بڑھتی ہوئی وائرل بیماریوں کی وجوہات

ڈاکٹر محمد راشد  ہفتہ 28 ستمبر 2019
پچھلے کئی برسوں سے پاکستان بہت سی وائرل بیماریوں کا شکار ہے۔ (فوٹو: فائل)

پچھلے کئی برسوں سے پاکستان بہت سی وائرل بیماریوں کا شکار ہے۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ صورت حال میں ڈینگی کی تباہ کاریاں زبان زد عام ہیں اور زیادہ زور مچھر کی افزائش پر قابو پانے اور اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر ہے۔ یہ احتیاطی تدابیر وقتی طور پر تو سودمند ہوں گی لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں۔ اس کے حل کےلیے ہنگامی حکمت عملی کے ساتھ ایک دور اندیش اور جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

پچھلے کئی برسوں سے پاکستان بہت سی وائرل بیماریوں کا شکار ہے۔ ہر برس کئی سو جانیں کسی پرانی یا نئی وائرل بیماری کا لقمہ بن جاتی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان وائرل بیماریوں کی وجہ کیا ہے؟ آج ہم تیزی سے بڑھتی ہوئی وائرل بیماریوں کی وجوہات کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔

سرفہرست جو وجہ ہے وہ تیزی سے پیدا ہونے والی موسمی خرابیاں ہیں۔ جن کو سائنسی زبان میں کلائمیٹ چینج یا گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ دنیا نے اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ماحولیاتی بقا کے جامع قوانین مرتب کیے ہیں اور قدرتی نظام کے فوائد کو برقرار رکھنے کےلیے بہت سے ادارے دنیا بھر میں کام کررہے ہیں، جن کا مقصد دور جدید کے صنعتی مضمرات سے ماحول کو محفوظ بنانا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس مسئلے کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی اور تیزی سے بڑھنے والی شہری آبادی نے ماحول کو انتہائی درجے کا نقصان پہنچایا۔ تعمیری بے ضابطگی نے کچی زمین کا تناسب خطرناک حد تک کم کردیا ہے۔ آبی وسائل کے استحصال نے آبادی کے ایک بڑے حصے کو زیرزمین پانی استعمال کرنے پر مجبور کردیا ہے اور دوسری جانب پلاسٹک کے بے تحاشا استعمال سے زمین پر ایک تہہ بن گئی ہے جو پانی کے زمین میں نکاسی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔

شہری آبادیوں میں سبزے کا تناسب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور مناسب سفری سہولت کے نہ ہونے کے باعث انفرادی انجن بردار سواریوں نے ماحول کو انتہائی آلودہ کردیا ہے۔ یہ سارے عوامل خطرناک ماحولیاتی تبدیلی کا باعث ہیں، جن سے نہ صرف ناقابل برداشت موسمی خرابیاں مثلاً شدید گرمی، شدید بارش وغیرہ پیدا ہورہی ہیں بلکہ بہت سی وائرل بیماریاں مثلا ڈینگی، چکن گونیا اور گیسٹرو وغیرہ بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔

دوسری بڑی وجہ صحت وصفائی کا ناقص انتظام ہے۔ کھانے پینے والی اشیا پیداوار سے استعمال تک کئی مراحل پر بیماری پیدا کرنے والے جراثیم سے متاثر ہوسکتی ہیں اور یہ متاثر شدہ خوراک مہلک بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ زرعی پیداوار بڑھانے کےلیے سیوریج کا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سبزیوں کی کاشت کےلیے استعمال ہورہا ہے، جس سے پیدا ہونے والی سبزیاں مضر صحت ہوتی ہیں۔

تیسری بڑی وجہ پانی کی فراہمی کا ناقص نظام ہے۔ پانی جو نہ صرف پیاس بجھانے کے کام آتا ہے بلکہ طہارت اور پاکیزگی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ طہارت اور پاکیزگی کی یہ علامت بھی اب صاف میسر نہیں ہے۔
دیہات تو ایک طرف، زیادہ تر شہری آبادیوں میں دستیاب پانی سیوریج کی ملاوٹ کا شکار ہے، جو کئی مہلک وائرل بیماریوں مثلاً گیسٹرو، یرقان اور پولیو کا باعث بنتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق کراچی میں ترسیل کیے جانے والے پانی میں کئی وائرس مثلاً روٹا وائرس، اڈینو وائرس وغیرہ پائے گئے ہیں۔ ایک اور بڑی وجہ نکاسی آب کا ناقص نظام ہے۔ پانی بارش کا ہو یا سیوریج کا۔ پانی کے ٹھہراؤ سے نہ صرف گندگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے مکھی اور مچھر کی افزائش ہوتی ہے، جو بہت سی بیماریوں مثلاً ڈینگی وغیرہ کا باعث بنتے ہیں۔

پرسنل ہائی جین (ذاتی صفائی) کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے، جس کی بڑی مثال استعمال شدہ بلیڈ سے ہونے والی بیماریاں، جگر کا یرقان اور ایچ آئی وی ایڈز ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات جیسے صحت عامہ کی غیر معیاری سہولیات، بیماریوں سے متعلق آگاہی کا فقدان، غیر معیاری انتقال خون، جنسی بے راہ روی وغیرہ شامل ہیں۔

اگر ہم خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں چند باتوں کا اہتمام کرنا ہوگا۔ جن میں اپنے گھر اور محلے کے اطراف میں درخت لگانا اور ان کا خیال رکھنا، پلاسٹک بیگ کی جگہ کپڑے کے تھیلے کا استعمال، انفرادی انجن بردار سواریوں کے استعمال سے حد ممکنہ اجتناب، اپنے گھر اور اطراف کی صفائی کا خیال رکھنا، کھڑے پانی کی نکاسی کا فوری انتظام کرنا، ذاتی صفائی کا خیال اور پانی کے ضیاع سے گریز شامل ہیں۔ اگر ہم حکومتی اداروں پر تنقید کرنے کے ساتھ انفرادی حیثیت میں ان باتوں پر عمل پیرا ہوجائیں تو تیزی سے بڑھتی ہوئی خرابی کی رفتار بہت حد تک کم ہوسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر محمد راشد

ڈاکٹر محمد راشد

بلاگر امیو يونیورسٹی سوئيڈن سے مالیکیولر بائیولوجی میں ايم ايس اور جرمنی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ اور آج کل نيشنل انسٹيٹوٹ آف وائيرولوجی، يونیورسٹی آف کراچی ميں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔