے سمندر میں جو پوری دنیا کی نوجوان نسل کو نگل رہا ہے اب ذرا ہم پاکستانی سماج میں موجود ہولناک بیروزگاری کا جائزہ لیتے ہیں جہاں بیروزگاری کی خونی دیوی ہر دن سیکڑوں نوجوانوں کے خون سے اپنی پیاس مٹانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہر نیا سورج اس کی پیاس کو بڑھائے چلا جا رہا ہے۔

پاکستانی ’’ریاست‘‘ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے اعداد و شمار شایع ہی نہیں کرتی لیکن سماج کے اندر بڑھتے ہوئے جرائم، خودکشیاں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، دہشت گردی، جسم فروشی، منشیات کا استعمال اور دیگر سماجی مسائل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج اور ریاست کی اصل صورتحال کیا ہے۔ پاکستان اکنامک واچ (PEW) کے مطابق پاکستان کے کل 6 کروڑ36 لاکھ محنت کشوں میں3 کروڑ 18 لاکھ یعنی آدھے بیروزگار ہیں۔ 80 فیصد برسر روزگار لوگ اپنے روزگار سے مطمئن نہیں ۔ ہر 10میں سے6 نوجوان اپنی صلاحیت سے کم پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین میں یہ شرح 78.3 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں73 فیصد روزگار کالے دھن سے منسلک ہے۔ اس غیر قانونی کالی معیشت میں بیروزگار نوجوانوں کو خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو بیروزگاری کی نحوست سے تنگ آ کر انتہائی کم اجرت پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

یہی وہ کالی معیشت ہے جس کو زندہ رکھنے کے لیے ہر روز درجنوں انسانی جانوں کی بلی دینی پڑتی ہے۔ یہ خونی ریاست اور اس کے گماشتے حکمران اس کھلواڑ میں حصے دار ہیں اور یہ کالا دھن اس معیشت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں پاکستان میں فزیکل اور سوشل بنیادی ڈھانچہ بہتر ہونے کی بجائے برباد ہوا ہے۔ اس بربادی نے روزگار کے موجودہ ذرایع کو بھی کم کر دیا ہے اور دوسری طرف سرمایہ داروں کے منافعوں کو پورا کرنے کے لیے نجکاری اور ڈائون سائزنگ جیسی سامراجی پالیسیوں کے ذریعے منافع بخش اداروں کو فروخت کر کے لاکھوں مزدوروں کو نوکریوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ہر آنے والے دن اس بربریت کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ہر سال بارہ سے پندرہ لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں جن کو دینے کے لیے اس سماج کے پاس سوائے مایوسی اور نا امیدی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لاکھوں نوجوان روزگار کی تلاش میں ہر سال عرب خطے یا دنیا کے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور اس چکر میں ٹھگوں کا ایک اور ٹولہ ان کو سنہرے خواب دکھا کر لوٹتا ہے۔ اب تو پاکستان میں بیرون ملک روزگار دینے والے سوداگر ٹریول ایجنٹ اور ٹریڈسٹ مالکان باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ اختیار کرتے جا رہے ہیں جو مجبور اور مظلوم نوجوانوں کو خواب دکھا کر لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں لیکن دوسری طرف اس بحران زدہ کیفیت نے تمام ممالک میں بیروزگاروں کی محفوظ فوج میں اضافہ کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت ہر ملک اسی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا تارکین وطن پر سرحدیں بند کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’’غربت جب انقلاب پیدا نہیں کر سکتی تو یہ جرائم پیدا کرتی ہے‘‘ یعنی دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی صنعتوں میں بیروزگار نوجوانوں کو بطور اوزار استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسٹریٹ کرائمز میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے جن کو اس سماج نے دھتکار دیا ہے۔

بیروزگاری محض نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ضایع نہیں کر رہی بلکہ اس نے پورے سماج کو ایک عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ بے چینی اور عدم تحفظ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سماج ایک نہ ختم ہونے والی وحشت بن چکا ہے۔ پاکستان میں 75 فیصد نوجوان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مستقبل کا خوف ہر وقت ان کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر آنے والا دن ان کی بقا کے لیے خطرے کا پیغام لے کر آتا ہے۔ منشیات کے استعمال میں گزشتہ چند برسوں میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف ہیروئن پینے والے 50 لاکھ ہیں۔ لاکھوں روپے سے خریدی ہوئی تعلیم بھی ان کے مستقل کو روشن نہیں کر پا رہی۔ کسی نسل کے ساتھ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کا مستقبل ہی اس کے لیے خوف بن جائے اور وہ ماضی کے اندھیروں، مایوسی، فرسودگی، پسماندگی اور بیگانگی میں پناہ تلاش کرنا شروع کر دے۔ سرمایہ دارانہ دانشور اور معیشت دان اپنے تجزیوں میں بیروزگاری کی وجوہات آبادی میں اضافہ، جہالت اور ہنر و فن کی تعلیم کی کمی کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ موجودہ حالات میں بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح کم آبادی والے ترقی یافتہ ممالک میں ہے اور جہاں تک جہالت کا تعلق ہے تو یہ بھی اس نظام کی ناگزیر پیداوار ہے۔ اس نظام میں تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے اور اس کی قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ لاکھوں لوگ اسے ادا نہیں کر سکتے۔

دوسری طرف بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح پڑھے لکھے نوجوانوں میں ہے۔ بیروزگاری کی اصل وجہ نجی ملکیت اور منافعے پر مبنی یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت کو جان بوجھ کر بیروزگار رکھا جاتا ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ بیروزگاروں کی یہ فوج سرمایہ داروں کے لیے بہت کام کی چیز ہے جس سے ایک طرف برسر روزگار لوگوں کی اجرتوں میں کمی کرنے میں سہولت رہتی ہے تو دوسری طرف اس محفوظ فوج کو طبقاتی جدوجہد کو کاٹنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ بھوکے ننگے بیروزگار ہر اجرت اور ہر حالت میں کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام آج انسانیت کے لیے ایک ناسور بن چکا ہے۔ معاشی بربریت کا یہ ننگا ناچ محنت کش طبقے کے لیے زندگی کے تمام راستے بند کرتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن جب تمام راستے بند ہوتے ہیں تو ایک راستہ کھلتا ہے اور وہ راستہ انقلاب کا راستہ ہے۔ پچھلے عرصے میں پوری دنیا اور بالخصوص عرب اور یورپی ممالک میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں نے اس نظام کے خلاف کئی بغاوتیں برپا کی ہیں۔

عرب انقلاب کے پیچھے جہاں اور بہت سے عوامل کار فرما تھے وہاں ایک بنیادی وجہ بیروزگاری تھی۔ مصر میں 75 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں جس نے انقلابی کیفیت کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں طالب علموں کا احتجاج، اسپین میں انڈگنا ڈوس تحریک، یونان میں اسکولوں پر قبضے، امریکا میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک، چلی میں طلبہ کی سرکشی، برازیل اور ترکی میں مظاہرے، انڈونیشیا میں طلبہ اور شہریوں کا زبردست احتجاج، جنوبی افریقہ میں اوباما کے آمد پر امریکی پرچم اور پتلے جلانا اور پرتگال میں تاریخی ہڑتال اور اپنے مطالبات منوانا یہ تمام واقعات اس بات کی گواہی ہیں کہ عوام اس نظام کو چیلنج کرنے کی طرف جا رہے ہیں اور انسانیت اپنے مقدر کو بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں اترنے کی تیاری کر رہی ہے۔ آج کے عہد میں بیروزگاری سے نجات اور انسانیت کی بقا کی جدوجہد در اصل اسٹیٹ لیس سماج کی تشکیل اور امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرنے کی جد وجہد کا آغاز ہے۔ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب عالمی انقلاب برپا ہو گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔