دفتری سیاست

مدیحہ ضرار  جمعـء 2 اگست 2019
دفتری سیاست کے باعث ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دفتری سیاست کے باعث ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سیاست آج کل صرف سیاست دان ہی نہیں کررہے، بلکہ گھر کی چار دیواری سے لے کر محکموں، تنظیموں اور اداروں میں اس کے اثرات موجود ہیں۔ دفتر میں موجود ملازمین کی سیاست ہو یا گھر میں موجود ساس بہو کی، حالات تقریباً ایک ہی جتنے پیچیدہ اور کٹھن ہیں۔ ذاتی مفاد کا تحفظ ہو یا حقوق کی جنگ، اقتدار کا حصول ہو یا جمہوری روایات کا تحفظ، سیاست کئی طریقے سے ہوسکتی ہے۔ گویا یہ ایک ایسا آرٹ ہے جو اگر آجائے تو کیا کہنے اور اگر نہ آئے تو پی ایچ ڈی بھی اس پر تھوڑی ہے۔

دفتری سیاست ایک ایسا رویہ یا سلوک ہے، جو مختلف سرگرمیوں کے ذریعے اداروں میں اپنی طاقت یا فائدہ حاصل کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دفتر چاہے دو افراد پر مشتمل چھوٹی سی کٹیا ہو یا بڑی سطح کی تنظیم، دنیا میں کوئی بھی شعبہ اس سیاست سے محفوظ نہیں ہے۔

ماہر نفسیات ابراہیم ٹیسر کے مطابق کسی اجنبی کو ملنے والی کامیابی کے مقابلے میں اپنے قریبی دوست یا ساتھی کی کامیابی ہم پر زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ذہن میں یہ سوچ ہے کہ ایک جیسے حالات، ماحول اور صلاحیتوں کے زیر اثر پروان چڑھنے والا ہم سے آگے کیسے چلا گیا۔ انسانی نفسیات کو یہ بات ہضم کرنا مشکل ہوتی ہے اور انجانے میں وہ حسد یا پروفیشل جیلسی کی زد میں آجاتا ہے۔ ایسے ہی ملتے جلتے جذبات دفتر میں موجود اور ملازمین کے بھی ہوتے ہیں، جو پروان چڑھتے چڑھتے خطرناک صورتحال اختیار کرلیتے ہیں۔

دفتری سیاست پیدا کیسے ہوتی ہے؟ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جس میں سب سے بڑی وجہ حسد اور شخصیت پرستی ہے۔ جس میں اپنے نام کو اونچا کرنے کے چکروں میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے مجمع میں خود کو نمایاں کرنے کےلیے ایسے جتن کیے جاتے ہیں جن میں سیاست بھی شامل ہے۔ جس میں سب سے زیادہ نقصان تنظیم یا ادارے کا ہوتا ہے، کیونکہ افراد کی تمام تر توجہ ایک دوسرے کی کھینچاتانی اور اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگ جاتی ہے۔

ٹیم ورک ایک نظریہ ہے، جس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ مختلف صلاحیتوں اور مہارتوں کے افراد کے ملاپ سے ٹیم بنتی ہے۔ جہاں ہر کسی کی اپنی ایک مہارت ہوتی ہے اور اس کو اپنے دائرے میں رہ کر اپنا آپ منوانا ہوتا ہے۔ مغالطہ یہاں پیدا ہوتا ہے، جب ہر کوئی اپنے دائرے سے نکل کر دوسرے کے دائرے کے خول کو کھینچنا شروع کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دفتر کے ماحول میں کھنچاؤ کی کیفیت آجاتی ہے۔ کاموں پر تنازعہ اور کشیدگی بڑھ جاتی ہے اور سب کی کارکردگی متاثر ہونے لگ جاتی ہے۔ ہر کوئی ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتا ہے اور خود پر پڑا کام بوجھ معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ عرصہ اس کا شکار رہنے سے ٹیم میں تنقید اور نفرت بڑھ جاتی ہے اور ممبران ایک دوسرے کےلیے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔

اس سب سیاست کے باعث جہاں ادارے کو نقصان ہوتا ہے، وہیں ان کی کارکردگی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ ممبران کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہر کسی کی صلاحیتیں مختلف ہیں اور ہر کوئی وہی کام اچھا کرسکتا ہے جس میں اس کی مہارت ہے۔ المیہ یہ کہ اپنی صلاحیت سے نظریں چرائے، وہ دوسرے کی صلاحیتوں کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے۔ ایک دوسرے سے بازی لینے کے چکروں میں اور اپنا نام اونچا رکھنے کےلیے ہر کوئی ذاتی سطح پر دوسرے کو کچلنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ جس سے ٹیم کا نظریہ فوت ہوجاتا ہے۔

دفتروں میں جہاں ممبران کی ذاتی سطح پر تربیت کرنا بہت اہم ہے۔ وہیں ان کو مل جل کر کام کرنے کے گر سکھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ان کو یہ باور کروایا جائے کہ کسی بڑے ہدف کو حاصل کرنے کےلیے سب ٹیم کا آپس میں کام کرنا کتنا ضروری ہے۔ شخصی تعصب سے باہر آکر سب کی صلاحیتوں کو اپنی مضبوطی سمجھنا ہی اصل میں ٹیم کی طاقت ہے، جس سے وہ اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔ ہر ممبر کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اس کی ٹیم کا ایک ایک فرد اور ان کی مہارت انھیں اوپر لے کر جاسکتی ہے۔ دفتری سیاست اور حسد منفی احساسات کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن اگر انہی احساسات کو مثبت طرح سے سوچتے ہوئے ٹیم ممبر کی تعریف کردی جائے تو اس سے انکساری پیدا ہوگی۔ ٹیم کے لوگ ایک دوسرے سے منسلک رہیں گے اور سب سے بڑھ کر اس کا اثر ان کی پوری ٹیم کی کارکردگی پر بہت شاندار رہے گا۔

اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ دو ہاتھ کے اندر وزن اٹھانے کی سکت بہت محدود ہے، لیکن جب بہت سارے ہاتھ مل جائیں تو ناممکن کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ جیئیں اور دوسروں کو جینے دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔