اقتصادی سمت سازی کی منزل کتنی دور

ایڈیٹوریل  جمعرات 17 اکتوبر 2019
غریب اور بدحال لوگوں کی قوت خرید جواب دے جائے گی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

غریب اور بدحال لوگوں کی قوت خرید جواب دے جائے گی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اقتصادی افق پر صورتحال میں بریک تھروکا امکان ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ معاشی ماہرین کے کثیرجہتی کوششیں جاری ہیں، حکومت معاشی جمود توڑنے کے لیے اقدامات کا اعلان کر رہی ہے مگرایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقتصادی سمت سازی کی منزل ابھی دور ہے۔

ارباب معیشت کا سارا زور مخالف معاشی بیانیے کی تردید اور اپوزیشن کے دباؤ سے نکلنے میں خرچ ہوتا نظر آرہا ہے، سرمایہ کاری کی خوش کن اطلاعات بھی ہیں، مشیر اور معاونین خصوصی غیرملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے حوالہ سے آیندہ چند ماہ میں اہم اعلانات کے منتظر ہیں، وزیراعظم سے متعدد اہم تجارتی ، صنعتی اورکاروباری وفود نے ملاقاتیں کی ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری میں اپنی گہری دلچسپی کااظہارکیا ہے، ہانگ کانگ کی ہوچی سن پورٹ ہولڈنگزکمپنی نے24 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے، وفد نے کراچی پورٹ پر نئے کنٹینر ٹرمینل کے لیے وزیراعظم عمران خان سے تبادلہ بھی کیا ہے۔

دریں اثناء عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ کے مطابق وائٹ کالرکرائم میں پاکستان 9درجے بہتری سے112ویں نمبر پر آگیا ہے، ماہرین کاکہنا ہے کہ ملک میں بدعنوانی سے متعلق شکایات کا دگنا ہونا نیب پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے، امریکی جریدہ فوربزکے مطابق پاکستان کی آئی ٹی سیکٹر سے امیدیں بڑھنے لگی ہیں ، ڈیوڈ بلوم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پر امن پاکستان کا آئی ٹی کا شعبہ کشش کا سامان پیدا کرسکتا ہے، عالمی سودے پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں، ملک نے آئی ٹی کے شعبہ کو امریکی کمپنیوں ،سرمایہ کاروں میں متعارف کردیا ہے۔

ادھراسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فارن ایکس چینج کے غلط استعمال، چوری چھپے رقم کی بیرون ملک منتقلی اور ضیاع کو روکنے کے لیے تجارت سے متعلق قوانین پر فریم ورک تیارکر لیا ہے جس کے بعد تجارت سے متعلق اینٹی منی لانڈرنگ ، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور بینک قوانین کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک سے فارن ایکس چینج کمپنیوں کے سربراہان اور مجاز ڈیلرزکو جاری کردہ سرکلر میںکہا گیا ہے کہ فارن ایکس چینج کے غلط استعمال اور ضیاع کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں اور مجاز ڈیلرز موجودہ فارم میںکلائنٹ کی درست معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

اسٹیٹ بینک کے سرکلر کے مطابق انڈر انوائسنگ کے ذریعے غیر ملکی کرنسی غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل ہوتی ہے اور تاجر بر آمدی سامان کی مکمل اور درست معلومات فراہم نہیںکرتے ، تجارت کی آڑ میں چوری چھپے رقم کی بیرون ملک منتقلی منی لانڈرنگ کے زمرے میںآتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے جائیں گے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو بھی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ صارفین کو نئے قوانین سے متعلق آگاہی فراہم کریں ، انڈر انوائسنگ کی روک تھام کے لیے تجارتی سامان کی مکمل تفصیلات بینکوں کو جمع کرانا ہوں گی ، تجارتی مال کی مکمل مالیت درج کرانا لازمی ہوگا اور تجارتی سامان میںکمی بیشی یا ردو بدل قانونی جرم تصور کیا جائے گا۔ دوسری جانب ذرایع کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف حکام کی گائیڈ لائن کی روشنی میںاسٹیٹ بینک نے رقوم کی بیرون ملک منتقلی کے نظام کی نگرانی مزید کڑی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مذکورہ اقدام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

تاہم ضرورت بینک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے، حالت یہ ہے کہ معتبر وزرا کا کہنا ہے کہ کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ ہورہی ہے، متعلقہ اداروں کو نوٹس میں بھی لایا جاچکا ہے مگر ایف آئی اے اور ایف بی آر حکام کارروائی کے لیے کسی کے منتظر معلوم ہوتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے مگر اس بات کی ضمانت کوئی تو دے کہ جعلسازی اور چوری چھپے بیرون ملک رقوم کی منتقلی کے سدباب میں ادارہ جاتی سطح پرکس قسم کا میکنزم بروئے کار لایا گیا ہے، اورقوم کے یہ بھی بتایا جائے کہ جن وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی نے بیرون ملک میں جمع لوٹے گئے اربوں ڈالرز کی وطن واپسی کے عمل سے معذوری کا سبب کیا تھا۔

الگے روز وفاقی وزیر فواد چوہدری کا ایک افسوس ناک اور عوامی احساسات سے متصادم بیان شایع ہوا ، جس میں موصوف نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ حکومت 400 محکمے ختم کررہی ہے، عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں، ان کا کہنا تھا کہ نوکریں نجی سیکٹر دیتا ہے، اگر حکومت کی نوکریوں کے لیے دیکھنا شروع کردیں گے تو معیشت کا فریم ورک بیٹھ جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ان کو یاد دلا دے کہ جب صورتحال اس حد تک درد انگیز اور ناقابل عمل ہے تو وزیراعظم نے ایک کروڑ نوکریوں کا دھواںدھار اعلان کیوں کیا۔ پھر بھی وفاقی وزیرکا دعویٰ ہے کہ حکومت نے روزگارکا ماحول بناناہے، انھوں نے کہا کہ یہ70کی دہائی کی سوچ تھی۔ سوال یہ ہے کہ سوچ کے بحران اور فقدان کا شکار توحکومت ہے، اب وہ ہزاروں لاکھوں بیروزگار جن کو ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لارے لپے دیے گئے ہیں۔

ان کے تالیف قلوب کے لیے یہی اندازگفتگو رہ گیاہے۔ کم ازکم بیروزگاری کے ستائے ابنائے وطن کے احساست اور امنگوں کا کچھ توخیال کیا ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ مرغیاں بانٹنے سے کچھ نہیں ہوتا،حکومت بنیادی سہولیات دے۔ لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

ایک اخباری اطلاع میں کہا گیا ہے کہ خام مال کی درآمدات میں کمی کے باعث صنعتی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے، مشیر تجارت رزاق داؤد نے کہاکہ آٹو سیکٹرکی گرتی پیداوار خام مال کی درمدآت میں کمی کا ایک اہم سبب ہے۔چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ بے نامی قانون میں کوئی بڑی تبدیلی نہیںآرہی ۔ ایک آٹو مینوفیچرر کمپنی نے پیداوار کم ہونے کے باوجود ملازمین کی چھانٹی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمن میڈیا کے مطابق پاکستان آیندہ برس فروری تک مزید 4 ماہ کے لیے گرے لسٹ میں رہے گا۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال توجہ کی طلبگار ہے۔

میڈیا کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے لیے آئی ٹی استعمال کاکوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں نکلا۔ ان متفرق بیانات اور رپورٹوں پر ارباب بست وکشاد کو سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے۔ معیشت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ملک میں ان دو محاذوں پر پیدا شدہ سیناریو میں لازم ہے کہ تجارتی اور صنعتی برادری کو اعتماد میں لیا جائے، ان کے خدشات دورکیے جائیں۔

مارکیٹ میں استحکام لایاجائے، اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کی کیمسٹری پر نظر ڈالی جائے، عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے میکرو اکنامک  پیش رفت اور مہنگائی کے سیل رواں کو روکا جائے۔ آئی ایم ایف نے خبردارکیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح اس سال مزید بڑھ کر 6.1فیصد سے6.2 فیصد ہوگی۔

اس انتباہ کا مطلب صاف واضح ہے کہ غریب اور بدحال لوگوں کی قوت خرید جواب دے جائے گی۔ کامرس رپورٹرکی رپورٹ کے مطابق سبزیوں، دالوں، دواؤں اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ سستی ترین سبزیوں کی قیمتیں بھی دو سے تین فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ لوگ دال روٹی بھی بمشکل اپنے بچوں کو دینے کے قابل رہ گئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں مندی برقرار ہے ، سرمایہ کاروں کے مزید 15ارب ڈوب گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک انگریزی معاصرکے ایک معتبر تجزیہ کار نے ملکی اقتصادیات کی گمبھیر صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیاہے۔ اس جائزے میں حکومت کے معاشی مسیحاؤں کے لیے غور وفکرکا بیش بہا سامان ہے، ضرورت اس پر دل سوزی سے سوچ بچارکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔