- منفی پروپیگنڈا ہمیں ملک و عوام کی ترقی کے اقدامات سے نہیں روک سکتا، آرمی چیف
- پاکستان میں افغانستان سے لائے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت پھر منظرِ عام پر
- بھارتی ٹیم کے ہیڈکوچ کی عام افراد کی طرح لائن میں لگ ووٹ کاسٹ کرنے ویڈیو وائرل
- وزیرداخلہ کا غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن تیز کرے کا حکم
- سندھ حکومت نے 54 نجی اسکولوں کی رجسٹریشن روک دی
- عدت پوری کیے بغیر بیوی کی بہن سے شادی غیر قانونی قرار
- حکومت سندھ کا ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ
- ضمنی انتخابات: کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری، نئی پارٹی پوزیشن سامنے آگئی
- ایوریج ٹیم کیخلاف شکست؛ بلاوجہ کی تبدیلیاں "نام نہاد تجربہ" قرار
- حفیظ نے غیرملکی کوچز کی تقرری پر سوال اٹھادیا
- سپریم کورٹ؛ جے ایس ایم یو کنٹریکٹ ملازمین کی ریگولرائزیشن کی درخواست مسترد
- ٹی20 ورلڈکپ؛ وقار یونس نے اپنے 15 رکنی اسکواڈ کا بتادیا
- پختونخوا میں 29 اپریل تک گرج چمک کیساتھ بارش اور آندھی کا امکان
- پی ٹی آئی جلسہ؛ سندھ ہائیکورٹ کی انتظامیہ کو اجازت نہ دینے کی معقول وجہ بتانے کی ہدایت
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں مزید اضافہ
- اداروں کیخلاف پروپیگنڈا؛ اعظم سواتی کو ایف آئی اے کے پاس شامل تفتیش ہونے کا حکم
- بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچادی، جھیل میں شگاف پڑ گیا، آبادیاں زیرِ آب
- پاکستان اور ایران کا غزہ پر مؤقف یکساں ہے، دفتر خارجہ
- پاسپورٹ غیر قانونی بلاک کیا تو ایف آئی اے کیخلاف کارروائی ہوگی، پشاور ہائیکورٹ
- شرمناک شکست پر کپتان بابراعظم کا بیان سامنے آگیا
جدید دور کی غلامی
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غربت، تنازعات اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث لاکھوں کروڑوں لوگ آج کے جدید دور میں بھی غلامی کا شکار بن رہے ہیں اور جدید دور کی یہ غلامی تیزی سے پھیلتی ہوئی تجارت ہے۔ اس غلامی میں گرفتار ہونے والے بھاری منافع کی لالچ میں ادھر دھکیلے جاتے ہیں۔ یا ایسی ملازمتوں میں باندھ دیئے جاتے ہیں جو اصل میں غلامی ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح عورتوں کو جنسی استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ یعنی عصمت فروشی، جبری مشقت اور بیگار، بھیک منگوانا اور مجبور لوگوں کو جرائم میں ملوث کرنا، گھریلو غلامی، انسانی اعضاء کی خرید و فروخت انسانوں کی اسمگلنگ سب سے بڑی مجرمانہ سرگرمی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ 2030 تک دنیا سے جبری مشقت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جدید دور کی غلامی کے حوالے سے ٹھوس اور قابل اعتماد اعداد و شمار کا حصول بہت مشکل ہے تاہم عالمی ادارہ اس حوالے سے تمام قباحتوں کو ختم کرانے کے لیے پر عزم ہے۔
عالمی ادارے نے اس حوالے سے بعض کلیدی حقائق کا کھوج لگالیا ہے جو معتبر عالمی تنظیم یورپی یونین نے اکٹھے کیے ہیں جن پر عمل کرکے انسانی اسمگلنگ پر کس حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 40.3 ملین لوگ (یعنی چار کروڑ تیس لاکھ لوگ) جدید زمانے کے غلام بنائے جاچکے ہیں۔ تقریباً 20 ملین (یعنی دو کروڑ) افراد سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ان لوگوں سے کھیتوں، فیکٹریوں اور مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں پر کام لیا جاتا ہے۔ 15.4 ملین (ایک کروڑ چون لاکھ) عورتوںکی زبردستی شادی کی جاتی ہے جب کہ پچاس لاکھ کو زبردستی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جدید غلاموں کا ایک چوتھائی حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو ہر 185 افراد میں سے ایک ماڈرن غلامی میں مبتلا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا میں جدید غلامی میں ملوث افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں پر ہر 10 افراد میں سے ایک کسی نہ کسی قسم کی غلامی کا شکارہے۔ اس کے بعد آسٹریا کا نمبر آتا ہے جہاں 9.3 فیصد غلامی میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد آنے والے ممالک میں برونڈی (4 فیصد) وسطی افریقن ری پبلک میں 2.2 فیصد اور افغانستان کا نمبر آتا ہے جہاں 2.2 فیصد لوگ غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں جدید غلاموں کے حوالے سے بھارت بھی سرفہرست ہے جہاں 8 فیصد لوگ غلامی کا شکار ہیں۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جہاں 3.86 ملین لوگ غلامی میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے جہاں 3.19 ملین لوگ نئی طرز کی غلامی کا شکار ہیں۔ اس کے بعد 3.19 ملین کی شرح سے جنوبی کوریا اور اس کے بعد 2.64 ملین کی شرح سے نائیجیریا کا نام ہے۔
سب سے بڑا جرم انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کے ذریعے سالانہ 150 بلین ڈالر کی خطیر رقم کمائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جدید غلامی کا رواج ہے۔ برطانیہ میں 136000 لوگ اس قسم کی غلامی میں مبتلا ہیں جب کہ امریکا میں ان کی تعداد 403,000 سے زائد بنتی ہے۔ 2019 کے آغاز سے 47 ملکوں نے انسانی اسمگلنگ کو جرائم کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا جب کہ 96 ممالک نے جبری مشقت کو جرائم کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ 133 ممالک میں جبری شادیوں کو جرائم کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔