گیس نقصانات میں چوری کا حصہ35 تا 40 فیصد ہے زہیر صدیقی

بلوچستان کو صرف 9 فیصد گیس دیتے ہیں اور اس کا یو ایف جی نقصانات میں حصہ 3 فیصد ہے۔

کراچی میں پورے پورے علاقے چوری کی گیس استعمال کر رہے ہیں، ایم ڈی سوئی سدرن فوٹو: فائل

سوئی سدرن گیس کمپنی کو درپیش گیس چوری اور ضیاع کے نقصانات میں تخریب کاری، گیس کی چوری اور انتظامی مسائل کا حصہ 40 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر زہیر صدیقی کے مطابق یہ وہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل)کو درپیش ہے اور یہ ان گیس کمپنیوں کی کارکردگی کو متاثر کررہا ہے۔ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ جہاں امن ومان کے شدید مسائل ہوں اور حکومتی عملداری پر سمجھوتہ کیا جاتا ہو وہاں گیس کمپنیوں کو یوایف جی (ان اکاؤنٹڈ فار گیس) نقصانات کو محدود نہ کرنے پر ذمے دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے بلوچستان کا حوالہ دیا جو ایس ایس جی سی کی طرف سے مجموعی طور پر فراہم کی جانے والی گیس کا صرف 9 فیصد استعمال کرتا ہے اور کمپنی کے 12فیصد یوایف جی نقصانات میں سے 3 فیصد کا ذمے دار ہے۔




ایس ایس جی سی کے ایم ڈی نے کہاکہ سوئی سدرن گیس کمپنی سے متعلق کئی غلط مفروضے ہیں، ہم وہ گیس جو ای اینڈ پی کمپنیوں سے خریدتے ہیں اس کی قیمت حکومت طے کرتی ہے جبکہ یہ گیس جب صارفین کو فروخت کی جاتی ہے تو اس کی قیمتوں کا تعین اوگرا کرتی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیاکہ یوایف جی یعنی چوری شدہ گیس کا حصہ 35 تا 40 فیصد ہے، حال ہی میں ہم نے 6 ایسے غیرقانونی کنکشنزکا انکشاف کیا ہے جن سے کراچی کے کئی ایسے رہائشی علاقوں کو گیس فراہم کی جارہی تھی جہاں اب تک گیس کے کنکشنز دیے ہی نہیں گئے تھے تاہم کمپنی کی انتھک کوششوں کی وجہ سے یو ایف جی نقصانات میں اس سال 2فیصد کمی آئی ہے، اس کے باوجودصرف کراچی میں سالانہ 6ملین کیوبک فٹ گیس چوری کی جاتی ہے اور کچھ جگہوں پر پورے علاقے کو چوری کی گئی گیس فراہم کی جاتی ہے۔
Load Next Story