خون کے رشتے ختم ہورہے ہیں

لیاقت راجپر  اتوار 15 ستمبر 2013

میرے پیارے ربّ نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اس کے ساتھ خون کے رشتے بھی جوڑ دیے لیکن اس کے ساتھ جانور، پرندے اور کیڑے مکوڑوں میں بھی یہ احساس دیا۔ آپ اندازہ لگائیں جب پرندے یا چرند اپنے بچوں کو جنم دیتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک قدرتی محبت ہوتی ہے، آپ چمگادڑ کی مثال لیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں جب وہ رہتے ہیں اور پیدا کرتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو اور بچے اپنے والدین کو کس طرح پہچانتے ہیں کیونکہ بچوں کو چھوڑ کر خوراک کی تلاش میں پرندے نکل جاتے ہیں اور پھر واپس اپنے بچوں کے پاس آتے ہیں اور بچے اگر کہیں اور جگہ پر بھی ہوں تو اپنے ماں باپ کی خوشبو کو سونگھ کر وہاں آنکلتے ہیں۔

اسی طرح سے جنگلوں میں بھی جانور ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بچے جنتے ہیں مگر وہ بھی ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔ انسان تو شعور رکھتا ہے اس لیے اسے اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ ماں بچے کو اپنے پیٹ میں نو مہینے رکھتی ہے اور پھر اسے جنم دینے کا درد سہتی ہے۔ ماں اور بچے کا رشتہ دو سال تک سینے سے لپٹے ہوئے ماں کا دودھ پیتے ہوئے ایک پیاری ربط پیدا ہوجاتی ہے۔ جب بچہ سننے لگتا ہے تو سب سے پہلے ماں اور پھر باپ کی آواز کو پہچانتا ہے، جب اور بچے پیدا ہوتے ہیں تو بھائی اور بہنوں کا پیار جڑ جاتا ہے اور پھر قریبی رشتے داروں سے ملنے کے بعد خالہ، ماموں، چچا، دادا، دادی، نانا، نانی اور دوسرے خون کے رشتے سمجھ میں آتے ہیں اور ان سے ایک قدرتی انسیت اور پیار بڑھ جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ Blood is thicker than water (یعنی خون کا رشتہ باقی رشتوں سے زیادہ مضبوط ہے) باقی رشتوں میں دوستی کا رشتہ بھی اچھا رشتہ ہوتا ہے۔ اب آپ یہ اندازہ لگائیں کہ ظالم اور وحشی لوگ بھی اپنے رشتوں کا بچاؤ کرتے رہے ہیں، وہ کسی دوسرے کو تو مارنے میں دیر نہیں لگاتے مگر اپنوں کو مارنا تو دور انھیں کچھ برا بھلا بھی کہنا نہیں سننے میں آتا تھا۔ شیر کتنا خونخوار جانور ہے مگر وہ اپنے بچوں کو نہیں کھاتا بلکہ ان کی بھوک کے لیے دوسروں کے بچوں کا شکار کرتا ہے۔ آپ کا جب کوئی اپنا رشتے دار موت کے منہ میں چلا جاتا ہے تو قدرتی طور پر آپ کے آنسو نکل آتے ہیں، آپ دھاڑیں مار کر رونے لگتے ہیں لیکن جب کسی اور کا خون ہوجاتا ہے یا وہ طبی موت مرجاتا ہے تو ہم صرف افسوس کرتے ہیں مگر روتے نہیں ہیں۔ ہاں اگر آپ کا اس سے بے حد لگاؤ ہے، آپ اس سے عشق کرتے ہیں تو پھر اس طرح کے جذبات دیکھنے میں نظر آتے رہے ہیں مگر تھوڑے پیمانے پر۔

میں آپ کو ان خون کے رشتوں کی طرف لے جارہا ہوں جو اب ختم ہوتے جارہے ہیں جن کا ہمیں یقین نہیں آرہا ہے۔ ایک مرتبہ ایک خبر پڑھی جس میں لکھا تھا کہ ایک ماں نے اپنے چار بچے دریا میں پھینک دیے، صرف اس لیے کہ اس کے یار نے اس سے کہا تھا کہ اگر اسے ان سے پیار ہے تو وہ ثبوت کے طور پر اپنے بچوں کو ماردے۔ یہ حال دیکھ کر اس کا یار بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ کئی مرتبہ ایسے قصے پڑھتے آئے ہیں کہ ایک لڑکی ایک لڑکے کی محبت میں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا اور پڑھا ہے کہ بیوی نے اپنے یار کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو قتل کروا دیا، اپنے یار سے شادی نہ کروانے پر کنواری لڑکی نے ماں باپ کو قتل کروا دیا۔

اس طرح کے دوسرے قصے جو حقیقت ہیں ان میں معلوم ہوا کہ بیٹے نے اپنے باپ کو بندوق سے فائر کرکے ماردیا اور بات یہ تھی کہ بیٹے نے باپ سے کہا کہ وہ دو مربع زمین اس کو لکھ کر دے، باپ کے انکار پر بیٹے نے باپ کا قتل کردیا۔ اس کے علاوہ ایک بیٹا جو جواری بھی تھا اور ہیروئنچی بھی اس نے ماں سے پیسے مانگے، ماں کے پاس پیسے نہیں تھے تو بیٹے نے ماں کے گلے سے سونے کا لاکٹ چھیننے کی کوشش کی اور لاکٹ نہ دینے پر بیٹے نے ماں کو چاقو سے مارکر وہ ہار اس کے گلے سے نکال کر بھاگ گیا۔ ماموں کا رشتہ بڑا محبت کرنے والا رشتہ سمجھا جاتا ہے جس کو بھی کسی کی نظر لگ گئی، ایک دن ماموں اپنی بھانجی کو لے کر بازار گیا جہاں سے وہ ایک پارک میں بیٹھ کر بچی کے کانوں سے بالیاں اتارنے لگا اور جب وہ نہیں نکلیں تو اس نے بچی کے کان کاٹ کر وہ بالیاں لے گیا مگر بچی کے رونے کے شور سے لوگ پہنچ گئے اور مجرم پکڑا گیا۔

کچھ قریبی رشتے داروں میں ایک زمین کے ٹکڑے پر جھگڑا چل رہا تھا جس کا کیس ایک عدالت میں زیر سماعت تھا اور جب کافی وقت ہوگیا اور کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تو ایک پارٹی نے دوسری پارٹی سے صلح کی کوشش کی اور ان میں ثالثی کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اب یہ دونوں بھائی تھے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد زمین پر جھگڑا کر رہے تھے۔ جب ایک سال گزر گیا تو ایک بھائی نے رات کو گھر میں گھس کر بھائی اور بھابی کو قتل کردیا اور اس کے تین بچوں کو بھی ذبح کردیا۔ اس کے علاوہ دو بھائیوں نے ایک بہن کی شادی نہ کروانے کا سوچا مگر قریبی رشتے داروں کے کہنے پر وہ راضی ہوگئے لیکن اس سے پہلے کہ اس کی شادی کرتے بھائیوں نے اپنی بہن کو ایک نوجوان کے ساتھ جھوٹا الزام لگاکر اسے قتل کردیا۔

کئی اور بھی ایسے واقعات ہیں جس میں بیٹیوں نے باپ کو پاگل قرار دے کر پاگل خانے داخل کروادیا، باپ نے غصے میں آکر اپنے بچوں اور بیوی کو قتل کردیا۔ ایک باپ نے اپنے بچے ذبح کرکے ان کا گوشت کھالیا، ماں نے اپنے بچوں کو آگ میں پھینک دیا، بھائی نے بھائی کا قتل کرکے اس کا گوشت ہوٹل میں پکاکر لوگوں کو کھلادیا۔ ماں جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے اور وہ تب ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے اور اس کی دعا بچوں کو موت کے منہ سے بھی بچالیتی ہے مگر بیٹے اپنی اس ماں کو جو خود بھوکی رہ کر بچوں کو کھلاتی ہے اسے بیوی کے کہنے پر ایدھی سینٹر میں داخل کرواکر چلے جاتے ہیں۔

آخر کیا بات ہے جس کی وجہ سے اتنے عظیم اور گہرے خون کے رشتوں میں اس طرح کی دوری، نفرت اور خون خرابہ اور وحشی عمل سامنے آگیا ہے؟ جس کی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ گیا ہے کیونکہ خون کے رشتوں کے بعد دوستی کا رشتہ بھی اہم اور پکا سمجھا جاتا تھا اب اس میں بھی بڑی دراڑیں پڑچکی ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق ایک دوست دوسرے دوست کے پاس گھومنے آیا اور جب مہمان دوست کو گھر میں ٹھہرایا، اس کی خاطر خواہ خدمت کی مگر جب صبح کو معلوم ہوا کہ وہ دوست اپنے دوست کی بیوی کو بھگاکر لے گیا ہے اور جاتے جاتے گھر کا سارا سامان اور زیور چوری کرکے بھی لے گئے ہیں۔

جب انسان میں دولت کی ہوس بڑھ جاتی ہے تو پھر وہ ہر رشتے کا خون کردیتا ہے اور اب ہر دوسرا آدمی شارٹ کٹ اور غلط طریقے سے آگے بڑھنے اور دولت جمع کرنے میں لگا ہوا ہے جس میں اس کے آگے آنے والے ہر رشتے کو وہ کاٹتا ہوا راستہ بناکر گزر جاتا ہے اور اقتدار ہو یا زمین، جائیداد، دولت یا پھر عورت اسے حاصل کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔

خدا ہم سب کو اس دن سے بچائے جب ہم لوگ اس عمل کا شکار ہوں اور کسی کونے میں بیٹھے اپنے رشتوں کے لوٹنے کا انتظار کریں یا پھر کسی پاگل خانے یا جیل کی کوٹھری میں پڑے اپنے ماضی کو کوستے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔