عزیزاللہ اور آج کا پاکستان

زبیر رحمٰن  پير 1 جولائی 2019
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

عزیز اللہ پیلی بھیت ، یوپی ،انڈیا میں اکتوبر 1918 میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا سمیع اللہ کو انگریزاستعمار نے جنگ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں دہلی میں پھانسی دیکر شہیدکردیا تھا ، جب برطانوی جاسوسوں نے دہلی میں ان کے خاندان کو ہراساں کرنا شروع کیا تو عزیز اللہ کے والد حبیب اللہ دہلی سے مراد آباد ہجرت کرگئے۔ جب وہاں بھی ان کے خاندان کو تنگ کیا جانے لگا تو وہ پیلی بھیت آگئے۔ نوجوانی میں عزیز اللہ بھگت سنگھ کی بنائی ہوئی انجمن، بھارتیہ نوجوان سبھا کے کارکن بن گئے اور اسی وقت سے جنگ آزادی کے سپاہی کے طور پرکام کرنے لگے۔ انھوں نے سوشلسٹ رہنما سوبھاش چندر بوش سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا ، بعد ازاں انڈین کانگریس کے رکن بن گئے۔کانگریس میں دو خیالات کے گروپ کام کرتے تھے،ایک نرم پنتھی اور دوسرا گرم پنتھی۔ عزیز اللہ گرم پنتھی کے ساتھ ہو لیے۔ نرم پنتھی کا مطلب لبرل اورگرم پنتھی کا مطلب کمیونسٹ (انقلابی)۔ پاکستان بننے کے بعد جیکب آباد چلے آئے۔ وہاں انھوں نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیارکی۔

قیام پاکستان کے بعد بننے والی حکومت ہنرمند، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترانتظامیہ نہ ہونے کے باوجود آج کے پا کستان سے بہترکام کرتی تھی، اگرکل یہ کام ہوسکتا تھا توآج کیوں نہیں؟ پاکستان بننے کے بعد فوراً سندھ میں مہاجرین اور بے زمین کسانوں کا مسئلہ کھڑا ہوگیا تھا، جس پر عزیز اللہ اور عزیزسلام بخاری کی رہنمائی میں ہاری الاٹی تحریک شروع ہوئی۔ عزیز اللہ اردو بو لنے والے تھے جب کہ عزیز سلام بخاری گجراتی تھے۔ بعد میں دونوں نے سندھی زبان سیکھی اور وہ روانی سے سندھی میں تقریرکرتے تھے۔

ہاری کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ حکومت ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو 25 ہزار روپے کے بجائے 50ہزار روپے دے یا اس رقم سے کاروبارکروا کے دے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دینے کے بجائے 50 ایکڑ زمین مفت دے۔ ان مطالبات کے بنیاد پر پورے سندھ میں تحریک چل پڑی اور عوام جوق درجوق شامل ہوتے گئے۔ آخرکار حکومت کو ہاری کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرنا پڑا۔ عزیز اللہ 1951ء میں جیکب آباد سے کراچی جیکب لائن بعد ازاں شاہ فیصل کالونی منتقل ہو گئے۔ وہاں انھوں نے سوکوارٹرکی مستقلی کے لیے بارہ نکاتی مطالبات پر تحریک شروع کی ۔اس تحریک میں ڈاکٹر منظور احمد، اظہر عباس، بیگم باجی اور محمد فصیح پیش پیش تھے۔آخرکار حکومت سے یہ مطالبات بھی کمیونسٹوں اورعوام نے منوا لیے۔ اس دور میں اگر بسوں کا کرایہ پانچ پیسے بڑھایا جاتا تو عوام بطور احتجاج کراچی کی اہم ترین شاہراہ فیصل پر جمع ہوجاتے جس سے ٹریفک بلاک ہوجاتا اور پھر دوسرے دن مطالبات مان لیے جاتے تھے۔ آج کے دور میں مہنگائی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے مگر ہمارے ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں چپ کا روزہ رکھے بیٹھی ہیں ۔

عزیزاللہ کراچی میں چاچا علی جان کے ساتھ مزدوروں کے مطالبات کے لیے مزدوروں کی بستی سائٹ میں تیس ہزار مزدوروں کا جلوس نکال کر اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں تو پھر آج کیوں نہیں؟ اس لیے کہ ہم عوام کو متحرک کرنے کے بجائے پریس کلب پہ صحافیوں کو متحرک کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ ویکٹر ہوگو نے کہا تھا کہ ’’ ٹیلیویژن کے ذریعے انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔‘‘

سائیں عزیز اللہ کی جدوجہد کو مشعل راہ بناتے ہوئے مزدورکسان پارٹی نے بجٹ کے خلاف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر لاہور میں ریلوے کی یونین نے بھی مہنگائی اور مزدور مسائل پر مظاہرہ کیا، لیاری میں پاکستان عوامی پارٹی نے بھی مظاہرہ کیا ۔اب نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے جولائی کے شروع میں پریس کلب پر مہنگائی پر مظاہرہ ہوگا۔ ملک بھر میں ’’مہنگائی کو روکو‘‘ کے اسٹیکر جا بجا نظر آ رہے ہیں۔ ہمیں عزیز اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک کی طرح مسلسل جدوجہد کا آ غازکرنا ہوگا۔ اس وقت دنیا کے بہت سارے ملکوں میں اپنے مسائل کے حل کے لیے عوام جدوجہد کررہے ہیں ، جن میں مالی، الجزائر ، سوڈان، ایتھوپیا، موریطانیہ، تائیوان اور فرانس وغیرہ ۔ جب کہ اس وقت سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے۔

سائیں عزیز اللہ کہتے تھے کہ ایسے مو قع پر اگر کچھ نہیں کرسکتے توکم ازکم عوامی ہجوم میں روزانہ یا ہفتہ وار بینر لے کر ایک گھنٹے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ عزیزاللہ کہتے تھے کہ ویسے تو پورے ملک میں محنت کشوںکے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن سندھ بلوچستان میں خصوصی طور پر جدوجہد کی۔ وہ بلوچ نوجوانوں اور عوام کے حقوق کی پامالی کے خلاف ہمیشہ ان کی جدوجہد میں شریک رہے۔عزیز اللہ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے بھیجے گئے نمایندے کے طور پر عوامی لیگ میں کام کرتے تھے، اس وقت حسین شہید سہروردی ملک کے وزیراعظم تھے اور عزیزاللہ ان کے قریب ترین مشیر تھے ۔ایک بار ایک شخص جوتے کا ہار لے کر حسین شہید سہروردی کو پہنانے آ گے بڑھا تو ایس پی نے سہروردی صاحب سے پوچھا کہ اسے گرفتارکرلیں جس پر سہروردی نے جواب دیا۔’’ نہیں! اسے گرفتار کرکے لیڈر نہیں بنانا ہے ‘‘ جب کہ اب توگرفتار پہلے کیا جاتا ہے اور مقدمہ بعد میں بنتا ہے اور ملزم کو خود ثابت کرنا ہے کہ وہ بے گناہ ہے ، اس پر یہ ذمے داری ڈال دی گئی کہ الزام کو رد کرنے کے لیے خود دلیل پیش کرے۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں لفظ ’’سیلیکٹیڈ‘‘ کہنے پر بھی پابندی لگ جاتی ہے ۔

حسین شہید سہروردی ایک سال وزیراعظم رہے، مگر اس عرصے میں ایک بھی سیاسی قیدی جیل میں نہیں تھا ، جب سہروردی وزیر اعظم بنے اور ماری پور،کراچی ایئرپورٹ پر جہاز سے اتر رہے تھے تو عزیز اللہ سے پوچھا کہ ’’ بتاؤ تمھیں کیا چاہیے‘‘ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’امام علی نازش سمیت ہمارے چار ساتھی جیل میں قید ہیں ان کی رہائی چاہیے‘‘ پھر وزیراعظم نے جہازکی سیڑھی پر ہی رہائی کا حکم جاری کیا اور وہ سب شام چھ سے پہلے ہی رہا ہوگئے ۔ جب حسین شہید سہروردی نے ایران کے دورے سے واپسی پر یہ بیان جاری کیا کہ مصر پر فرانس اور برطانیہ کے حملے کی جو مخالفت کرتے ہیں وہ کمیونسٹ ہیں یا پھر انڈین ایجنٹ۔ اس کے بعد عزیز اللہ نے عوامی لیگ سے استعفیٰ دے دیا۔ امریکا جب ویتنام پر حملہ آور تھا تو عزیزاللہ پا کستان میں امریکا کے خلاف مظاہرے کرواتے تھے جب کہ آج بحرین میں امریکا اپنے اتحادیوں کا اجلاس بلا رہا ہے تو ہمارے ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں خاموش بیٹھی ہیں۔

عزیز اللہ جب بھگت سنگھ کی تنظیم میں کام کرتے تھے تو ان کی ڈیوٹی تھی کہ انگریزوں سے بندوق چھیننا ہے اور مخصوص جگہ پہ پہنچانا ہے، جب ان کی جنوبی افریقہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما یوسف دادا سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے عزیز سے پوچھا کہ ’’ آپ کے پاس کتنی بندوقیں ہیں‘‘ جس پر عزیز اللہ نے جواب دیا کہ ’’ ا نگریز استعمارکے خلاف لڑائی میں بندوقیں ہوا کرتی تھیں مگر اب ہم خود بندوق ہیں۔‘‘ عزیز اللہ کے نظریات پر چلنے کے لیے ہمیں اپنی منزل مقصود کوکبھی بھی بھولنا نہیں چا ہیے۔ وہ منزل ہے ایک غیر طبقاتی سماج کی تشکیل، اس کے بغیرعوام کے مسائل مکمل طور پر حل نہیں ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔