یہ حسین پیکر:کاشی کاری … قدیم فن کے جدید انداز

نسرین اختر  اتوار 6 اکتوبر 2013
ملتانی کاشی کاری سے مزین نیلے رنگ کے برتن جنہیں Blue Potteryبھی کہا جاتا ہے، مخصوص انداز سے تیار کیے جاتے ہیں۔ . فوٹو : فائل

ملتانی کاشی کاری سے مزین نیلے رنگ کے برتن جنہیں Blue Potteryبھی کہا جاتا ہے، مخصوص انداز سے تیار کیے جاتے ہیں۔ . فوٹو : فائل

قدرت نے ہمارے وطن کو جہاں بے شمار قدرتی مناظر سے نوازا ہے وہیں ہمارے ہاں ایسے ایسے ہنراور فنون بھی پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر دل بے اختیار اش اش کر اٹھتا ہے۔ایسے ہی فنون میں ایک کاشی کاری کا ہنر بھی ہے جو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی پسند کیا جاتا ہے۔

کاشی کاری ملتان کا قدیم فن ہے، ملتانی کاشی کاری سے مزین نیلے رنگ کے برتن جنہیں Blue Potteryبھی کہا جاتا ہے، مخصوص انداز سے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ برتن اپنی انفرادیت، خوب صورتی و نفاست اور پائے داری کے باعث ہنر مندی کا شاہ کار ہیں۔ کاشی کار اعلیٰ ترین معیار کے ڈنرسیٹ تیار کرنے کے علاوہ گھریلو سجاوٹ میں استعمال کی جانے والی بے شمار اشیا بھی تیار کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں اعلیٰ ذوق کی حامل خواتین کاشی کاری کے برتنوں کو بڑے شوق سے خریدتی اور استعمال کرتی ہیں۔ وہ ان خوب صورت اور دل کش برتنوں سے گھریلو آرائش کے امور بھی بہ خوبی انجام دیتی ہیں۔ کاشی کاری سے مزین برتن ہمارا ثقافتی ورثہ ہے جو بیرون ملک بھی بہت پسند کیے جاتے ہیں۔

کاشی کاری کے فن کا آغاز صدیوں پہلے ملتان سے ہوا۔ تحقیق کے مطابق اس فن کی کڑیاں پانچ ہزار سال قبل مسیح سے ملتی ہیں۔ 664 میں جب عربوں نے وادیٔ سندھ میں قدم رکھا اور محمد بن قاسم فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا 712 میں ملتان پہنچا تو اس کے ہم راہ کاشی کاری کے ماہرین بھی آئے، جنہوں نے ملتان شہر میں ڈیرے ڈال کر اس فن کو فروغ دیا۔ پھر جب 1853میں انگریز ایگزینڈر کنگھم نے قلعہ کہنہ قاسم باغ کی کھدائی کرائی تو پرہلاد کے مندر کے قریب14فٹ گہرائی میں کاشی کی روغنی اینٹیں برآمد ہوئیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اینٹیں اس زمانے میں محمد بن قاسم کی تعمیر کردہ مسجد میں لگائی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاشی کاری کے فن کو ملتان سے نسبت دی جاتی ہے، جب کہ اس میں ایرانی آرٹ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

لفظ کاشی ایران کے شہر کاشان سے نسبت رکھتا ہے۔ بعض محققین کے مطابق اس فن کی ابتدا چین سے ہوئی۔ یہ ہنر چین کے علاقے کاشغر سے ایران میں آیا پھر یہ فن ایران سے ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا۔ ایران کی نسبت کی وجہ سے اسے کاشی کاری کا نام دیا گیا۔ تاہم ملتانی کاشی گروں نے اپنی ہنرمندی کے ذریعے اسے ایک منفرد انداز بخشا ہے، جو دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ کاشی کاری کا فن اس قدر مقبول ہوا کہ اس کا استعمال مساجد اور مقابر پر ہونے لگا، حتیٰ کہ یہ اینٹیں اسلامی ثقافت کا نشان بن کر رہ گئیں اور کاشی کاری سے مزین برتن ہمارے ملک کی ثقافت کا حصہ ہیں۔ حضرت شاہ رکن عالم، حضرت بہاؤ الدین زکریا، شاہ یوسف گردیز، حافظ جمال کے مزاروں پر کاشی کے فن کے گہرے نقوش پائے جاتے ہیں۔

کاشی کاری کے اس آرٹ کا آغاز صدیوں پہلے ملتان سے ہوا تھا پھر ملتان کے معروف محلہ کمنگراں میں کاشی کاری کا فن عروج پر رہا، ملتان میں کاشی کاری سے مزین یہ برتن زیادہ تر سفید اور سرخ مٹی کے امتزاج سے تیار کیے جاتے ہیں۔ پھر انہیں نیلے رنگ کے ذریعے نقاشی سے مزین کیا جاتا ہے اور ان پر دل کش گل بوٹے بنائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ان ڈیزائنوں کی خوب صورتی بڑھانے کے لیے ان میں دوسرے رنگوں کی آمیزش بھی کی جاتی ہے۔ ان برتنوں کو تیار کرنے کے لیے مانسہرہ، تھرپارکر اور گجرات سے مٹی لائی جاتی ہے اور نقش و نگار کوہالٹ سے حاصل شدہ نیلے رنگ سے بنائے جاتے ہیں۔

کاشی کاری اور نقاشی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نقاشی چمڑے پر کی جاتی ہے جب کہ کاشی کاری مٹی کے برتنوں پر ہوتی ہے۔ اس میں کیمیکل کاپر آکسائیڈ استعمال ہوتا ہے۔ بعدازاں اسے ٹمپریچر بھی دیا جاتا ہے، جب کہ نقاشی میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کاشی کاری کا فن صدیوں بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ موجودہ دور میں اس فن کے جو نقوش ملے ہیں انہیں دیکھ کر اس کی قدامت کا احساس تک نہیں ہوتا۔

یہ فن پارہ نہ خراب ہوتا ہے نہ اس کا رنگ اترتا ہے۔ جدید اور قدیم کاشی کاری میں فرق کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پہلے صرف باڈی پر کاشی کی جاتی تھی کلراسکیم کا اتنا رواج نہیں تھا۔ پھر اس کو مزید خوب صورت پھولوں اور پتیوں میں رنگ بھرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے اس فن میں مزید نکھار پیدا ہوا۔

کاشی کاری کے فن میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اب عام آگ کی جگہ سوئی گیس کی بھٹی استعمال ہوتی ہے۔ یہ جدید طریقہ ہے، جس میں گیج کے مطابق حرارت دی جاتی ہے۔ اس طرح سرخ مٹی کی بجائے سفید مٹی ’’چائنا کلے‘‘ پر کام کیا جاتا ہے جو زیادہ پائے دار ہے اور ہزار سال تک بھی خراب نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اونٹ کی کھال کے لیمپ اور دوسری اشیا بھی تیار کی جارہی ہیں۔ لاہور میں تو فرنیچر پر بھی نقاشی کی جارہی ہے۔ البتہ یہ امر تشویش ناک ہے کہ دریا اور نہروں کی مٹی آلودگی کے باعث ناکارہ ہورہی ہے، مزاروں اور مساجد پر چھے سات سو سال پرانا کام ابھی تک زندہ اور تازہ ہے، لیکن آلودگی نے اس کی عمر کم کرکے تین چار سال کردی ہے۔ اس لیے ماہرین سرامکس پر یہ کام کررہے ہیں جس سے یہ ایک ہزار سال تک چل سکتا ہے یعنی زندہ رہ سکتا ہے۔

کاشی کاری عام خطاطی اور نقاشی سے مختلف کام ہے۔ اس میں تحریر کردہ لفظ اپنی اصل شکل سے چار گنا بڑا ہوجاتا ہے۔ کاشی کاری انڈسٹری میں مختلف اشیا ٹیبل لیمپ، ظروف، ٹی سیت، ڈنر سیٹ، گل دان، فوٹو فریم اور باتھ روم کے سیٹ تک تیار کیے جاتے ہیں۔ ان اشیا کی بناوٹ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ پہلے مٹی گوندھ کر اس کا ماڈل تیار کیا جاتاہے۔ پھر اس کو بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے پھر یہ ماڈل رنگوں سے مزین کیا جاتا ہے، برش اور رنگوں سے اس کی آرائش وزیبائش کی جاتی ہے، رنگوں کو پکار کرنے کے لیے ان کو ایک بار پھر بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے، یوں کوئی تین چار دن میں ایک خوب صورت ماڈل تیار ہوتا ہے۔ مہذب ممالک اپنی تہذیب وثقافت پر فخر کرتے ہیں وہ اپنے ملک کے فن کار طبقہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

بلوپوٹری کی مانگ دنیا بھر میں ہے، لہٰذا بیرون ملک اس کی خاطر خواہ مارکیٹنگ کی جاسکتی ہے، لیکن خواتین اپنے طور پر کم از کم اتنا تو ضرور کرسکتی ہیں کہ کاشی کاری سے مزین برتنوں اور دیگر اشیا کو فروغ دے سکتی ہیں۔ وہ ایسی چیزوں کو خرید سکتی ہیں، تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو جو ہمارے ثقافتی ورثے کی امین ہیں۔

فن ہی اصل میں قوم کے اندر شائستگی اور فطرت کو نمایاں کرتا ہے، جس سے اقوام مہذب ہوتی ہیں اور ان کے اندر سلیقے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ آج بھی ملتان میں کاشی کاری کے فن کو عروج حاصل ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس فن کو کسی بھی دور میں زوال نہیں آیا، قدیم دور سے جدید زمانے تک کاشی کاری عالمی شہرت یافتہ فن رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔