- پاکستان معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، وزیر اعظم
- عرب ممالک کا سربراہی اجلاس، فلسطین میں جارحیت فوری روکنے کا مطالبہ
- ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں ڈیڑھ کروڑ ڈالرز کا اضافہ
- بلوچستان حکومت کا نوجوانوں کی فلاح و بہبود کیلیے فیسلیٹیشن سینٹرز بحال کرنے کا فیصلہ
- سچن ٹنڈولکر کے سیکیورٹی گارڈ نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- ’فلسطینیوں کی ہولناک نسل کشی‘: عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کے دلائل مکمل
- بانی پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل میں طبی معائنہ، بشری بی بی نے خون دینے سے انکار کردیا
- نیلم جہلم پراجیکٹ کی لاگت میں اضافہ؛ ذمہ داروں کے تعین کیلئے کابینہ کمیٹی بنانے کا اعلان
- سپریم کورٹ کا فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس
- آزاد کشمیر میں ہونے والی کشیدگی میں ہمسایہ ملک کا تعلق نکل رہا ہے، وفاقی وزیرداخلہ
- میں اپنے قانونی پیسے سے جہاں چاہوں آج بھی سرمایہ کاری کروں گا، محسن نقوی
- غزہ پر فوجی حکمرانی کا خواب؛ اسرائیلی کابینہ میں پھوٹ پڑ گئی
- قومی اسمبلی اجلاس: طارق بشیر نے زرتاج گل کو نازیبا الفاظ کہنے پر معافی مانگ لی
- پاکستان کو بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی مل گئی
- آئی او ایس اپ ڈیٹ کے بعد صارفین کو نئی مشکل کا سامنا
- سائنس دانوں نے ریڑھ کی ہڈی کے علاج کے لیے نئی ڈیوائس بنالی
- کشتی کو چھپانے کیلئے باڑ لگانے کی ہدایت، شہری کا انوکھا طریقہ
- سعودی عرب؛ حج کے دوران اس غلطی پر ایک لاکھ ریال جرمانہ ہوسکتا ہے
- لوگوں کو لاپتا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ
جنگجو ہیرو سدھیر کو یاد رکھیں (حصہ اول)
ایک زمانہ تھا کہ فلمیں ہمارے لیے بڑی تفریح ہوتی تھیں لیکن 1980 کے بعد کئی وجوہات کی وجہ سے پاکستان میں فلموں کا دور ختم ہوگیا جس میں خاص کرکے جنرل ضیا الحق کی فلم انڈسٹری سے عدم دلچسپی اور وی سی آر کا متعارف ہونے سے فلموں کو آہستہ آہستہ تباہ کردیا اور سینما ہاؤسز ٹوٹتے گئے اور ان کی جگہ پلازہ، مارکیٹیں اور دوسری عمارتیں بن گئیں۔
سینماؤں کا دور ضرور ختم ہوا لیکن ان سے منسلک یادیں ابھی بھی ہمارے دل اور دماغ میں بسی ہوئی ہیں، جس میں کئی نایاب فلمیں، اداکار، اداکارائیں، شاعر،کہانی نویس، میوزک، گانے والے وغیرہ شامل ہیں۔
بچپن میں ہمیں ایکشن فلمیں اور جنگجو اداکار بہت پسند ہوتے تھے جن میں خاص طور پر اداکار سدھیر جو اپنی جوانی میں بڑے خوبصورت تھے اور آہستہ آہستہ عمر بڑھنے سے ان کا جسم فربہ ہوتا گیا لیکن ان کا انداز تقریباً وہی رہا۔ان کی شروع کی فلمیں رومانٹک ہوتی تھیں مگر بعد میں وہ فلموں میں زیادہ مقبول ہوگئے جس کی ہم نقل کرتے تھے اور جیسے انھیں غصہ آتا تھا ہم اسے کاپی کرتے تھے۔ ان کی فلموں میں مجھے باغی، آخری نشان، فرنگی بہت اچھی لگیں۔
میں ان کو یاد کرتے ہوئے، ان کی زندگی میں گزرے ہوئے لمحات لکھ رہا ہوں جن میں ان کی ایک بات ہر فلم میں مشترک ہوتی تھی کہ وہ جذباتی بہت تھے جس میں خاص طور پر فرنگیوں کے خلاف بننے والی فلمیں شامل ہیں جس کے لیے انھوں نے بتایا تھا کہ فرنگیوں نے یعنی انگریزوں نے ان کے والد کو بغاوت کے الزام میں پھانسی پر چڑھایا تھا۔ غصے میں وہ اپنے دانتوں کو بھینچ کر اپنے آپ کو پورا ہلا دیتے تھے جسے ان کے پرستار بڑا پسند کرتے تھے۔ جب اداکار محمد علی آئے تو وہ بھی لڑائی کی فلموں میں مقبول ہوئے اور فلمسازوں نے دونوں کوکاسٹ کیا جس کی وجہ سے فلمیں زیادہ مقبول ہوئیں اور اچھا کاروبار کیا۔ ان کی فلموں میں نغمہ صحرا، غدار، ان داتا وغیرہ شامل ہیں۔
پہلے فلموں کا مرکزکراچی تھا جو بعد میں لاہور شفٹ ہوگیا جس کی وجہ سے پنجابی فلموں کو مزید تقویت ملی اور سدھیر پنجابی فلموں کا مقبول ہیرو بن گیا حالانکہ سلطان راہی کے ہیرو بننے کے بعد اس کی مقبولیت میں کمی آنا شروع ہوئی کیونکہ ایک تو ان کی عمر بھی ڈھل چکی تھی اور اب اتنی طاقت بھی نہیں رہی کہ وہ ایکشن فلموں میں چستی دکھا سکے جس کی وجہ سے ایک دن تو وہ کسی فلم کی شوٹنگ کرتے ہوئے گھوڑے سے گر گئے اور پھر کئی نئے اداکار آنے سے اور فلم بینوں کی پسند میں بھی تبدیلی آگئی۔ اس طرح سے انھوں نے فلموں کو الوداع کہا۔
سدھیر پشاور کے ایک گاؤں حسن گڑھی میں 2 ستمبر 1921میں پیدا ہوئے تھے جس کا نام ان کے والد سردار محمد اسلم خان نے شاہ زمان رکھا تھا۔ان کے والد اپنے قبیلے مہمند کے سردار تھے۔ اس نے اپنا بچپن پشاور میں گزارا مگر پھر وہ لاہور چلے گئے جہاں پر ان کی ماں کے والدین رہتے تھے۔ جب کہ سدھیر کے ماموں ارشد خان لودھی بمبئی میں ایک جگہ نوکری کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سدھیر اپنے ماموں سے ملنے بمبئی چلے گئے اور ایک دن ان کی ملاقات اے جے کاردار سے ہوئی جو انھیں فلم اسٹوڈیو دکھانے لے گئے جہاں پر اے جے کاردار کے بھائی اے آر کاردار ایک فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے، سدھیر کو دیکھتے ہی فلم میں کام کرنے کی دعوت کی مگر انھوں نے انکار کردیا۔
سدھیر بہت خوبصورت نوجوان اور پرکشش تھا جس کی وجہ سے اسے جو بھی دیکھتا تھا ہیرو کہتا تھا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ فلمی ہدایت کار نذیر بیدی نے بھی انھیں فلموں میں کام کرنے کو کہا ان کو بھی انھوں نے جواب دے دیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے خاندان والے بڑے سخت تھے اور انھیں فلموں میں کام کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
مسلسل ہر طرف سے فلموں میں کام کرنے کی آفرز نے انھیں آخر کار راضی کرلیا مگر اس میں ایک شرط لگائی کہ ان کا نام شاہ زمان نہیں کوئی اور رکھا جائے اور اسی طرح سے ان کا فلمی نام سدھیر رکھا گیا۔ سدھیر نے نذیر بیدی کی فلم تڑپ میں پہلی بار کام کیا جس کے لیے معاوضہ ایک ہزار روپیہ ملا جو بڑی اہمیت رکھتا تھا، فلم کی ہیروئن اداکارہ راگنی تھی۔ اس زمانے میں فلمیں کسی نہ کسی کمپنی کے نام سے بنتی تھیں اور جو بھی ان میں کام کرتا تھا وہ اس کمپنی کا ملازم ہو جاتا تھا اور اس کو معاوضہ مہینے کی تنخواہ کے طور پر ملتا تھا۔ لیکن یہ سلسلہ آگے چل کے ختم ہوا اور ہر فلم کا الگ معاوضہ طے پایا۔ جیساکہ فلم تڑپ بننے کے دوران کمپنی کو نذیر بیدی کا کام پسند نہیں آیا اور انھوں نے اسے ہٹا کر ڈائریکٹر نرجن کو باقی کام پورا کرنے کی ذمے داری دے ڈالی۔
یہ فلم آزادی سے پہلے مکمل ہوچکی تھی مگر اس کی نمائش ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ہوئی۔
جب سدھیر کے والدین کو پتا چلا کہ وہ فلموں میں کام کر رہا ہے تو انھوں نے گھر سے نکال دیا اور اس سے ناتا توڑ دیا جس کی وجہ سے اب انھیں زندگی گزارنے میں مشکل پیدا ہوگئی اورکئی مرتبہ وہ بھوک اور فاقے میں وقت گزارتے۔ اس دوران ایک دن ان کی ملاقات فلموں کے پروڈیوسر اور ہدایت کار اسلم ایرانی کے منیجر سے ہوئی وہ انھیں اپنے باس کے پاس لے گئے، انھوں نے سدھیر کو ڈھائی ہزار روپے پر ملازم رکھ لیا اور فلم ہچکولے میں سائن کردیا جس کے ہدایت کار داؤد چاند تھے اور اس کے علاوہ دوسری فلم دوپٹہ تھی جس کی ہدایت سبطین فاضلی دے رہے تھے۔ ہچکولے 1949 میں اور دوپٹہ 1952 میں ریلیز ہوئیں۔ دوپٹہ کے ہیرو اجے کمار تھے اور ہیروئن اداکارہ گلوکارہ نور جہاں تھیں۔ دوپٹہ فلم بڑی کامیاب ہوئی جس کی بڑی وجہ نور جہاں کی سریلی آواز اور فیروز نظامی کی موسیقی تھی۔ 1952 میں ہی اس کی پہلی فلم تڑپ بھی ریلیز ہوگئی جس نے بھی اچھا بزنس کیا۔ (جاری ہے)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔