ٹیلی پیتھی کیا ہے؟

شایان تمثیل  ہفتہ 19 اکتوبر 2013
waqar.ahmed@express.com.pk

[email protected]

خارق العادات مظاہر (ٹیلی پیتھی، کشف، روشن ضمیری اور تنویم وغیرہ) پر سائنسی تحقیقات صرف ترقی یافتہ ملکوں میں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اوہام و قیاسات کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ مغربی محققین نے ٹیلی پیتھی کے موضوع پر پچھلے سو برسوں میں جو تحقیقات کی ہیں ان سے ثابت ہوگیا ہے کہ دو ذہن کسی جسمانی رابطے کے بغیر ایک دوسرے سے بذریعہ خیال و تصور پیوستہ اور وابستہ ہوسکتے ہیں۔ ایف ڈبلیو ایچ مائرس نے مابعد النفسیات کے مختلف شعبوں پر جو تحقیقات کی ہیں ان کا ثبوت انگلستان کے علمی ادارے S.P.R کے جنرلز، مطبوعات و رسائل سے مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر مائرس نے ٹیلی پیتھی کے تجربات سائنسی تجربہ گاہوں (لیبارٹریز) میں کیے ہیں اور ان تجربات کے نتیجے میں ٹیلی پیتھی کو بطور ایک سائنسی حقیقت کے تسلیم کرلیا گیا ہے، یہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں کسی نہ کسی حد تک یہ تجربہ ضرور ہوا ہوگا کہ اس کا دماغی رابطہ کسی شخص سے قائم ہوگیا ہے، چاہے چند لمحے کے لیے ہی سہی۔

تاہم آج تک کوئی شخص یہ نہیں بتاسکتا کہ ٹیلی پیتھی کیا ہے اور کسی وسیلہ مادی یا حواس خمسہ کے توسط کے بغیر ایک ذہن کس طرح دوسرے ذہن تک اپنے خیال کی لہریں اور تاثرات کی امواج پہنچا سکتا ہے۔ البتہ یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ٹیلی پیتھی کیا نہیں ہے۔ جیسے ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مادی طاقت کی کوئی قسم مثلاً تابکاری (Radiation) نہیں ہے، ریڈیو ٹی وی وغیرہ، یہ تمام لہریں حرکت کے معلوم قوانین کے تحت عمل کرتی ہیں لیکن ڈاکٹر ایس جی مول کے الفاظ میں ٹیلی پیتھی رابطے میں فاصلہ حائل نہیں ہوتا۔ ان ڈاکٹر صاحب نے ٹیلی پیتھی کے سلسلے میں بہت سے تجربات کیے ہیں اور اس موضوع پر بلند پایہ مضامین لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ دو ذہنوں کے درمیان رابطے کے بعد مسافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بلکہ کائنات کے تمام ذہن ایک کائناتی ذہن سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ذہن سے جو تصور گزرتا ہے وہ آناً فاناً تمام ذہنوں کو متاثر کرسکتا ہے کیونکہ یہ تمام شاخیں ایک ہی جڑ سے پیوستہ ہیں اور وہ جڑ ہے شعور مطلق، جو کائنات کی اصل و اساس ہے۔ صرف انسانوں ہی کے درمیان ٹیلی پیتھی رابطہ قائم نہیں ہوتا بلکہ حیوانوں اور آدمیوں کے درمیان بھی یہی رشتہ برقرار ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھیے تو انسان و درخت بھی افہام و تفہیم کے ایک باطنی رشتے میں پروئے ہوئے ہیں۔ سوشیالوجسٹ ڈاکٹر جی ایم مہکری لکھتے ہیں کہ ایک بات روز بروز واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ کل کے بہت سے واہمے آج کی ایسی سائنسی حقیقتوں کا روپ دھار چکے ہیں جن کا تجربہ کیا جاچکا ہے اور جنھیں متواتر عملی تجربات سے ثابت کیا جاسکتا ہے، مثلاً یہی بات کہ پودوں میں شعور موجود ہے، یعنی درخت سنتے، سمجھتے، محسوس کرتے اور بولتے ہیں، ایک ایسی زبان میں جو الفاظ کی محتاج نہیں۔

پچھلے زمانے میں گائوں کی پنچایتیں ملزم کو ہدایت کرتی تھیں کہ اگر وہ سچا ہے تو فلاں درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اپنی بے گناہی کی قسم کھالے۔ قسم کھانے والے کو جرات نہ ہوتی کہ وہ درخت کے سامنے جھوٹ بول سکے، اسے یقین تھا کہ پیڑ اس کے جھوٹ، سچ میں تمیز کرلے گا۔ کل تک ہم اس پنچایتی فیصلے کو دیہاتیوں کا واہمہ سمجھ کر نظر انداز کردیتے تھے لیکن آج جھوٹ پکڑنے والے آلے (Lie Ditactor) کو آپ Psyic galvanic reflex machine کے ساتھ کسی درخت سے منسلک کرکے جھوٹ بولنے کا ارادہ کریں تو درخت فوراً اپنا ردعمل ظاہر کرے گا اور ریکارڈ کرادے گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ یہ واہمہ کہ درخت سمجھتے، محسوس کرتے اور انسانی پیغام وصول کرکے جواب دیتے ہیں، ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت میں کس طرح تبدیل ہوا یہ کہانی بہت عجیب و غریب ہے۔ امریکا میں ایک شخص Beckster جو لائی ڈیٹیکٹر ایکسپرٹ کی حیثیت سے ممتاز تھا اور اس کا کام تھا کہ اس آلے کے ذریعے زیر تفتیش مجرموں کا جھوٹ سچ معلوم کرے، ایک روز اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اس آلے کو کسی درخت کے ساتھ نتھی کرکے اس کے ردعمل کا اندازہ لگایا جائے۔

بیکسٹر نے اپنے بائی گراف کے تار کو لائی ڈیٹیکٹر کے سامنے لگے ہوئے ایک پودے کے ساتھ نتھی کردیا اور تجربے کے طور پر سوچا کہ اس پودے کو جلادیا جائے۔ فوراً آلے کا پوائنٹر حرکت کرنے لگا یعنی پودے نے فوراً محسوس کرلیا کہ بیکسٹر کیا سوچ رہا ہے۔ بیکسٹر کو شبہ ہوا کہ شاید مشین میں کوئی خرابی ہے۔ مشین کو چیک کیا گیا، وہ صحیح کام کررہی تھی اور مشین میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ دوبارہ پھر اس نے خیال کیا کہ پودے کو جلا دینا چاہیے۔ ایک مرتبہ پھر پوائنٹر کی سوئی حرکت کرنے لگی۔ اس تجربے کے ساتھ ایک نئی سائنس وجود میں آگئی یعنی پودوں اور انسانوں کے درمیان رابطہ بذریعہ خیال۔ اس سے قبل ہندوستان کے سائنس دان  جگدیش چندربوس نے آلات کے ذریعے اس امر کا ثبوت بہم پہنچا کر دنیا کو حیران کردیا تھا کہ پیڑ اور پودے احساسات سے محروم نہیں ہیں، اگر آپ ان کی جڑوں میں شراب چھڑک دیں تو ان پر بدمستی طاری ہوجاتی ہے، اگر ان کے پتے نوچیں تو وہ درد اور کرب محسوس کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ انسانوں اور حیوانوں کی طرح وہ سوتے جاگتے بھی ہیں۔ مگر بیکسٹر کی تحقیق ایک قدم آگے ہے۔ بیکسٹر نے سائنسی طور پر تجربہ کردیا کہ پودے دوسروں کے خیالات و جذبات پڑھ لیتے ہیں۔ صرف اس پر اکتفا نہیں، بیکسٹر اور اس کے رفقا تحقیق نے آلات اور تجربات کی مدد سے اس امر کے ثبوت بہم پہنچائے کہ درخت کتنے ہی فاصلے پر کیوں نہ ہوں وہ اپنے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خیالات و جذبات سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔

یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ اور حیرت ناک ہے۔ یہ سائنسی انکشاف اور بھی چونکا دینے والا ہے کہ درختوں میں مستقبل بینی کی صلاحیت موجود ہے اور وہ آئندہ آنے والے واقعات سے واقف ہوجاتے ہیں۔ سوویت یونین کی انقلاب آفریں ایجاد ’’کیرلین فوٹو گرافی‘‘ تمام جاندار اجسام، درخت، جانور اور آدمی کے ہالہ نور (جسم مثالی) کی تصویر اتار سکتی ہے۔ ان تصاویر سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جب درخت کے پتے نوچے جاتے ہیں تو وہ زندہ اور باشعور آدمی کی طرح تکلیف محسوس کرتا ہے اور جب نرمی و محبت سے ہاتھ پھیرا جائے تو ان کا ہالہ نور درخشاں ہوجاتا ہے۔ جان وائٹ نے اپنی کتاب Psychic power of plants (درختوں کی روحی طاقتیں) میں متعدد شواہد سے ثابت کیا ہے کہ جب درختوں کے سامنے رقص کیا جاتا ہے تو ان کی نشوونما میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ مزید سرسبز و شاداب ہوجاتا ہے۔ اس انکشاف سے ایک اور قدیم روایت کی تصدیق ہوگئی کہ عہد قدیم میں لوگ فصلوں کی کاشت کے وقت طرح طرح کی رسوم ادا کرتے تھے مثلاً رقص و موسیقی اور نشاط آور اجتماعات، ان کا عقیدہ تھا کہ ان رسموں کی بجاآوری سے پودوں کی بڑھوتری، زمین کی زرخیزی اور کھیتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پہلے یہ ایک قبائلی مفروضہ تھا اب یہ ایک علمی اور تجرباتی حقیقت ہے۔ گویا ہزاروں سال پہلے لوگ وہ سب کچھ وجدانی طور پر جانتے تھے جنھیں جدید سائنس لیبارٹری کے تجربات سے ثابت کررہی ہے یعنی عالم نباتات کی مخلوق، انسانوں کے جذبات، تاثرات، تصورات اور احساسات کو سمجھتی، جانتی، پہچانتی ہے بلکہ اس معاملے میں وہ انسان سے زیادہ حساس و باشعور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔