سندھ بجٹ 2019-20 متوازن ہے (حصہ اول)

لیاقت راجپر  جمعـء 5 جولائی 2019

ہر سال ملک اور صوبوں کے اخراجات اور آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ پیش کیا جاتا ہے اگر اخراجات زیادہ اور آمدنی میں کمی ہے تو اسے پورا کرنے کے لیے کچھ نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ اس مد میں خاص طور پر سندھ صوبے نے ہمیشہ ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس سے غریب اور مڈل کلاس پر زیادہ بوجھ نہ پڑے لیکن جب قومی بجٹ میں ہر روزمرہ کی عام استعمال چیز پر بھی ٹیکس لگ جائے تو لوگوں کی آمدنی میں کمی اور خرچے میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری ملازموں اور مزدوروں کی اجرت میں اضافہ کیا جاتا ہے، جو مہنگائی کے حساب سے بڑی کم ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں گھی، چینی، گوشت، چائے کی پتی، پٹرول، گیس، ڈیزل اور سی این جی پر مزید ٹیکس لگنے سے لوگوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ ان ٹیکسوں کا اثر گھوم پھر کر عام اشیا کی قیمتوں پر پڑتا ہے جس سے نچلے اور درمیانے طبقے کو گھر کا خرچ چلانا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔مگر پیپلز پارٹی نے اپنے صوبے کے لوگوں کو تنخواہ میں اضافہ سب سے زیادہ دیا ہے اور نئے ٹیکس لگانے کو بھی کم اہمیت دی ہے لیکن وفاق سے سندھ کو جو روینو سے وفاق کماتا ہے اس کا حصہ اسے صحیح نہیں دیتا بلکہ اس سال تو اس کا حصہ مزید کم کردیا ہے اور پنجاب کا حصہ 51 فیصد کردیا ہے جس کے لیے کہا ہے کہ اس صوبے کی آبادی بڑی ہے جب کہ تقریباً 70 فیصد کمائی سندھ سے ہوتی ہے۔

ان ساری مشکلات کے باوجود سندھ حکومت نے 15 فیصد تنخواہ بڑھائی ہے جس سے انھوں نے تنخواہ دار طبقے کے دل جیت لیے ہیں۔ اس سے پہلے بھی 50 فیصد اور 25 فیصد تک پیپلز پارٹی نے اضافے کیے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ سندھ کے عوام نے بھی اس کا بدلہ ووٹ دے کرکیا ہے جس کی وجہ سے مخالفین اس بات کو اچھالتے رہتے ہیں۔

سال 2019-20 کا بجٹ 14 جون کو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے پیش کی جس کے پاس فنانس کا قلم دان بھی ہے۔ آنے والے مالی سال کے لیے 12 کھرب 18 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے جس میں2 ارب کی بچت دکھائی گئی ہے۔ جب کہ نئے ٹیکس بھی زیادہ نہیں لگائے۔ مجھے افسوس اس بات کا ہو رہا ہے کہ سندھ اسمبلی میں مخالف بڑا شور مچا رہے تھے کہ بجٹ برا ہے جب کہ وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ وفاق نے عوام کے لیے کمر توڑ بجٹ پیش کیا ہے اور سندھ اسمبلی میں مخالفین نے اس کا کوئی چرچہ نہیں کیا جس کے لیے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سابق منسٹر اسد عمر نے خود اس بجٹ میں روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا پر لگائے گئے  ٹیکس  کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

آنے والے بجٹ میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں مزید بڑھانے کی خاطر بجٹ کے اندر زیادہ پیسے مختص کیے ہیں جو قابل تعریف ہیں۔ مگر اس میں ایک عرض ضرور کروں گا کہ حکومت نے بجٹ میں اضافہ تو کیا ہے مگر جب پیسے خرچ ہوتے ہیں ان پر نظر رکھنے کے لیے متعلقہ افسران اور دوسری ایجنسیوں کی پرفارمنس پر بھی کڑی نظر رکھی جائے ورنہ ہمیشہ کی طرح یہ رقم کرپٹ بیورو کریٹ کھا جائیں گے اور عوام کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

تعلیم اور صحت دونوں بڑے اہم ہیں۔ اس لیے اس میں بڑھائی رقم کو صحیح خرچ کرنے کے لیے حکومت کو سخت انتظام کرنا پڑے گا۔ جب کہ بڑے عرصے سے مالی مسائل کی وجہ سے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ملی ہیں اور اب پولیس محکمے میں جو آسامیاں پیدا کی گئی ہیں وہ صرف صوبے کے نوجوانوں کو دی جائیں ۔ تعلیم حاصل کرنے والے ہوشیار بچوں کی ہمت افزائی کے لیے حکومت سندھ نے گریڈ اے ون حاصل کرنے والے طلبا اور طالبات کے لیے اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا ہے جس سے خاص طور پر غریب والدین کی اولاد کو علم اور تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام والی خواتین کو عید کے موقع پر ہر سال 2 ہزار روپے عیدی دی جائے گی جس سے وہ بھی دوسروں کے ساتھ اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے کچھ خرید سکیں گی جب کہ سندھ میں HIV کے مریضوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اس بیماری کے مریضوں سے لوگ کترانے لگے ہیں۔ حکومت نے ایسے مریضوں کے مزید علاج اور مدد کے لیے ایک Endowment Fundقائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے ان مریضوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال اور مدد ہوسکے گی جو اچھا عمل ہے۔

حکومت تو ہمیشہ کی طرح ڈاکٹرز کی بھلائی کے لیے بہت سارے پروگرام کا اعلان کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ صوبے کے دور دراز کے علاقوں میں جاکر ان غریب لوگوں کا علاج کریں جنھیں کوئی سہولت اور پیسہ نہیں ہے مگر ہمارے یہ مسیحا صرف دولت کمانے کے لیے انسانیت بھول جاتے ہیں اور بڑے شہروں میں نوکری کرنا چاہتے ہیں۔ پھر بھی حکومت سندھ نے آنے والے بجٹ میں گریڈ 17 سے گریڈ 20 کے لیے اسپیشل الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نام ہے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس تاکہ ڈاکٹرز کی ہمت افزائی ہو اور وہ بیمار انسانیت کی خدمت کرسکیں جس کے لیے وہ ڈاکٹر کی ڈگری لیتے ہوئے قسم کھاتے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت سندھ کی طرف سے ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے پولیس کے جوان شہید ہوجاتے ہیں ان کے ورثہ کے لیے 50 لاکھ سے رقم بڑھا کر ایک کروڑ تک کردی ہے لیکن اس رقم ملنے میں جو دشواریاں ہیں انھیں ختم کیا جائے اور جلدازجلد یہ رقم دی جائے۔ اس سے پولیس کی ہمت افزائی ہوگی اور وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ ان کے بعد ان کے ورثہ کا کیا ہوگا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انرجی کی ترقی کے لیے بھی 24920 روپے مختص کیے گئے ہیں جو خوش آیند بات ہے ۔بھٹو صاحب کے زمانے میں گاؤں کو بجلی پہنچانے کا عمل بڑا تیز تھا جو اس کے جانے کے بعد بہت کم ہوگیا مگر اب اس مرتبہ حکومت سندھ نے یہ سلسلہ دوبارہ چلانے کے لیے 590 ملین روپے بجٹ میں دینے کا اعلان کیا ہے جس سے 570 گاؤں کو بجلی ملے گی۔ اس کے بارے میں تھوڑا عرض کرتا چلوں کہ بجلی کے لیے لوگوں کو تار اور کھمبوں کے ساتھ الیکٹرک بھی ملنی چاہیے کیونکہ اس وقت گاؤں تو دور سندھ کے شہروں میں بھی بجلی 12 گھنٹے بند رہتی ہے۔ اس کے لیے حکومت سندھ کو عوام کو اور بجلی دینے والے اداروں کو کہنا ہوگا کہ وہ اس قومی خدمت میں اپنا کردار ادا کریں اور عوام بل ادا کریں، بجلی کے ادارے بجلی کی چوری روکیں اور حکومت بجلی کے ریٹ میں کمی کرے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔