جدید دور کی غلامی

ایڈیٹوریل  اتوار 20 اکتوبر 2019
سب سے بڑا جرم انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کے ذریعے سالانہ 150 بلین ڈالر کی خطیر رقم کمائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سب سے بڑا جرم انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کے ذریعے سالانہ 150 بلین ڈالر کی خطیر رقم کمائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غربت، تنازعات اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث لاکھوں کروڑوں لوگ آج کے جدید دور میں بھی غلامی کا شکار بن رہے ہیں اور جدید دور کی یہ غلامی تیزی سے پھیلتی ہوئی تجارت ہے۔ اس غلامی میں گرفتار ہونے والے بھاری منافع کی لالچ میں ادھر دھکیلے جاتے ہیں۔ یا ایسی ملازمتوں میں باندھ دیئے جاتے ہیں جو اصل میں غلامی ہی ہوتی ہے۔

اسی طرح عورتوں کو جنسی استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ یعنی عصمت فروشی، جبری مشقت اور بیگار، بھیک منگوانا اور مجبور لوگوں کو جرائم میں ملوث کرنا، گھریلو غلامی، انسانی اعضاء کی خرید و فروخت انسانوں کی اسمگلنگ سب سے بڑی مجرمانہ سرگرمی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ 2030 تک دنیا سے جبری مشقت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جدید دور کی غلامی کے حوالے سے ٹھوس اور قابل اعتماد اعداد و شمار کا حصول بہت مشکل ہے تاہم عالمی ادارہ اس حوالے سے تمام قباحتوں کو ختم کرانے کے لیے پر عزم ہے۔

عالمی ادارے نے اس حوالے سے بعض کلیدی حقائق کا کھوج لگالیا ہے جو معتبر عالمی تنظیم یورپی یونین نے اکٹھے کیے ہیں جن پر عمل کرکے انسانی اسمگلنگ پر کس حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 40.3 ملین لوگ (یعنی چار کروڑ تیس لاکھ لوگ) جدید زمانے کے غلام بنائے جاچکے ہیں۔ تقریباً 20 ملین (یعنی دو کروڑ) افراد سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ان لوگوں سے کھیتوں، فیکٹریوں اور مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں پر کام لیا جاتا ہے۔ 15.4 ملین (ایک کروڑ چون لاکھ) عورتوںکی زبردستی شادی کی جاتی ہے جب کہ پچاس لاکھ کو زبردستی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جدید غلاموں کا ایک چوتھائی حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو ہر 185 افراد میں سے ایک ماڈرن غلامی میں مبتلا ہے۔

رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا میں جدید غلامی میں ملوث افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں پر ہر 10 افراد میں سے ایک کسی نہ کسی قسم کی غلامی کا شکارہے۔ اس کے بعد آسٹریا کا نمبر آتا ہے جہاں 9.3 فیصد غلامی میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد آنے والے ممالک میں برونڈی (4 فیصد) وسطی افریقن ری پبلک میں 2.2 فیصد اور افغانستان کا نمبر آتا ہے جہاں 2.2 فیصد لوگ غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں جدید غلاموں کے حوالے سے بھارت بھی سرفہرست ہے جہاں 8 فیصد لوگ غلامی کا شکار ہیں۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جہاں 3.86 ملین لوگ غلامی میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے جہاں 3.19 ملین لوگ نئی طرز کی غلامی کا شکار ہیں۔ اس کے بعد 3.19 ملین کی شرح سے جنوبی کوریا اور اس کے بعد 2.64 ملین کی شرح سے نائیجیریا کا نام ہے۔

سب سے بڑا جرم انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کے ذریعے سالانہ 150 بلین ڈالر کی خطیر رقم کمائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جدید غلامی کا رواج ہے۔ برطانیہ میں 136000 لوگ اس قسم کی غلامی میں مبتلا ہیں جب کہ امریکا میں ان کی تعداد 403,000 سے زائد بنتی ہے۔ 2019 کے آغاز سے 47 ملکوں نے انسانی اسمگلنگ کو جرائم کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا جب کہ 96 ممالک نے جبری مشقت کو جرائم کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ 133 ممالک میں جبری شادیوں کو جرائم کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔