افسردگی: عہد حاضر کا عفریت

غلام محی الدین  اتوار 22 ستمبر 2013
ڈیپریشن بھی ایک عارضہ ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

ڈیپریشن بھی ایک عارضہ ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

چند سال قبل عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں ذہنی بیماریوں کی ادویات کی فروخت 96 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

یقیناًً یہ تخمینہ اب ایک سو ارب ڈالر سے کہیں اوپر ہو چکا ہو گا۔ اس رپورٹ میں ایک ذہنی بگاڑ کی ایک صرف کیفیت’’ڈیپریشن‘‘ کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ اس عارضے سے نجات کے لیے عالمی سطح پر سب سے زیادہ ادویات کا استعمال ہوتا ہے،جو اس وقت کل تخمینے کا بائیس فی صد تھا۔ جو اس وقت بھی زیادہ تھا اور آج بھی کم نہیں ہوا۔ اس رپورٹ کے تناظر میں ہم یہاں اس خوف ناک عارضے پر روشنی ڈالیں گے تا کہ اس عارضے سے بغیر ادویات کے چھٹکارے کی راہ ہموار ہو سکے۔

کیا ہم ڈپریشن کو انسان کی ذاتی کمزوری کا نام دے سکتے ہیں؟
جیسے ذیابیطس اور بلڈ پریشر ایک بیماری ہے، اسی طرح سے ڈیپریشن بھی ایک عارضہ ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ دوسرے بیماروں کی طرح یہ لوگ بھی ہم دردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایک ڈیپرسڈ اپنی مددآپ زیادہ بہتر کر سکتاہے۔ آپ دیپریسڈ ہیں تو اسے راز نہ بنائیں، شیئرنگ ضرور کریں ، یہ ایک عمومی علاج ہے۔ ایسی صورت درپیش ہو تو ورزش ضرور کریں، خواہ یہ چند منٹ کی چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو، خود کو مصروف رکھیں۔ اس سے توجہ بٹی رہے گی۔ غذا متوازن رکھیے، پھل اور سبزیاں بہت مفید ہوتی ہیں۔ ڈیپریشن میں لوگ کھانا کم کر دیتے ہیں یاچھوڑ دیتے ہیں جو ایک خطرناک عمل ہے کیوں کہ اس طرح حیاتین کم ہو جاتے ہیں اور ڈیپریشن بڑھ جاتا ہے۔ بعض لوگ اس سے خلاصی کے لیے شراب یا چرس، گانجے وغیرہ کا سہارا لیتے جو وقتی طور پر کام کرتے ہیں لیکن ان کا اثر ختم ہوتا ہے تو ڈیپریشن پہلے سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ نیند نہ آنے سے پریشان نہ ہوں۔

آپ کو اپنے ڈپریشن کی وجہ معلوم ہے تو اس پر غور کریں کہ اسے کیسے حل کیا جائے؟ اس بھی ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں اور مزید گزریں گے۔ایک نہ ایک روز آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا چاہے ابھی آپ کو ایسا محسوس نہ ہوتا ہو۔ ڈیپریشن کا علاج باتوں (سائیکو تھراپی) کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات سے بھی اور بہ یک وقت دونوں کے استعمال سے بھی ممکن ہے لیکن یہ بات معالج زیادہ بہتر طور پر بتا سکتا ہے۔ ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں سائیکوتھراپی کے استعمال سے طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے،اگر ڈپریشن زیادہ شدید ہو تو دوا دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

باتوں کے ذریعے علاج (سائیکوتھراپی):۔ ڈیپریشن میں اکثر لوگوں کو اپنے احساسات کسی با اعتماد شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے طبیعت بہتر محسوس ہوتی ہے۔اکثر اپنے احساسات رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ بانٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ماہر نفسیات (سائیکولوجسٹ) سے بات کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

سائیکوتھراپی (بات چیت) سے علاج میں ماہر نفسیات سے ہفتے میں ایک گھنٹے کی ملاقات کرنا ہوتی ہے اور یہ سلالہ پانچ سے تین ہفتے ہو سکتا ہے۔ ڈیپریشن شدید یا لمبے عرصے سے چل رہا ہو تو آپ کو اینٹی ڈیپریسنٹ ادویات بھی تجویز کی جاسکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسانی دماغ میں بہت سے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک سگنل پہنچاتے ہیں۔ ڈیپریشن میں دو خاص مادوں کی کمی واقع ہوجاتی ہے جو سیروٹونن اور نارایڈرینالین کہلاتے ہیں۔ اینٹی ڈیپریسنٹ دوائیں ان مادوں کی مقدار بڑھانے میں مددگار ہو تی ہیں۔ ان دواؤں کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں لیکن شدید نہیں ہوتے اور کچھ عرصے میں خود ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ ایس ایس آر آئی، اینٹی ڈیپریسنٹ ادویات شروع کے دنوں میں کچھ مریضوں میں متلی اور بے چینی پیدا کردیتی ہیں۔ ٹرائی سائکلسٹ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے شروع کے چند ہفتوں میں منہ خشک اور قبض کی شکایات ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ مضر اثرات بہت شدید نہ ہوں تو آپ کا ڈاکٹر آپ کو کہے گا کہ دوا جاری رکھیں کیوں کہ اکثر مریضوں میں دوا جاری رکھنے سے یہ اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔

اینٹی ڈیپریسنٹ ادویات طبیعت کی بہ حالی کے بعد بھی کم از کم مزید چھ مہینے تک جاری رکھنا پڑتی ہیں ورنہ بیماری کی علامات پلٹ آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ ادویات آہستہ آہستہ بند کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ اینٹی ڈیپریسنٹ ادویات اپنا عادی نہیں بناتیں۔ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو اچانک بند کریں گے تو گھبراہٹ، پتلا پاخانہ اور ڈراؤنے خواب کی شکایات ہو سکتی ہیں۔اگر دوائیں آہستہ آہستہ بند کی جائیں تو یہ شکایات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔

ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ):۔ سائیکاٹرسٹ خاص ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ ڈیپریشن کے اسی فیصد مریض علاج نہ کرانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ یہ بتانا ممکن نہیں کہ کون ٹھیک ہو گا اور کون نہیں؟۔ اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو انسان کئی مہینوں تک اتنی شدید تکلیف کیوں برداشت کرے۔ کچھ لوگوں کا ڈیپریشن اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیتے ہیں اسی لیے اگر آپ کے ڈیپریشن کی علامات کی شدت بڑھ گئی ہے اور ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی اور ڈپریشن نے آپ کے کام، دلچسپیوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے، یا آپ کو اس طرح کے خیالات آنے لگے ہیں کہ آپ کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دوسرے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ مر جائیں، تو آپ کو فوراً اپنا علاج کروانے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا سائکاٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔

ڈیپریشن کے مریضوں کی تعداد کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ نوجوان بھی اس کی زد میںکیوں آنے لگے ہیں؟ ان سوالات کا واضح اور حتمی جواب کسی کو معلوم نہیں تاہم امریکا کے ذہنی صحت کے قومی ادارے کے ڈاکٹر رابرٹ برش فیلڈ اس سلسلے میں حالیہ عشروں کے دوران پیدا ہونے والی زبردست سماجی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’ گذشتہ پچاس برسوں میں عورتوں اور مردوں کے روایتی رویے بدل چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں عورتیں محنت مزدوری اور ملازمتیں کرنے لگی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں افراد روزگار اور کاروبار کے مواقع کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے، اس طرح وہ اپنے خاندانوں اور دوستوں کی قربت اور سپورٹ سے محروم ہورہے ہیں۔ ڈپریشن کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، سادہ ڈیپریشن، جو وقتی ہوتا ہے۔ دوسری قسم ’’کلینکل ڈیپریشن‘‘ ہے۔ یہ شدید قسم کا ڈپریشن ہے۔ ماہرین اس سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیںکیوںکہ یہ خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی توجہ درکار ہوتی ہے۔

یہاں ہم ان پانچ طریقوں کا جائزہ لیںتے ہیں جو ڈیپریشن کے ممتاز ماہرین کے تجویز کردہ ہیں۔ پہلی بات یاد رکھیں کہ ڈپریشن کاہلی اور بے کاری سے پیدا ہوتا ہے۔ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا یا جو کچھ کرنا نہیں چاہتے ، وہ ڈپریشن کی گود میں جا گرتے ہیں لہٰذا عملی زندگی اس کا تریاق ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ آپ جس قدر کام سے دور بھاگیں گے ، اسی قدر کام سے بے زاری بڑھے گی لہٰذا نفسیاتی طب کے ایک ماہر ڈیوڈ برنر نے ڈیپریشن کا طریقہ یہ تجویز کیا ہے کہ ہر روز رات تک کا ایک ایکشن پلان تیار کریں۔ نہانے ، صبح کی سیر ، ناشتہ کرنے جیسے معمولات بھی نظرانداز نہیں ہونے چاہییں۔ وجہ یہ ہے کہ ڈیپریشن کی حالت میں چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑے لگتے ہیں۔ جو کام مشکل اور پیچیدہ ہوں ، ان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ لیں، یوں وہ مزید آسان ہوجائیں گے۔ اگر آپ کو پلان تیار کرنا بھی وبال ہو تو ڈاکٹر برنر کی یہ نصیحت یاد کرلیں کہ کام کو عمومًا خواہش سے پہلے ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ پاوں ہلانے کے لیے آ پ کو یہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے دل میں ہاتھ پاؤں ہلانے کی خواہش پیدا ہو، بس ہاتھ پاؤں ہلانا شروع کر دیں، اس سے خواہش خود پیدا ہوجائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک آپ ڈپریشن کی لپیٹ میں رہیں گے اس وقت تک خواہش پیدا ہی نہیں ہوگی لہٰذا خواہش کا انتظارچھوڑیے۔

بہت سے ڈاکٹراپنے مریضوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ایثار بہتر صحت کا ایک راز ہے، رضاکارانہ سرگرمیوں، سماجی خدمت اور دوسروں کے کام آنے سے آپ صرف ان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتے بل کہ اس سے آپ کی اپنی جسمانی ،جذباتی اور ذہنی صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ نیویارک کے ماربل کالجیٹ چرچ کی ایسوسی ایٹ منسٹر فلورنس پرٹ رضاکاروں کے ساتھ کام کرتی ہیں، کہتی ہیں ’’دوسروں کے کام آنے سے آپ خود کو ہم درد و غم گسار محسوس کرتے ہیں، آپ خود سے کہتے ہیں ’’ دیکھا! میں بہت کچھ کرسکتا ہوں، بے وقعت نہیں ہوں، میری وجہ سے دوسروں کا بھلا ہوتا ہے‘‘۔ لوگوں سے دوری اور بے نیازی ڈیپریشن کا ایک اہم سبب ہے لہٰذا دوسروں سے تعلقات بنانے، ان کے کام آنے اور ان کی مدد کرنے سے آپ اس روگ پر قابو پاسکتے ہیں۔

ڈیپریشن کا شکار ہونے والے اکثر لوگ ان مشغلوں سے بھی بے زار ہوجاتے ہیں، جن سے ماضی میں لطف اٹھاتے رہے۔ یوں ان کی کیفیت زیادہ گمبھیر ہوجاتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے روزانہ کے ایجنڈے میںایسی سرگرمیاں شامل کرلیں جن سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہ طریقۂ کار یوجین کے آریگون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر نفسیات پیٹر ایم لیون سوہن کا تجویز کردہ ہے۔ سوہن کہتے ہیں، میل جول بڑھائیں، سماجی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، دوستوں عزیزوں سے ملیں، ایسے کام شروع کریں جن سے آپ کو اپنی صلاحیتوں کا احساس ہو، نئے دوست بنائیں، فلم، موسیقی، کھیل اور دوسری دل چسپیوں میں حصہ لیں اور ہاں، مسکرانا مت بھولیے۔ ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہمارے جذبے ہمارے طرز عمل سے مرتب ہوتے ہیں۔امریکا کی کلارک یونی ورسٹی کے نفسیات کے استاد جیمز ڈی لیئرڈ کا مشورہ یہ ہے کہ اداسی کا دورہ پڑے تو خود کو کمرے میں بند مت کریں اور نہ ہی منہ لٹکائیں، بس ۔۔۔ مسکرائیے۔ محض اتنی سی کوشش سے آپ کا موڈ بدل جائے گا۔


روشنی چاہے فطری ہو یا مصنوعی، دونوں صورتوں میں ہماری نفسیاتی حالت پر اچھا اثر ڈالتی ہے سو گھر میں روشنی کا بہتر انتظام کریں، کشادگی کا تاثر دینے والے پردے، فرنیچر اور دوسرا ساز و سامان رکھیں۔

ڈیپریشن اور ذیابیطس
تحقیق ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈیپریشن کا خطرہ دگنا ہوتاہے۔ ذیابیطس جیسی دائمی بیماری کے ساتھ جینا، جسم کے افعال اور ہارمونز سے تعلق رکھنے والے عوامل سے نبٹنا،نیز اس کیفیت کو قابو میں رکھنے کی ضرورت کی وجہ ڈپریشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جب کہ ساتھ ساتھ پیچیدگیاں پیداہونے کا خطرہ بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے جیسے آنکھوں کو نقصان اعصاب کو نقصان اور گردوں کو نقصان، دوسری طرف، ڈیپریشن کی وجہ سے ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ دگنا ہو سکتا ہے۔

اس کی وجوہ شاید سٹریس ہارمونز کی زیادتی او وزن میں اضافہ ہے کیوں کہ ڈیپریشن میں مبتلا لوگ اکثر ورزش نہیں کرتے۔ ڈیپریشن کی وجہ سے ذیابیطس کی پیچیدگیاں لاحق ہونے کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔ ڈیپریشن میں مبتلا لوگوں کے لیے روزمرّہ کام نمٹانا مشکل ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کو قابو میں رکھنا باقاعدگی سے خون میں لوکوزچیک کرنا، دوائیں لینا، کھانے کے صحت بخش پلان پر عمل کرنا اور باقاعدگی سے ورزش کی ضرورت انسان پر بوجھ بن کر برا اثر چھوڑ سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈیپریشن کا خطرہ بڑھتاہے جس کا مزید نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص ذیابیطس کی معمول کی دیکھ بھال کرنے سے کوتاہی برتنے لگے۔

آسان اور متبادل علاج
آج کے گونا گوں معاشرتی، سماجی مسائل اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر کوئی پریشان ہے۔ ڈیپریشن اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی اس سے محفوظ رہا ہو۔ روزانہ کسی نہ کسی ایسی صورت حال سے پالا پڑتا ہے جس کی وجہ سے خواہ مہ خواہ ڈیپریشن ہو جاتاہے۔ ڈپریشن زیادہ ہو جائے تو اس کا نتیجہ خودکشی کی صورت میں نکلتا ہے بل کہ خودکشی کی 100 فی صد وجہ ڈیپریشن ہی ہے۔ بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے کام یاب لوگ کو کہتے سنا گیا ہے کہ ان کا زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا۔ ڈیپریشن میں انسان خود کو بے بس محسوس کرتا ہے اور سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈیپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنا مفید ہے، اپنے پر اعتماد رکھیں کہ آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔

شہد ملے دودھ کے ساتھ سیب کھانا ہر طرح کے ڈپریشن میں مفید ہے۔ معمول کی چائے اور کافی کے بجائے گلاب کی پتیوں سے قہوہ بنا کر پیا جائے تو بہت جلد طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔ کاجو ڈپریشن کو ختم کرنے میں حیرت انگیز خوبیوں کا حامل ہے۔ موسم سرما میں اس کا استعمال جاری رہنا چاہیے۔

روزانہ صبح اٹھ کر پروگرام بنایے اور اس کے مطابق کام کریں۔ جو چیز زیادہ اہم اور ضروری ہے اسے پہلے کریں۔ اپنے خیالات کو پراگندہ نہ ہونے دیں۔ نفرت، غصے، پشیمانی ، پریشانی اور حسد کے جذبات کو دل سے نکال دیں۔ محبت، خوشی، پیار اور تعاون کے جذبات دل میں بسا لیں، اس سے آپ کا من راضی ہو گا اور آپ خوش وخرم رہیں گے۔ سادہ پہنیں، سادہ کھائیں اور خود مختلف مشاغل یافلاحی کاموں میں مصروف کریں۔ ضرورت مندوں کی مدد کریں، اس سے دلی سکون ملے گا۔

انٹرنیٹ کے عادی نوجوان ڈپریشن کا شکار
بہت سے نوجوان انٹرنیٹ اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ انہیں نشے کی طرح اس کی لت پڑجاتی ہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق تقریباً ہروقت آن لائن رہنے والے ایسے نوجوانوں میں ڈپریشن کا شکار ہو جانے کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔آج کے دور میں بھلا انٹرنیٹ اور موبائل فون کون استعمال نہیں کرنا چاہے گا؟ انٹرنیٹ تو نوجونوں میں اتنا مقبول ہے کہ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ریاستوں تک میں نوجوان نسل کو ’نیٹ جنریشن‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہے۔ طبی ماہرین کسی بھی صارف کے نامناسب حد تک زیادہ آن لائین رہنے کو، جسے متعلقہ فرد خود بھی کنڑول نہ کر سکے، انٹرنیٹ کے پیتھالوجیکل استعمال کا نام دیتے ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں ماہرین نے حال ہی میں ایک سروے مکمل کیاہے، جس میں انٹرنیٹ کے بیماری کی حد تک استعمال اور بعد میں پیدا ہونے والے ذہنی صحت کے مسائل کا طویل عرصے تک تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔ اس مطالعے میں حصہ لینے والے ایک ہزار سے زیادہ چینی ٹین ایجرز کی اوسط عمر پندرہ برس تھی۔ ثابت یہ ہوا کہ نشے کی حد تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نوجوانوں میں ڈیپریشن کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت ان تیرہ سے انیس برس تک کے لڑکوں لڑکیوں کے، جو مناسب حد تک آن لائین رہتے ہیں۔

ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ہر وقت آن لائن رہنے کے خواہش مند نوجوانوں کو اکثر ان کے سماجی اور خاندانی رشتوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے، یہ ہی نہیں، ایسے افراد کی صحت بھی خراب رہتی ہے۔ ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے اور کئی دیگر نفسیاتی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس سروے کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ ایسے نوجوان بالعموم بے چین رہنے لگتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان 1041 نوجوانوں کو ایسے سوالنامے بھی پر کرنے کے لیے دیے گئے، جن میں کسی عمل کی نشے کی حد تک عادت سے متعلق مختلف پہلوؤں سے سوالات بھی پوچھے گئے تھے۔

بہت طویل عرصے تک جاری رہنے والے اس مطالعے کے شروع میں 62 نوجوان ایسے تھے، جنہیں انٹرنیٹ کے بہت زیادہ استعمال کی عادت تھی لیکن اس عادت کو بیماری کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نو ماہ بعد جب اس سروے کے شرکا کا ڈیپریشن اور نفسیاتی بے چینی کے آثار کے تعین کے لیے دوبارہ معائنہ کیا گیا توآٹھ نوجوانوں میں بیماری کی حد تک زیادہ نفسیاتی بے چینی پائی گئی۔ اس کے علاوہ 8۔7 یا 8.5 فی صد نوجوان ایسے تھے، جو وقفے وقفے سے بار بار ڈیپریشن کا شکار ہو چکے تھے۔

دنیا بھر میں ڈیپریشن کا پھیلاؤ
ذہنی بیماریوں اور دباؤ کے بارے میں موجود غلط فہمیوں کے تدارک اور ان کے بارے میں عوام میں آگاہی پھیلانے کی غرض سے ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں نفسیاتی دباؤ اور ذہنی امراض کا شکار افراد میں اضافہ ہورہا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے 35 کروڑ سے زیادہ افراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے ذہنی بیماریوں سے متعلق شعبے کے سربراہ ڈاکٹر شیکھر سکسینا کے مطابق دنیا میں 35 کروڑ سے زیادہ ڈیپریشن کا شکار ان لوگوں میں ایسے افراد شامل نہیں جن پر کبھی کبھار اداسی یا یاسیت کا غلبہ ہوتا ہے۔

ان کے بہ قول، “اس تعداد میں وہ لوگ شامل ہیں جن پر اداسی دو ہفتوں یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک طاری رہتی ہے اور اس سے ان کا روزمرہ کا معمول بھی متاثر ہوتا ہے”۔ ڈاکٹر سکسینا کہتے ہیں کہ ڈیپریشن کو محض ایک جذباتی کیفیت نہیں بل کہ باقاعدہ بیماری سمجھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق ڈپریشن کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ذاتی معاملات اور حالات کا اثر ڈپریشن کی ایک اہم وجہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کسی بھی شخص سے اس کی ذہنی و جذباتی کیفیت کے بارے میں درست سوالات پوچھ کر یہ تعین کرسکتے ہیں کہ آیا وہ ڈیپریشن کا شکارہے۔ ان کے بہ قول ان سوالات کے ذریعے مریض سے اداسی کا دورانیہ، اپنی ذات کے بارے میں اس کی رائے اور زندگی کے بے معنویت اور خودکشی جیسے خیالات کے آنے کے بارے میں جاننا چاہیے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن کی ایک بہت بڑی تعداد ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک حاملہ خاتون بھی زچگی سے قبل ڈیپریشن کا سامنا کرتی ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ڈیپریشن کا مرض دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس سے یکساں متاثر ہیں۔ ڈاکٹر سکسینا کہتے ہیں کہ ڈپریشن کا علاج انتہائی سادہ اور آسان ہے اور کم قیمت ادویات اور تھیراپی کے ذریعے اس سے بآسانی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے لیکن ان کے بہ قول اصل مسئلہ اس کیفیت کو بیماری سمجھنے کا ہے کیوں کہ لوگ اکث ڈپریشن کو اہمیت نہیں دیتے۔

ڈیپریسڈ ماؤں کے بچے ڈے کیئر سینٹرز میں بہتر پرورش پاتے ہیں:۔ ’’ڈیپریشن کی شکار ماؤں کے بچے ڈے کیئر سینٹرز میں زیادہ بہتر انداز میں پرورش پاتے ہیں‘‘۔ یہ بات کینیڈا کی یونی ورسٹی آف کیوبک کے ماہرین کی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ڈیپریشن کی شکار ماؤں کے بچوں میں ڈیپریشن اور دیگر متعلقہ عوارض میں مبتلا ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز میں رکھ کر ان کے مندرجہ بالا عوارض میں مبتلا ہونے کے خدشات میں خاطر خواہ کمی کی جا سکتی ہے۔

ڈیپریشن ہے کیا؟
ہم وقتاً فوقتا اداسی، مایوسی اور بے زاری میں مبتلا ہو تے رہتے ہیں۔ یہ علامات عمو می حالات میں ایک، دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں معمولات پر ان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اداسی بے وجہ بھی ہوسکتی۔ بہ ظاہر اداس ہونا ایک معمول کی قدرتی حالت ہے بعض اوقات ہم خود ہی اس کا مقابلہ کر لیتے ہیں اور بعض اوقات دوستوں سے بات کرکے ٹھیک ہوجاتے ہیں البتہ اس کا دورانیہ طویل یا اس کے دورے پڑنا شروع ہو جائیں تو معاملہ گمبھیر سمجھا جاتا ہے۔ ڈپریشن میں اداسی کی شدت عام اداسی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے، اس کا دورانیہ بھی طویل ہوتا ہے۔ کم از کم چار علامات ایسی جو اس نوع کے ڈیپریشن کی نشان دہی کرتی ہیں۔

پہلی یہ کہ ایک شخص ہر وقت یا زیادہ وقت افسردہ رہے، جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی تھی اب ان میں دل نہ لگے، جسمانی یا ذہنی کمزوری اور تھکن محسوس کرے، اپنے کو دوسروں سے کم تر سمجھنے لگے، ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے کو الزام دے، اپنے کو ناکارہ سمجھے، خودکشی کا رجحان یا اس کی کوشش کرنا، نیند اور بھوک خراب ہوجائے۔

معاملاتَ زندگی:۔ بعض تکلیف دہ واقعات مثلًا کسی قریبی عزیز کا انتقال، طلاق یا نوکری جاتے رہنے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا فطری ہے مگر بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں آ پاتے اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حالات وواقعات۔ اگر ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہو، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈیپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

جسمانی طور پر بیمار لوگوں میں ڈیپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ بیماری ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو زندگی کے لیے خطرناک ہو مثلًا کینسر یا دل کی بیماریاں، یا پھرطویل دورانیے کی تکلیف، جیسے جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔ نوجوان لوگوں میں وائرل انفیکشن سے بھی ڈپریشن ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض مزاجوں میں ڈیپریشن کی قبولیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ہماری شخصیت بھی ہو سکتی ہے اوربچپن کے حالات و تجربات بھی۔ الکحل پر زیادہ انحصار بھی ڈیپریشن میں ڈال سکتاہے، ایسے افراد میں خود کشی کا رجحان دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتاہے۔ خواتین میںڈیپریشن کا رجحان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

ڈیپریشن موروث میں بھی ہوسکتا ہے۔ موروثی رجحان رکھنے والوں میں دوسروں کی نسبت اس کا خطرہ آٹھ گنا زیادہ ہوتاہے۔

مینی اَک ڈیپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر بھی ڈیپریشن اس کی ایک قسم ہے۔ اس ڈیپریشن کے شکار تقریباً دس فی صد لوگ کیفیتی دوروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد بے وجہ بہت خوش رہتے ہیں اور نارمل سے زیادہ کام کر تے ہیں۔ اس تیزی کے دورے کو ’’مینیا‘‘ اور اس بیماری کو ’’بائی پولر ڈس آرڈر‘‘ کہتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح مردوں اور عورتوں میں برابر ہے اور یہ بیماری بعض خاندانوں کے توارث میں ہوسکتی ہے۔

نوٹ: یہ مواد رائل کالج آف سائکاٹرسٹس، یو کے اور ڈیپارٹمنٹ آف سائکائٹری، آغا خان یونی ورسٹی،کراچی کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

زاویہ دوم، سے اقتباس:۔ ’’ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈیپریشن کے مرض سے پریشان ہیں۔

کروڑوں روپے کی ادویات سے ڈیپریشن ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا ہے کہ خوف ناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اچھوت کی بیماری لگتا ہے۔ ہمارے بابے جن کا میں ذکر کرتا رہتا ہوں وہ بھی اس Stress یا ڈپریشن کے مرض کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔ پرسوں ہی جب میں نے بابا جی کے سامنے اپنی یہ مشکل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ڈیپریشن کے مریض کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ دن میں ایک آدھ دفعہ ‘‘ بونگیاں ‘‘ مار لیا کرے۔

یعنی ایسی باتیں کریں جن کا مطلب اور معانی کچھ نہ ہو۔ جب ہم بچپن میں گاؤں میں رہتے تھے اور جوہڑ کے کنارے جاتے تھے اور اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت بھی پاپ میوزک آج کل کے پاپ میوزک سے بہت تیز تھا اور ہم پاپ میوزک یا گانے کے انداز میں یہ تیز تیز گاتے تھے ’’ مور پاوے پیل، سپ جاوے کُھڈ نوں، بگلا بھگت چک لیاوے ڈڈو نوں، تے ڈڈاں دیاں لکھیاں نوں کون موڑ دا ‘‘

(مور ناچتا ہے جب کہ سانپ اپنے بل میں جاتا ہے، بگلا مینڈک کو خوراک کے لیے اچک لاتا ہے اور اس طرح سب اپنی اپنی فطرت پر قائم ہیں اور مینڈک کی قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے)۔ ہم کو زمانے نے اس قدر سنجیدہ اور سخت کر دیا ہے کہ ہم بونگی مارنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں اس قدر تشنج میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہم بونگی بھی نہیں مار سکتے، باقی امور تو دور کی بات ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہیں ملے گا جب آپ نے بونگی مارنے کی کوشش کی ہو۔ لطیفہ اور بات ہے۔

وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے جب کہ بونگی کسی وقت بھی ماری جا سکتی ہے۔ روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے۔ یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے، خوبصورت ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل/ لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔

عقل کو رسیوں سے جکڑنا نہیں اچھا جب تک عقل کو تھوڑا آزاد کرنا نہیں سیکھیں گے ۔۔۔۔۔ صوفیائے کرام اور بزرگ کہتے ہیں کہ جب انسان آخرت میں پہنچے گا اور اس وقت ایک لمبی قطار لگی ہو گی، اللہ تعالٰی وہاں موجود ہوں گے وہ آدمی سے کہیں گے ’’اے بندے میں نے تجھے معصومیت دے کر دنیا میں بھیجا تھا، وہ واپس دے دے اور جنت میں داخل ہو جا۔‘‘ جس طرح گیٹ پاس ہوتے ہیں، اللہ یہ بات ہر شخص سے پوچھے گا لیکن ہم کہیں گے کہ یا اللہ ہم نے تو ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی بڑی مشکل سے کیا ہے لیکن ہمارے پاس وہ معصومیت نہیں ہے۔ خواتین و حضرات! روحانی دوا میں معصومیت وہ اجزائے ترکیبی یا نسخہ ہے جس کا گھوٹا لگے تو روحانی دوا تیار ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔