چیخیں، چلائیں؛ لیکن!

عبدالباسط ذوالفقار  جمعرات 1 اگست 2019
چیخنے چلانے سے طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چیخنے چلانے سے طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ جانتے ہیں زندگی میں چیخنا، چلانا بہت ضروری ہے؟ ویسے بھی ہم چیختے تو ہیں۔ اپنے سے چھوٹوں پر، اپنی بیوی، بچوں پر رعب جمانے کےلیے گلا پھاڑ کر چلاتے ہیں۔ بعض اوقات والدین کی کسی بات کا چلا کر جواب دیتے ہیں۔ ویسے چیخنا، چلانا ضروری بھی تو ہے۔

’’اس لیے کہ چیخنے چلانے سے طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ذہنی تناؤ میں کمی ہوتی ہے۔ ڈپریشن کم ہوتا ہے۔ ضرور چیخا کریں۔ گلا پھاڑ کر چلایا کریں۔ جینے کےلیے یہ بہت ضروری ہے۔‘‘

کتنی عجیب بات ہے ناں؟ میں آپ کو چیخنے، چلانے کا مشورہ دے رہا ہوں۔ جی ہاں! ’’آپ چیخیں، چلائیں، دل کی بھڑاس نکال دیں۔ لیکن موقع محل پر۔ بلاوجہ چیخنا، چلانا، منہ سے جھاگ نکالنا، کوسنا، بدتہذیبی کی علامت ہوگی۔ آپ کو بدتہذیب سمجھا جائے گا۔‘‘

آپ کو غصہ ہے؟ آپ کی طبیعت کسی پر دل کی بھڑاس نکالنے کو مچل رہی ہے؟ آپ کو گھر کے کسی فرد پر غصہ آرہا ہے؟ آپ کا ایک بیٹا یا بھائی ہے، آپ کی طبیعت تاؤ کھارہی ہے، آپ چاہتے ہیں کہ اسے دو کھری کھری سنا دیں یا تھپڑ جھڑ دیں؟ لیکن آپ کا بس نہیں چل رہا اور اسے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ قد، عمر، تجربے میں آپ سے بڑا ہے۔ آپ کو خوف لاحق ہے کہ کہیں آگے سے وہ جواب ہی نہ دے دے یا مجھے ہی نہ جھڑ دے۔ تو آپ کو غصے پر قابو پاتے ہوئے پانی پی لینا چاہیے۔ نہ کہ وہ غصہ آپ اپنی بیٹی، بیوی، یا اپنے ماتحت پر نکال دیں۔

اوشو نے کہا تھا ’’جب آپ پر غصہ طاری ہورہا ہو تو آپ دفعتاً چوکس ہوجائیں، غصہ ختم ہوجائے گا۔‘‘

خیر میں تو چیخنے کی بات کررہا تھا۔ آپ کے ہاں کوئی مہمان آئے۔ میزبانی میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ آپ ان کی آؤ بھگت میں لگے ہیں۔ کھانا یا چائے بنانے میں گھر والوں کو دیر ہوگئی۔ آپ ان پر چیخیں نہیں، بلکہ آپ حوصلہ رکھیں، ان کا ہاتھ بٹائیں۔ چنگھاڑنے سے نہ کام جلدی ہوگا، نہ ہی کھانا اچھا بنے گا۔ مہمان کو خدا کی رحمت بنے رہنے دیں۔ گھر والوں کےلیے زحمت نہ بنائیں۔ ایسے ہی آپ اصول پسند شخص ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ہر کام اصول و ضوابط، وضع داری سے ہو۔ گھر کا کوئی فرد کسی اصول کی روگردانی کر بیٹھے تو اسے آرام سے سمجھائیے۔ چیخ چلا کر، غل مچا کر اپنا مقام مت گھٹائیے۔

آپ وقت کے بڑے پابند ہیں۔ صبح اٹھے تو تولیہ، پانی، کپڑے تیار نہیں تھے۔ بیوی تھکن سے چور تھی، اٹھ نہ پائی یا بچوں کے ساتھ لگی رہی اور گھڑی نہ دیکھ پائی۔ وقت کی خبر ہی نہ ہوئی اور ٹائم چپکے سے نکل گیا۔ اب آپ اٹھے ہیں تو چیخ چلا کر، شورغوغا کرکے اپنا اور گھر والوں کا من مت جلائیں۔ خود کپڑے استری کرلیں۔ اپنا کام خود کرنا بھی تو سنت ہے ناں۔ اپنی زوجہ کا ہاتھ بٹانا بھی ضروری ہے۔ آپ نے موبائل چارج پر لگایا، کسی دوسرے نے آپ کا موبائل ہٹا کر اپنا لگادیا۔ آپ غصے سے جل بھن گئے، تو چاہئے یہ کہ آپ چیختے ہوئے اپنا موبائل دیوار پر مار دیں نہ کہ حوصلہ کھو دیں اور کہیں کا غصہ کہیں پر نکال دیں۔

آپ بڑے ہیں۔ اندر ہی اندر ایک خواہش، بااختیار سمجھے جانے کی خواہش ابل رہی ہے۔ آپ نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو کسی کام کا کہا۔ وہ بھول گئے یا دیر ہوگئی۔ آپ کی طبیعت کو جھٹکا لگا۔ آپ تپتی دھوپ میں باہر سے آئے۔ بیٹی یا بیوی نے پانی پیش کرنے میں دیر کردی۔ آپ نے اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا کہا۔ وہ کھیلتے رہے۔ دیر ہوگئی۔ آپ نے انہیں پڑھنے، ہوم ورک کرنے کا کہا۔ انہوں نے بے توجہی سے بات ان سنی کردی۔ وہ گیم کھیلتے رہے۔ تو آپ پیار، شفقت، محبت کا لفظ مت بھولیے۔ ان پر چلا کر ان کے دل میں نفرت مت پیدا کیجیے، بلکہ آرام سے سمجھا دیجیے۔ جیسے آپ اچھے ہیں، آپ کے بچے بھی تو اتنے ہی اچھے ہوں گے۔ پیار کی زبان باآسانی سمجھ جائیں گے۔

آپ سفر یا دفتر سے تھکے ہارے آئے ہیں۔ یا گزشتہ دو راتوں سے سو نہیں پائے۔ نیند بہت قیمتی ہے۔ اب آپ نیند لینے لیٹے ہیں۔ گھر کے کام کی وجہ سے کھٹ پٹ کی آواز آپ کی نیند میں خلل ڈال رہی ہے، یا چھوٹے بچے ہیں، جن کی چہچہاہٹ آپ کی طبیعت پر بوجھ ڈال رہی ہے اور آپ سو نہیں پائے۔ تو براہ کرم ان پر چیخ چلا کر رعب مت ڈالیے۔ ان کے گلے گھونٹنے سے بہتر ہے آپ جگہ بدل دیں یا نہایت پیار سے بہلا کر بچوں کو دوسری جگہ کھیلنے کےلیے منتقل کردیں۔ پھر خود آرام سے سوجائیں۔ آپ کے یہ بچے چھوٹے ہیں۔ آپ ان میں نظم و ضبط کی خصوصیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر آپ کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ آداب سکھاتے ہوئے خود دہلیز پار کر بیٹھتے ہیں۔ آپ ان پر چیختے چلاتے ہیں تو یاد رکھئے کہ یہ نقصان کا باعث ہے۔ آپ کا زور زور سے چلانا بچے کے ذہن میں یہ تاثر پیدا نہیں کرتا کہ آپ بااختیار شخصیت ہیں، بلکہ اُن کے ذہن میں آپ کی بے بسی اور کمزوری کا تاثر ابھرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ آپ سے متاثر ہونا بالکل ہی چھوڑ دیتے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ والدین جتنا مرضی چیختے چلاتے رہیں، بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیتے۔

بات وہی کہ چیخنا بہت ضروری سہی، لیکن موقع کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے۔ آپ نے موویز میں دیکھا ہوگا، عاشق نامراد اپنی محبوبہ کو کھو کر اس کی یاد میں مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے دوست کے ساتھ ساحل سمندر، پارک وغیرہ جاتا ہے، وہاں وہ چیختا ہے، اونچی اونچی آواز میں چلاتا ہے۔ سارا غم ہواؤں کے سپرد کرکے واپسی کی راہ لیتا ہے۔ اسی طرح فلم کا کوئی کردار چھت پر چڑھ کر منہ آسمان کی طرف اٹھا کر چلاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں کو گولائی سے منہ کے آگے رکھ کر آواز کو دور تک پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس لیے کہ غم ہلکا ہو، طبیعت بحال ہو۔ آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ بچوں پر چیخنے، والدین پر چلانے، بیوی کو اذیت دینے سے بہتر ہے آپ وہ غصہ، وہ بوجھ، وہ غم، ہواؤں کے سپرد کردیں۔ ایسی کوئی جگہ میسر نہیں تو گھر کے کسی گوشے میں یہ کام سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ واش روم کا ایک استعمال یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔ جب طبیعت تاؤ کھا رہی ہو تو واش روم کر رخ کریں۔ وہاں چلائیں اور سکون نہ ملے تو ایک مگ پانی بھی سر پر انڈیل دیں۔ طمانیت ملے گی۔ لیکن اپنے سے چھوٹوں، کمزوروں پر چلا کر غیر مہذب ہونے کا ثبوت نہ دیں۔

یاد آیا، چیخنا چلانا ایک رسم بھی تو ہے۔ وہ رسم آپ بھی نبھا سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ویب سائٹ ٹٹولتے سوئیڈن میں رات دس بجے چیخنے کی ایک خبر پر نظر پڑی تھی۔ وہاں کے شہر اپسالا میں لوگ رات دس بجے کھڑکیاں کھول کر زور سے چیخ مارتے، چلاتے ہیں۔ فلوگسٹا اسکریم باقاعدہ ایک لفظ بن گیا ہے۔ وہاں تقریباً دس بجے لوگ چیخیں مارتے ہیں۔ عام حالات میں رات کے اس پہر چیخ کی آواز سن کر لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اپسالا کا یہ منظر عام ہے۔ جو گزشتہ چالیس برس سے جاری ہے۔ وہیں ایک جامعہ ہے، جہاں کے طلبا بھی اس رسم کو بخوبی نبھاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ 1970 میں اسی جامعہ کے کچھ طلبا نے ڈپریشن کم کرنے کےلیے چیخنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جو 2006 تک جاری رہا۔ پھر اچانک رک گیا۔ کچھ طلبا نے اس رسم کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی اور اب پھر لوگوں کی کچھ تعداد رات دس بجے چیختی ہے، کھڑکیاں کھول کر سر باہر نکال کر چلاتی ہے، اپنا غم ہلکا کرتی ہے۔

آپ بھی اس رسم کو نبھا سکتے ہیں۔ چیخ سکتے ہیں، چلا سکتے ہیں۔ تیز آواز خارج کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرسکتے ہیں۔ چیخیے، چلائیے، یہ بہت ضروری ہے، لیکن خیال رہے اپنا غم ہلکا کرنے کی فکر میں دوسروں کو غمزدہ ہونے سے بچائیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔