کشمیر آر ایس ایس کی تلواروں کے حوالے؟

تنویر قیصر شاہد  پير 9 ستمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارتی پارلیمنٹ اور نریندر مودی کے5اگست کے ظالمانہ فیصلے کے بعد بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ، منوہر لال کھتر، نے دریدہ دہنی کرتے ہُوئے کہا تھا:’’اب ہم (مقبوضہ) کشمیر کی لڑکیاں اپنے لڑکوں سے بیاہا کریں گے۔‘‘ اس کے علاوہ بھی اس بیہودہ شخص نے کشمیری مسلمان خواتین بارے کئی دل آزار باتیں کہی تھیں ۔

یہ الفاظ اس قدر غیر اخلاقی اور غیر انسانی تھے کہ خود بھارت کے اندر سے منوہر لال کے خلاف کئی آوازیں اُٹھیں۔ ان میں سب سے نمایاں آواز کویتا کرشنن کی تھی جو کشمیریوں کے حق میں اپنی اور اپنی این جی او کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں ۔کویتا کرشنن نے احتجاج کرتے ہُوئے منوہر لال کھتر کو شرم دلاتے ہُوئے کہا تھا: ’’ کشمیری  لڑکیاں ڈھور ڈنگر نہیں ہیں کہ تم انھیں ہانک کر لے آؤ گے۔‘‘ اِسی احتجاج کے کارن کویتا کو بھارتی وزارتِ داخلہ کی طرف سے کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مظلوم کشمیریوں کے حق میں کویتا کرشنن کی آواز سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ لاریب ابھی سارے بھارتیوں  کا ضمیر سویا نہیں پڑا ۔ منوہر لال کھتر نے کشمیری خواتین بارے جو لغو بیان دیا تھا، اسی سے واضح ہو گیا تھا کہ اُن ایسے متعصب اور بنیاد پرست بھارتی ہندوؤں کی اب مقبوضہ کشمیر کے بارے میں کیا خیالات ہیں۔اپنے تئیں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضَم کرنے کے فیصلے کے بعد بھارتیوں کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی زمینوں پر قبضے کیے جائیں اور کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے ۔

اس منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے ۔ خود انڈین میڈیا نے خبر دی ہے کہ حال ہی میں 500 دولت مند بھارتی ہندوؤں کو کشمیر کے ڈومیسائل دیے گئے ہیں ۔ جلد ہی یہ تعداد پانچ ہزار تک پہنچا دی جائے گی۔ مقصد یہ ہے کہ ڈومیسائل حاصل کرنے والے یہ بھارتی ہندو اپنی دولت کے بَل پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے قدم جما سکیں ۔ پانچ اگست سے قبل ایسا قدم اُٹھانا ممکن ہی نہیں تھا۔یہ بھی انکشاف ہُوا ہے کہ ریٹائرڈ بھارتی فوجی افسروں کو مقبوضہ کشمیر میں زمینیں الاٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے ۔ ہم سب پاکستانیوں اور تمام کشمیریوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔

اس سے بھی سنگین اور خطرناک خبر یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی زیر نگرانی اور ایک خاص منصوبے کے تحت ہندوؤں کی مسلح تنظیم ’’ آر ایس ایس‘‘ کے تربیت یافتہ غنڈوں کو جہازوں کے ذریعے دہلی سے سری نگر، پلوامہ اور مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں دھڑا دھڑ پہنچایا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بنیاد پرست آر ایس ایس کے ان تربیت یافتہ غنڈوں کو تلواروں اور خنجروں سے لَیس کرکے مقبوضہ کشمیر میں اُتارا جا رہا ہے ۔ اب تک ان کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اس کی سن گن پا کر اگر مقبوضہ کشمیر میں شہلا رشید ایسی ایکٹوسٹس بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو بھارتی حکومت اُن کے خلاف غداری اور بغاوت کے مقدمے قائم کررہی ہے ۔ واضح رہے شہلا رشید اعلیٰ تعلیم یافتہ ممتاز کشمیری نوجوان رہنما ہیں۔ وہ دِلّی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کی عہدیدار بھی رہی ہیں ۔

کویتا کرشنن اور شہلا رشید ایسی انصاف پسند آوازیں اگر کشمیریوں کے حق میں اُٹھتی بھی ہیں تو بھارتی میڈیا ان آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے شرمناک کر دار ادا کرتا نظر آرہا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک جن دانشوروں اور صحافیوں کو یہ غلط فہمی رہی تھی کہ انڈین میڈیا کا بیشتر حصہ بڑا آزاد اور انصاف پسند ہے ، اب یہ غلط فہمی دُور ہو چکی ہے ۔ بھارتی اخبارات اور نجی ٹی وی پوری طرح برہنہ ہو گئے ہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال ’’پریس کونسل آف انڈیا‘‘ نے فراہم کی ہے۔ پانچ اگست کے اقدام کے نتیجے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر ڈالی ہے ، اس جبر کی ایک بھیانک شکل یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے پانچ ہفتوں سے اطلاعات کے تمام چھوٹے بڑے ذرایع مفلوج اور منقطع ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات کی اشاعت معطل ہے۔ مقامی صحافی پابجولاں کر دیے گئے ہیں۔ اس جبر کو مقبوضہ کشمیر ہی کی ایک خاتون صحافی اور ’’کشمیر ٹائمز‘‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر، انو رادھا بھسین، نے انڈین سپریم کورٹ میں پٹیشن کی شکل میں چیلنج کیا ہے ۔

حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ پریس کونسل آف انڈیانے بھارتی عدالتِ عظمیٰ کو درخواست دی ہے کہ پٹیشنر انورادھا کی درخواست نہ سُنی جائے ’’کہ مودی سرکار نے (مقبوضہ) کشمیر میں ذرایع ابلاغ پر سخت پابندیاں عائد کرکے ایک درست اقدام کیا ہے کیونکہ بھارت کی سلامتی کا تقاضا یہی تھا۔‘‘ساری دُنیا کے آزاداور انصاف پسند اخبار نویس و صحافی تنظیمیں انڈین پریس کونسل کے اس عمل پر پھٹکار اور لعنت بھیج رہی ہیں ۔

دُنیا بھر میں انسانیت نواز حلقے حیران ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کی خوں آشامیاں جاری ہیں لیکن اس کے باوجود مودی کو کئی مسلمان ممالک کی طرف سے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ آخر کیوں؟ پہلے یہ ایوارڈ سعودی عرب کی طرف سے خونی مودی کے گلے میں ڈالا گیا۔

پھر متحدہ عرب امارات نے بھی اپنا اعلیٰ سویلین ایوارڈ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے قاتل ، مودی، کے گلے کی زینت بنایا ۔ مودی کی خوشی اور خوشنودی میں جو کسررہ گئی تھی ، وہ عرب خلیجی ملک بحرین نے ایوارڈ دے کر پوری کر دی ۔ ایسے میں عالمِ مغرب کیوں پیچھے رہتا؛ چنانچہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا کی ممتاز اور معروف شخصیت، بلِ گیٹس، کے ادارے ’’ بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ نے بھی بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو اپنا اعلیٰ ایوارڈ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ مگر مودی کی خدمت؟ بل گیٹس کے ادارے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’’چونکہ مودی جی کی زیر نگرانی بھارت کے کئی دیہاتوں میں ٹوائلٹس کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

اسلیے صفائی کے اس بہترین نظام ( کلین انڈیا مِشن) کی فراہمی پر مودی کو یہ ایوارڈ دیا جانا چاہیے‘‘۔ عالمِ عرب کے تین ممالک کی جانب سے مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈز دیے جانے پر ہم تو تقریباً بوجوہ خاموش ہی رہے لیکن امریکی میڈیا بل گیٹس کی طرف سے دیے جانے والے مذکورہ اعلان پر خاموش نہیں رہ سکا ؛ چنانچہ 7ستمبر2019ء کو مشہور امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے صفحہ اوّل پر اس اعلان کے خلاف ایک طویل تجزیہ شایع کیا ہے ۔ یہ تجزیہ دو انصاف پسند ہندو دانشوروں نے لکھا۔ ان میں سے ایک صاحب ( ارجن سنگھ سیٹھی) امریکا کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ہیں ۔

تجزئیے میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے ہاتھ بھارتی مسلمانوں ، دَلتوں اور کشمیریوں کے خون سے رنگے ہُوئے ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان ستم رانیوں کے باوجود ’’بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ نے مودی کو اپنے ادارے کا معزز ایوارڈ دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔ امریکی اخبار نے مطالبہ کیا ہے کہ بِل گیٹس کے ادارے کی طرف سے یہ ایوارڈ مودی کو ہر گز نہیں دینا چاہیے ۔ واشنگٹن پوسٹ نے بل گیٹس کو شرم تو دلائی ہے ۔ دیکھتے ہیں مودی کے خلاف اس مطالبے پر عمل بھی کیا جاتا ہے یا نہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔