- ماؤں کے عالمی دن پر نا خلف بیٹے کا ماں پر تشدد
- پنجاب میں چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیےکونسل کے قیام پرغور
- بھارتی وزیراعظم، وزرا کے غیرذمہ دارانہ بیانات یکسر مسترد کرتے ہیں، دفترخارجہ
- وفاقی وزارت تعلیم کا اساتذہ کی جدید خطوط پر ٹریننگ کیلیے انقلابی اقدام
- رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی حالات بہترہوئے، اسٹیٹ بینک
- شاہین آفریدی پیدائشی کپتان ہے، عاطف رانا
- نسٹ کے طلبہ کی تیار کردہ پاکستان کی پہلی ہائی برڈ فارمولا کار کی رونمائی
- مخصوص طبقے کو کلین چٹ دینے کیلیے نیا پروپیگنڈا تیار کیا جارہا ہے، فیصل واوڈا
- عدالتی امور میں مداخلت مسترد، معاملہ قومی سلامتی کا ہے اسے بڑھایا نہ جائے، وفاقی وزرا
- راولپنڈی میں معصوم بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی میں ملوث دو ملزمان گرفتار
- تیسرا ٹی ٹوئنٹی: آئرلینڈ کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری
- دکی میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد زخمی
- بنگلادیش نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے اسکواڈ کا اعلان کردیا
- 100 دنوں میں 200 فلائٹس کے مسافر بیگز سے سونا چوری کرنے والا ملزم گرفتار
- سنی اتحاد کونسل نے چیئرمین پی اے سی کیلئے شیخ وقاص اکرم کا نام اسپیکر کو بھیج دیا
- آزاد کشمیر میں احتجاج کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے، وزیراعظم
- جنوبی وزیرستان کے گھر میں ہونے والا دھماکا ڈرون حملہ تھا، رکن اسمبلی کا دعویٰ
- دنیا کا گرم ہوتا موسم، مگرناشپاتی کے لیے سنگین خطرہ
- سائن بورڈ کے اندر سے 1 سال سے رہائش پذیر خاتون برآمد
- انٹرنیٹ اور انسانی صحت کے درمیان مثبت تعلق کا انکشاف
بابری مسجد تنازع کیا ہے ؟
ایودھیا: بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں سناتے ہوئے مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل زمین فراہم کرنے کا حکم دے دیا، بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت اور دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
بابری مسجد کیس کی تاریخ
بابری مسجد کیس کیا ہے اور اس پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان برسوں سے کیا تنازع چلا آرہا ہے اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جس مقام پر بابری مسجد تعمیرہے وہ قطعہ زمین ریاست اتر پردیش کے ضلع ایودھیا میں واقع ہے۔ ہندوؤں کے مطابق جس مقام پر بابری مسجد قائم ہے وہ دراصل ان کے دیوتا رام کی جنم بھومی ہے اور مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں اس جگہ پر بابری مسجد کی تعمیر سے رام کی جنم بھومی تک رسائی ختم کردی گئی تھی۔
ہندو شدت پسند گروہوں نے بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو تباہ کر دیا تھا اور اس بعد ہی ایودھیا میں واقع زمین کا یہ حصہ متنازع چلا آرہاہے۔ اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حوالے سے ایک مقدمہ الٰہ آباد کی ہائیکورٹ میں درج کرایا گیا تھا۔
الٰہ آباد ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ 30 ستمبر 2010 کو سنایا تھا۔ اس میں تین ججوں نے حکم دیا تھا کہ ایودھیا کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس میں سے ایک تہائی زمین رام مندر کے پاس جائے گی، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کے حوالے کی جائے گی جبکہ باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔
2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دیں تھی جس کے بعد سنہ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کردیا تھا۔
مسلمان اورہندوؤں کا موقف
ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اور یہاں پر بابری مسجد کی تعمیر ایک مسلمان نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر کی تھی۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں، جس کے بعد کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں مسجد کے مرکزی گنبد کے عین نیچے رام کے بت مسجد میں رکھ دیے تھے۔ مسلمانوں کے مطابق اس مقام پر بتوں کی پوجا اس واقعے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔
بابری مسجد کیسے تباہ کی گئی؟
6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں، بھارتیا جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور ان کی حامی تنظیموں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں کے ہمراہ اس مقام پر چڑھائی کر دی۔ یہ جلوس وقت کے ساتھ ساتھ پُرتشدد ہوتا گیا اور وہ کئی گھنٹے تک ہتھوڑوں اور کدالوں کی مدد سےمسجد کی عمارت کو تباہ کرتے رہے۔
اس واقعے کے بعد اس وقت کے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما نے ریاست اتر پردیش کی اسمبلی کو درخواست کرتے ہوئے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔