جمہوریت بہترین انتقام ہے؟

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 19 ستمبر 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے حکمرانوں کے ارشادات عالیہ بیانوں، تقریروں اور پریس کانفرنسوں کی شکل میں ہر روز ہی عوام اور خواص کی نظروں سے گزرتے ہیں لیکن عوام اور خواص ان پر غور کرنے کی زحمت اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی اہمیت ’’بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن بعض ارشادات کو بار بار اس طرح دہرایا جاتاہے کہ جیسے یہ افلاطون اور ارسطو کے فرمودات ہیں۔ اس لیے ذہن ان پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے۔ ہمارے سابق صدر اپنے دور صدارت میں دانستہ یا نا دانستہ اکثر  یہ فرماتے رہے ہیںکہ ’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ ہوسکتا ہے یہ کہتے وقت ان کے ذہن میں اس کے مہمل اور بے معنی ہونے کا احساس نہ ہو اور اس کا رخ اپنے رقیب روسیاہ کی طرف ہو۔ لیکن آج جب ہم نے اس مہمل اور بے معنی جملے پر غور کرنا شروع کیا تو اس کے اندر ایسے ایسے جہان معنی نظر آئے کہ ہم تصویر حیرت بن گئے۔

لفظ جمہوریت پسماندہ ملکوں میں اس قدر استعمال ہوتا ہے کہ اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں تو عوام بے چارے اس متبرک لفظ کے معنی پانچ سال میں ایک بار اس وقت تھوڑا بہت سمجھ پاتے ہیں جب وہ پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں اور اس جان لیوا انتظار کے بعد سیاسی وڈیروں، ذات برادری زبان قومیت یا فقہوں کے حوالے سے جب اپنا ووٹ ڈبے میں ڈال کر واپس گھر آتے ہیں تو انھیں یہ احساس ہوتاہے کہ وہ اپنے کسی دشمن کی میت کو دفنا کر آرہے ہیں۔ عام طور پر ذرا کھاتے پیتے گھرانوں کا کوئی فرد فوت ہوتا ہے تو اہل جنازہ کو قبرستان سے واپسی کے بعد اس مشقت کے صلے کے طور پر بریانی کھلائی جاتی ہے لیکن جب غریب آدمی پولنگ اسٹیشن کے قبرستان جاتا ہے تو عموماً بھوکا ہی جاتا ہے اور جب گھنٹوں بعد اپنا ووٹ دفنا کر واپس آتا ہے تو گھر کا چولہا اسے ٹھنڈا ہی ملتا ہے۔

اس 35 سالہ مشقت بے جا نے غریب عوام کو لفظ جمہوریت سے اس قدر متنفر کردیا ہے کہ اب وہ ووٹ کے بجائے اس رقیب روسیاہ جمہوریت ہی کو دفنانے کی سوچ رہا ہے۔ آصف علی زرداری ہوں یا نواز شریف یا کوئی اور سیاسی سپر اسٹار اس جمہوری فلم میں اداکاری کا معاوضہ اربوں کی شکل میں لیتا ہے اور بے چارے عوام جو زندگی کی کھٹنائیوں سے گھبرا کر اس جمہوری فلم کو دیکھنے جاتے ہیں تو انھیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ٹکٹوں سے جمع ہونے والے اربوں روپے یا تو اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکاروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں یا ڈائریکٹرز یا پروڈیوسرز کی جیبوں میں، ہر حالت میں ان کی جیب اور پیٹ خالی رہتے ہیں۔ عام طور پر ہماری جمہوریت کو چہروں کی تبدیلی کا کھیل کہا جاتا ہے۔ لیکن اب یہ کھیل اس تکلف کا بھی روادار نہیں رہا۔ وہی چہرے، وہی نعرے، وہی وعدے، وہی فریب، وہی دھوکے، وہی چند خاندان، وہی روایتی سیاست، وہی وراثتی حکمرانی۔

مجھے نہیں معلوم کہ آصف علی زرداری نے جب یہ فرماتے ہیں ’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ تو ان کے ذہن میں اس عالمانہ جملے کا مطلب کیا تھا؟ لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے ہوسکتا ہے ان کا اشارہ ان سیاسی و غیر سیاسی رقیبوں کی طرف ہو جو ان کے اقتدار کے درپے ہوں لیکن اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ موصوف کا یہ تاریخی جملہ کسی ٹارگٹ کلر کے پکے نشانے کی طرح غریب عوام پر ایسا لگا ہے کہ صید صرف پھڑپھڑا رہا ہے۔ صیاد کو یہ تک پتہ نہیں کہ اس کے عالمانہ ترکش سے نکلا ہوا یہ تیر کسی ٹارگٹ کلر کی طرح غریب کے سینے پر لگتا ہے اور یہ دانستہ یا نادانستہ کہا ہوا جملہ غریب عوام پر اس بری طرح صادق آتا ہے کہ اہل خرد مرد دانا زرداری کی چاند ماری پر اش اش کرتے رہ جاتے ہیں اور جمہوریت کے اسرار و رموز سے واقف کرانے پر تہہ دل سے آصف علی زرداری کے مرہون منت رہتے ہیں۔

ہم آصف علی زرداری کو تین حوالوں سے جانتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ اس ملک کے خواندہ اور ناخواندہ عوام بھی زرداری کو ان تین حوالوں ہی سے جانتے ہوںگے۔ ایک حوالہ حاکم علی زرداری ہیں، دوسرا حوالہ محترمہ بینظیر بھٹو سے ان کی شادی کا ہے، یہ پہچان زرداری صاحب کی سیاسی پہچان بن گئی اور اس پہچان نے انھیں سیاست کے میدان میں اتنی پیش رفت دلوادی کہ وہ اس ملک کے صدر بن گئے، ملک کے صدر بننے کے بعد ان کی پہچان کا تیسرا حوالہ ان کی مفاہمتی سیاست بنا، اس طلسم کا عالم یہ ہے کہ سیاست میں ان کا سب سے بڑا حریف نواز شریف بھی اس مفاہمتی سیاست کا گرویدہ بن گیا ہے اور اس سیاست سے اس بری طرح متاثر ہے کہ اپنی حکومت کی پالیسی ان ہی خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے اور امید ہے کہ اس مفاہمتی سیاست کی بدولت آصف علی زرداری جس طرح اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اسی طرح نواز شریف بھی اﷲ کے فضل سے اس فلسفے کے سہارے اپنی پانچ سالہ مدت یا عدت پوری کرلیںگے۔

جمہوریت میں بڑی برکت ہوتی ہے، کروڑ پتیوں کو ارب پتی بنادیتی ہے ، ارب پتیوں کو کھرب پتی بنادیتی ہے، اس میدان کے صف اول کے تمام کھلاڑی انیس بیس کے فرق کے ساتھ ارب پتیوں کی فہرست میں ہی شامل ہیں۔ ریاضی کے جمع کے سوال پر نظر ڈالیں تو ارب + ارب + ارب کھربوں میں بدل جاتے ہیں اور اسے ہم جمہوریت کا اعجاز کہیں یا طلسم کہ کھربوں کی یہ خون پسینے کی دولت چند ہاتھوں میں جمع ہوکر اٹھارہ کروڑ عوام کو تفریق کردیتی ہے، اگر پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کے ہر صفحے پر یہی جمع تفریق نظر آتی ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے یہی جمہوریت کا بہترین انتقام ہے۔

ہمارے دانشورانہ حلقوں میں ایک اصطلاح بہت مشہور ہے وہ ہے ’’سیلف میڈ‘‘۔ اس حوالے سے اگر ہم بہت سارے سیاسی سیلف میڈوں پر نظر ڈالیں تو اس اصطلاح پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے۔ مثلاً زرداری خاندان کو لے لیجیے، میاں خاندان کو لے لیجیے تو کیا ہم سیلف میڈ کی اصطلاح کو جھٹلاسکتے ہیں؟ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت دودھ اور پانی کی طرح لازم وملزوم ہیں، سرمایہ دارانہ نظام ٹاٹابرلا، بل گیٹس اور لکشمی متل پیدا کرتا ہے، جمہوری نظام ا ب ت پ پیدا کرتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ اعلیٰ سطح کیبدعنوان اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے جمہوری حکمرانوں کا سہارا لیتے ہیں، جمہوری حکمران 3-2 فیصد ٹیکس وصول کرکے اربوں کے کالے دھن کو سفید کردیتے ہیں، ان دھنوانوں نے اپنے سفید دھن کو کالا کرنے کا ایک متبرک طریقہ یہ نکالا ہے کہ اپنی کھربوں کی دولت میں سے اربوں کو چیریٹی یعنی خیرات فنڈ میں ڈال دیتے ہیں اور ہم جیسے دانشور اس خیرات کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ محتاجوں کی نظروں میں چور ڈاکو غنی بن جاتے ہیں۔ جب قومی دولت کا 80 فیصد حصہ دو فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہوجائے گا تو 98 فیصد کے ہاتھ جیب اور پیٹ خالی رہ جائیںگے، اس پس منظر میں جب ہم  ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کے فلسفے  پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایمان لانا پڑتا ہے کہ جمہوریت عوام کے خلاف ایک بہترین انتقام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔