جہاں میں آئی دِوالی بڑے چراغ جلے

توقیر چغتائی  بدھ 30 اکتوبر 2019

خوشی اور غم کے ساتھ چراغ تو جلتے بجھتے ہی رہتے ہیں ، مگر وہ علامتی چراغ جو محبت ، امن و آشتی اور انسانیت کی بہتری کے لیے جلائے جائیں کسی بھی آندھی یا طوفان سے نہیں بجھ پاتے۔ ہندو دھرم میں دیوالی کا تہوار بھی گرمیوں کی فصل کٹنے کے بعد چراغوں کی جگمگاہٹ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ دیوالی کے سلسلے میں ہم بچپن میں لتا کی آواز میں ایک المیہ گیت سنتے تھے جو شاعری اور موسیقی کا بہترین امتزاج تھا اور دیوالی کے دوسرے گیتوں سے یوں مختلف تھا کہ اس میں خوشی کے بجائے غم کا اظہار کیا گیا تھا۔

جہاں میں آئی دِوالی بڑے چراغ جلے

ہمارے دل میں مگر تیرے غم کے داغ جلے

پچاس کی دہائی میں بننے والی فلم ’’ تاج ‘‘ میں وجنتی مالا پر فلمایا گیا یہ گیت اپنے دورکے انتہائی مشہور گیتوں میں شمارہونے لگا مگر ہم اور ہمارے بہت سارے دوسرے دوست اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ دیوالی کا تہوارکیوں منایا جاتا ہے اور اِس میں اتنے سارے چراغ جلانے کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے، کسی کے نہ ہونے پر رنجیدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے اورکسی کو اتنی شدت سے کیوں یاد کیا جا رہا ہے۔

ہندوستانی تاریخ میں اِس تہوار پر پہلی صدی کے دوسرے حصے کے دوران کچھ تحریریں ملتی ہیں اور جن دو مذہبی کتابوں میں دیوالی کا ذکر آیا ہے اُن میں ’’دیپ‘‘ کو سورج کا قائم مقام یا نمایندہ کہا گیا ہے۔ دیوالی کو دیپوں والی، یعنی چراغوں والی رات ،گھڑی یا موقع کہا جاتا ہے جس کی تاریخ میں کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ دوسری بہت ساری وجوہات اور تاریخ میں درج روایات کے علاوہ ساتویں صدی میں لکھے گئے سنسکرت کے ڈرامے ’’ ناگا نند‘‘ میں ہرش نامی بادشاہ نے اسے چراغوں کے جشن نام دیا جس میں نوبیاہتا دلہن کو تحفے دیے جاتے،گھروں کی لیپا پوتی ہوتی اور تیل کے دیؤں سے رات کے وقت، گلیوں، بازاروں اور گھروں کو سجایا جاتا۔

البیرونی گیارہویں صدی کے دوران ہندوستان آئے تھے۔ انھوں نے بھی دیوالی کو کاتک کے مہینے میں نئے چاند کے پہلے دن منایا جانے والا ہندوؤں کا تہوار لکھا ہے۔ اس تہورا پر کئی فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں اور کئی گیت بھی لکھے گئے ہیں ، مگر تقسیم کے بیس سے تیس سال بعد پروان چڑھنے والی نسل اس سے تقریبا ناً واقف ہے۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسے کسی تہوارکے بجائے صرف ’’ ہندو تہوار ‘‘ تک محدود سمجھا جاتا ہے اور دوسرا تقسیم کے بعد اُن علاقوں سے بہت سارے ہندوؤں کا بھارت میں ہجرت کر جانا ہے جو ستر سال قبل پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ تقسیم کے بعد یوں تو پاکستان کے تقریبا تمام علاقوں میں ہندوؤں کی آبادی موجود رہی اور اب بھی موجود ہے لیکن سندھ میں صدیوں سے آباد ہندوؤں کی تعداد دوسرے علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ کہی جا سکتی ہے۔

سندھ کو یہ اہمیت بھی حاصل ہے کہ یہاں کے مختلف شہروں میں، ہندوؤں ، جینیوں اور بدھوںکی کئی عبادت گاہیں اب بھی بہترین حالت میں موجود ہیں۔ دوسرے علاقوں میں ہندوؤں کی ہجرت کی وجہ سے کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا اور حکومت کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ بڑی تعداد میں چھوڑی ہوئی ان عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش کی طرف پورا دھیان دے سکے۔

طویل مدت تک بند رہنے اور موسم کے گرم و سرد کو برداشت کرنے کے بعد ان عمارتوں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا جو ایک فطری عمل ہے ، لیکن اب ان عمارتوں کی تزئین و آرائش کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے اور ایسے انتظامات کیے جا رہے ہیں کہ بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک میں آباد ہندو یاتری آسانی سے ان کی زیارت کر سکیں۔کٹاس مندرکی تزئین وآرائش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس نے پاکستان اور اس سے باہر آباد ہندوؤں کے دل جیت لیے۔

دیوالی تو اس سے قبل بھی آتی رہتی تھی، مگر ہمارے ملک میں اِسے اتنے اہتمام سے نہیں منایا جاتا تھا جس طرح اِس دفعہ منایا گیا۔ اس سے قبل صرف سول سوسائٹی کے چند افراد ہی اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ مل کر اس تہوارکو مناتے اور خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ اس دفعہ وزیر اعظم نے ٹویٹر پر ہندو برادری کو دیوالی کی مبارک باد پیش کی توگویا ملک کے سارے عوام اس تہوار پر دی جانے والی مبارک باد میں شریک تھے۔

وزیر اعظم کے اس عمل کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، مگر وہ صرف اپنے ملک میں آباد ہندوؤں کو مخاطب کرنے کے بجائے دنیا بھرکے ہندوؤں کو مخاطب کرتے تو اُن کا پیغام مزید وسیع تناظر میں سامنے آتا۔ اگر بھارت سے ہمارے تعلقات خراب ہیں تو یہ وہاں کی حکومت کی وجہ سے ہیں۔

عوام کو اس کا ذمے دار اِس لیے نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ ہر قوم ، مذہب ، فرقے اور ذات میں چند خراب لوگ تو موجود ہو سکتے ہیں، مگر سارے کے سارے ایسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی حکومت کی ہر جائز و ناجائز بات کو چپ چاپ تسلیم کر لیں۔ ہمیں تو دنیا کے اُن تمام افراد کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے جو سماجی برائیوں سے بالا تر ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے ہیں۔ بھارت میں رہنے والے ہندو بھی اس وقت دو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ جن میں ایک دھڑا ’’ہندو توا‘‘ کا حامی ہے اور دوسرا اس کی مخالفت کی وجہ سے نفرت کا شکار بنا ہوا ہے۔ وہاں ایسے لکھاریوں، ججوں ، سیاستدانوں اور اساتذہ پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں اور اُن کا سماجی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جوکشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارت کے مختلف حصوں میں پیش آنے والی پرتشدد مذہبی کارروائیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔

سکھوں کے روحانی اور مذہبی پیشوا گرو نانک کی پانچ سو پچاسویں سالگرہ پر ننکانہ صاحب میں بابا گرو نانک یونی ورسٹی کے قیام کی تقریب میں انسانیت کی خدمت اور صوفیا ء کے درباروں کے ساتھ مزید یونیورسٹیوں کے قیام کی بات بھی عام لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کی بہترین کوشش ہے اور کرتار پور راہداری کھولنے کے اعلان نے بھی دنیا بھر میں آباد سکھ برادری کی خوشی میں اضافہ کیا ہے۔ سکھ برادری تو اس سے قبل بھی ملک میں واقع اپنے مقدس مقامات کی یاترا کے لیے آتی ہی رہتی تھی ، مگر ہندو یاتریوں کی تعداد اُن سے بہت کم تھی ، مگر سیالکوٹ میں واقع تیجا سنگھ مندر کو بہتر سال بعد ہندو یاتریوں کے لیے بحال کرنے کے اعلان نے دیوالی کے موقعے پر ہندو برادری کو بھی مسرور و مطمئن کیا ہے ۔

یاد رہے کہ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور امن و امان کی بحالی کے لیے جہاں بات چیت ضروری ہے وہاں مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش اور ادبی و ثقافتی وفود کے باہمی تبادلے کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے۔ امن پسند افراد دونوں ممالک میں موجود ہیں اور وہ باہمی مسائل کو جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہش مند ہیں، لیکن جب تک مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم ختم نہیں ہوتا اُن کا یہ خواب محض خواب ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔