ڈینزل واشنگٹن… ہالی وڈ کا سپر اسٹار

رانا نسیم  اتوار 27 اکتوبر 2019

کہتے ہیں فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، یہ ہر قسم کی نسلی، لسانی اور ثقافتی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے، جس کا ایک عملی ثبوت ہمیں دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری یعنی ہالی وڈ سے ملتا ہے، جہاں سیاہ فام اداکاروں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جنہوں نے اس انڈسٹری کے پنپنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اولین آرٹسٹوں میں شامل ہیٹی میک ڈینئل سے لے کر مورگن فریمین، سیموئل ایل جیکسن، ول سمتھ، ڈوین جانسن اور ویزلے سنائپس سے ہوتے ہوئے آج کی پود کے میمودو ایتھی تک سیاہ فام اداکاروں نے ہالی وڈ کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ان ہی سیاہ فام اداکاروں میں ایک نام ڈینزل واشنگٹن کا بھی ہے، جو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں ایسے آرٹسٹوں کی کثیر تعداد ابھی بھی موجود ہے، جو آج تک آسکر ایوارڈ کو ترس رہے ہیں، لیکن ڈینزل واشنگٹن وہ فن کار ہیں، جو دو بار یہ اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔

28 دسمبر 1954ء کو نیویارک (ماؤنٹ ورنن) میں پیدا ہونے والے کامیاب امریکی اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ڈینزل ہیس واشنگٹن جونیئر کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد ڈینزل ہیس واشنگٹن پادری تھے، جو نیویارک سٹی واٹر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے، لیکن گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وہ ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں بھی پارٹ ٹائم ملازمت کرنے پر مجبور تھے۔

ڈینزل کی والدہ لینس ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں۔ گھریلو تنگ دستی کے باوجود یہ ایک خوش حال خاندان تھا، لیکن پھر اچانک واشنگٹن کے والدین میں طلاق ہوگئی، اس وقت وہ 14 برس کے تھے، یہ وہ وقت تھا، جب ایک ناپختہ ذہن لڑکے کو والدین کی مکمل توجہ چاہیے تھی، لیکن اس حادثہ نے ڈینزل کو ذہنی طور پر بہت زیادہ منتشر کر دیا۔ اداکار کی والدہ نے انہیں ماؤنٹ ورنن ایلیمنٹری سکول سے نکلوا کر آکلینڈ ملٹری اکیڈمی میں داخل کروا دیا اور بعدازاں وہ انہیں لے کر فلوریڈا چلی آئیں، جہاں واشنگٹن کو مین لینڈ ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ ہالی وڈ سٹار نے 1977ء میں فوردھام یونیورسٹی سے ڈرامہ اور صحافت میں گریجوایشن کی۔ فوردھام میں ڈینزل نے اپنی خواہش کے مطابق ایک باسکٹ بال ٹیم کو بھی جوائن کیا۔ اداکاری کی جانب فطری رجحان اداکار کو لنکولن سنٹر کیمپس لے گیا، جہاں انہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

فوردھام سے گریجوایشن کرنے کے بعد ڈینزل نے باقاعدہ طور پر شوبز کی زندگی کے آغاز کیا، وہ پہلی بار 1977ء میں سکرین پر ایک ٹیلی ویژن فلم ’’Wilma‘‘ میں جلوہ گر ہوئے، پھر ہالی وڈ میں ان کی انٹری 1981ء میں فلم ’’Carbon Copy‘‘ سے ہوئی۔ واشنگٹن کی عملی زندگی کا سب سے پہلا بڑا بریک تھرو اس وقت ہوا، جب انہوں نے 1982ء میں ٹی وی ڈرامہ ’’St. Elsewhere‘‘ میں ایک ڈاکٹر کا کردار نبھایا، یہ ڈرامہ 1988ء تک مسلسل نشر ہوا، جس نے مقبولیت کی نئی چوٹیوں کو سر کیا۔ 1989ء میں باصلاحیت اداکار نے فلم ’’Glory‘‘ میں ایسا کام کیا کہ 1990ء میں انہیں آسکر کی ٹرافی تھما دی گئی۔ 2000ء میں ڈینزل کی فلم ’’Remember the Titans‘‘ نے کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے۔

اس فلم نے ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا۔ جنوری 2000ء میں اداکار نے ایک نئی تاریخ اس وقت رقم کی جب انہیں فلم ’’The Hurricane‘‘ میں بہترین اداکاری پر گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا، 1963ء کے بعد وہ پہلے سیاہ فام اداکار تھے، جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ 2001ء میں دوسری بار آسکر جیت کر واشنگٹن فلم انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے لئے ایک ایس حسرت بن گئے، جس کی ہر کوئی تمنا کرتا ہے۔ بے پناہ مقبولیت کے باوجود ڈینزل کی کامیابیوں کا سفر ابھی تھما نہیں تھا، کیوں کہ 2002ء میں انہوں نے خود ہی ایک فلم ’’ Antwone Fisher‘‘ بنا ڈالی، جسے فلمی حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ معروف اداکار و ڈائریکٹر نے ہالی وڈ کو متعدد ایسی فلمیں دیں، جن کا بزنس سو سو ملین ڈالر سے زائد تھا، جو بلاشبہ ان کی مقبولیت اور کامیابی کی واضح دلیل ہے۔

پیشہ وارانہ زندگی کی تمام تر مصروفیات کے باوجود واشنگٹن نے نجی زندگی کو بھی کبھی فراموش نہیں کیا، 25 جون 1983ء میں انہوں نے پاؤلیٹا پیرسن سے بیاہ رچایا اور آج تک ایک خوش و خرم ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈینزل سے پاؤلیٹا پیرسن کی ملاقات ’’Wilma‘‘ کے سیٹ پر ہوئی، اس جوڑے کو قدرت نے 4 بچوں سے نوازا۔ 1991ء میں واشنگٹن کو ان کی مادر علمی فوردھام یونیورسٹی، 2007ء میں مورہاؤس کالج اور 2011ء میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ 2011ء میں انہوں نے فوردھام یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف تھیڑ کے لئے 2 ملین ڈالر جبکہ اسی مقصد کے لئے ایک سکول کو اڑھائی لاکھ ڈالر عطیہ کئے۔

فلم، ٹی وی اور تھیٹر
ہالی وڈ سٹار نے فلمی سفر کا آغاز 1981ء میں ’’Carbon Copy‘‘ نامی مزاحیہ فلم سے کیا، جس میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا، جس کے بعد تین سال کا وقفہ آیا اور 1984ء میں انہوں نے شائقین کے لئے ’’ A Soldier’s Story‘‘ جیسی سپر ہٹ فلم دی، جس کو بے حد پسند کیا گیا۔ ’’Cry Freedom‘‘، ’’Glory‘‘، ’’ Heart Condition‘‘، ’’Unstoppable‘‘، ’’ The Hurricane‘‘، ’’ Remember the Titans‘‘، ’’Flight‘‘ کے علاوہ 2001ء میں آنے والی فلم’’Training Day‘‘ میں واشنگٹن کی بہترین پرفارمنس پر انہیں دوسری بار آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا، یوں مجموعی طور پر سپر سٹار، ہالی وڈ کو اب تک 47 سے زائد فلمیں دے چکے ہیں۔

فلم کے علاوہ ڈینزل ٹی وی پروگرامز میں بھی چھائے رہے، 1977ء میں انہوں نے پہلا ٹی وی پروگرام ’’The Wilma Rudolph Story‘‘ کیا، جس کے بعد 1979ء میں معروف زمانہ ’’Flesh & Blood‘‘ نے شائقین کے دل موہ لئے۔ اس کے بعد بھی معروف اداکار نے ’’License to Kill‘‘ جیسے مقبول ٹی وی پروگرامز میں کام کیا۔ واشنگٹن کے ٹی وی پروگرامز کی مجموعی تعداد 11 بنتی ہے۔ فلم اور ٹی وی کے علاوہ ڈینزل نے تھیٹر پر بھی پرفارم کیا، جہاں بجنے والی شائقین کی تالیاں اور سیٹیاں، ان کی بہترین پرفارمنس کا ثبوت ہیں۔ اداکار نے اپنی عملی زندگی کا سفر بھی تھیٹر سے ہی شروع کیا، انہوں نے 1979ء میں ’’Coriolanus‘‘ کے نام سے پہلے پلے میں کام کیا، جس کے بعد اداکار نے مزید 7 تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔

اعزازات
ایوارڈز کی بات کی جائے تو شائد ہی کوئی ایسا اعزاز ہو، جس کے لئے ڈینزل واشنگٹن کو حق دار نہ ٹھہرایا گیا ہو۔ فلم نگری کے سب سے بڑے ایوارڈ یعنی آسکر کے لئے ہالی وڈ کے سپر سٹار کو 9 بار نامزد کیا گیا اور 2 بار تو یہ ٹرافی بھی اٹھا لائے۔ واشنگٹن کو فلم ’’Glory‘‘ اور ’’Training Day‘‘ میں بہترین پرفارمنس کے لئے آسکر سے نوازا گیا۔ گولڈن گلوب ایوارڈز کے لئے 10 بار ان کی نامزدگی ہوئی، جن میں سے 3 بار وہ ونر بھی قرار پائے۔

متنوع صلاحیتوں سے مالا مال اداکار کو شوبز انڈسٹری میں بہترین خدمات پر گریمی ایوارڈز کے لئے ایک، پرائم ٹائم ایمی ایوارڈز 2، سکرین ایکٹرز گیلڈ ایوارڈز 7 اور ٹونی ایوارڈز کے لئے 2 بار نامزد کیا گیا، جن میں متعدد بار انہیں ٹرافی تھامنے کا شرف حاصل ہوا۔ بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے اس ہیرو کو صرف ایکشن ہی نہیں بلکہ مزاحیہ اداکاری پر بھی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ڈینزل کو مجموعی طور پر 96 مختلف ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا، جن میں سے 39 بار انہوں نے میدان مار لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔