دہشت گردی، غیرملکی ہاتھ اور میاں صاحب

نصرت جاوید  جمعـء 4 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کئی برس سے ہمارے علمائے کرام اور اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ہمیں شعور کی نعمت بہم پہنچانے والے دانشور تواتر سے کہتے چلے جا رہے تھے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا ہی نہیں سکتا۔ مسجدوں، مزاروں اور امام بارگاہوں پر جو خودکش حملے ہوتے ہیں وہ امریکا، بھارت یا اسرائیل کے ایجنٹوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت نے اس دعوے کی مسلسل تشہیر کی وجہ سے ان کی بات پر یقین کر لیا۔ مگر پھر 2011ء میں عمران خان گج وج کر نمودار ہو گئے۔ انھوں نے ہمیں یہ بتانا شروع کر دیا کہ انتقام پشتون ثقافت کا بڑا اہم عنصر ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی طیاروں سے میزائل گرائے جاتے ہیں۔

ان کی وجہ سے معصوم اور بے گناہ شہری لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور ان کے پسماندگان انتقام لینے پر تل جاتے ہیں۔ ان میں سے چند خودکش حملوں کے ذریعے اپنی جان دے کر اس جنگ کا بدلہ اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہماری نہیں امریکا کی جنگ ہے۔ ایک حوالے سے انھوں نے گویا یہ بات تسلیم کر لی کہ کوئی مسلمان بھی خودکش بمبار بن کر دوسرے مسلمانوں کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ مگر اس بحث میں مزید اُلجھے بغیر کہ خودکش حملے جائز ہیں یا نہیں انھوں نے ہمیں ان حملوں کے اسباب کا جائزہ لینے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ یہ جائزہ لیتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہو گئی کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر موجود قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بند ہو جائیں تو پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات خودبخود رک جائیں گے۔

عمران خان نے سادہ اور آسان الفاظ میں دہشتگردی کے جو اسباب اور ان کے حل کا طریقہ بتایا وہ ’’لبرل فاشسٹوں‘‘ کو پسند نہ آیا۔ اپنی کم عقلی کی بناء پر میں ابھی تک اس اصطلاح کو پوری طرح نہیں سمجھ پایا ہوں۔ ’’لبرل‘‘ یورپی معاشرے میں اس فرد کو کہا جاتا ہے جو سیاسی حوالوں سے دائیں اور بائیں بازو کے سخت گیر موقف سے اتفاق نہیں کرتا۔ بڑے ہی عملی انداز میں ریاست سے جڑے معاملات کو ایک کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے مناسب حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں مگر ’’لبرل‘‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ’’مادر پدرآزاد‘‘ جیسی ثقافت کا فروغ چاہتا ہے۔ ایسے شخص تو شام کے بعد ’’رقص و سرور‘‘ کی محفلوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ جن گھروں میں یہ محافل سجاتے ہیں وہ شہروں کے مرکز سے کہیں دور بنائے ’’فارم ہائوسز‘‘ میں ہوا کرتی ہیں۔ ان ہائوسز پر مشتمل علاقے Gated Community کہلاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان بستیوں تک رسائی بڑی مشکل ہوتی۔

ان کے داخلی راستوں پر بیرئیر لگے ہوتے ہیں جہاں جدید اسلحہ سے لیس سیکیورٹی گارڈز آپ اور آپ کی گاڑی کی کافی تحقیق و تفتیش کے بعد ان بستیوں میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہاں سجی محفلوں میں سیاست پر بات بہت ہی کم ہوتی ہے۔ دبئی یا امریکا وغیرہ میں کاروباری حالات پر توجہ مرکوز رہتی ہے یا پھر کسی نئے موبائل فون کا تذکرہ۔ ایسے لوگوں کا ’’فاشزم‘‘ سے کیا تعلق بنتا ہے،  میں آج تک سمجھ نہیں پایا۔ ’’فاشزم‘‘ تو بنیادی طور پر وہ نظریہ ہے جس میں جو شخص بھی آپ کی بات سے اختلاف کرنا تو دور کی بات ہے اس کے بارے میں کوئی تشکیکی سوالات بھی اٹھا دے تو موت کا حقدار بن جاتا ہے۔ انسان چونکہ اب ’’مہذب‘‘ ہو گیا ہے اس لیے اپنی سوچ سے اختلاف کرنے والوں کو ان دنوں کے فاشسٹ فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے ’’فاسق و فاجر‘‘ بنا کر دُنیا کے سامنے عیاں کر دیتے ہیں۔ ذرا وقت نکال کر انٹرنیٹ کے ان دونوں اکائونٹس پر تھوڑی توجہ دیں تو آپ خود سمجھ جائیں گے کہ اپنے مخالفین کو ’’فاسق و فاجر‘‘ قرار دینے کی لت میں مبتلا لوگوں کے ’’ہیرو‘‘ کون لوگ ہیں۔ میں اس سے زیادہ فی الوقت اور کچھ نہیں کہوں گا۔

مجھے اصل اطمینان تو اس بات پر ہو رہا ہے کہ عمران خان کی جہدِ مسلسل کے سبب اب اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا بنیادی سبب ڈرون حملے ہیں۔ انھیں رکنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران انھوں نے برملا الفاظ میں ان حملوں کو روکنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ امریکی مگر بڑے ہی ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے ان کی تقریر کے عین دوسرے اور تیسرے دن شمالی وزیرستان پر ڈرون کے ذریعے میزائل پھینک دیے۔ اب ظاہر ہے کہ ان کی حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا کہ وہ کل جماعتی کانفرنس کی ہدایات کی روشنی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ان حملوں کے خلاف باقاعدہ رجوع کرے۔ چین اپنا یار ہے اور اس کونسل کا مستقل رکن ہے،  بھرپور طریقے سے ہمارا ساتھ دے گا۔ بات پھر بھی نہ بنی تو بالآخر نواز شریف صاحب PAF کو یہ حکم دینے پر مجبور ہو جائیں گے کہ جیسے ہی ڈرون ہماری خود مختار سرحدوں میں گھس آئیں تو ان کا تعاقب کرنے کے بعد انھیں مار گرایا جائے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب زیادہ مناسب ہے کہ ’’اصولوں اور اقدار‘‘ کی سیاست کرنے والے نواز شریف صاحب خود ہی قوم سے اپنے کسی خطاب کے دوران بتا کر اسے ڈرون گرانے کے بعد واقعات کا سامنا کرنے کے لیے اسے تیار کر دیں۔

ڈرون حملوں سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اب نواز شریف صاحب کو اس بات پر بھی یقین آ گیا ہے کہ حال ہی میں پشاور میں دہشت گردی کے جو پے درپے حملے ہوئے ہیں وہ ’’غیر ملکی ایماء‘‘ پر ہوئے۔ ان کا مقصد حکومت کی ان کوششوں کو ناکام بنانا تھا جس کے ذریعے وہ ہمارے ’’بھٹکے ہوئے‘‘ لوگوں سے بات چیت کے بعد اس ملک میں دہشت گردی ختم کرنا چاہ رہی ہے۔ امریکا سے پاکستان لوٹتے ہوئے لندن میں اپنے مختصر قیام کے دوران انھوں نے ’’غیر ملکی ہاتھ‘‘ کی بات اشاروں کنایوں میں نہیں کی۔ یہ عہد بھی کیا ہے کہ وہ ان ہاتھوں کا سراغ لگا کر انھیں بے نقاب کریں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان کے بعد ہماری درجن کے قریب انٹیلی جنس ایجنسیاں ’’غیر ملکی ہاتھ‘‘ کا سراغ لگانے میں دن رات مصروف ہوں گی۔ ویسے وزیر اعظم کو یاد دلانے میں کوئی حرج نہیں کہ آج سے کئی ہفتہ پہلے وہ کوئٹہ تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے ٹی وی کیمرے کے سامنے یہ انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے تمام انٹیلی جنس اداروں کو یہ حکم دے دیا ہے کہ وہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کا سراغ لگا کر انھیں بے نقاب کریں۔ ابھی تک ایسی کوئی ’’بے نقابی‘‘ میری نظر سے تو نہیں گزری۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ہزارہ برادری سکون سے ہے۔ اللہ کریم انھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔