خطائے بزرگاں…؟

رئیس فاطمہ  بدھ 30 اکتوبر 2013

کہتے ہیں … ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ … یعنی بزرگوں کی غلطی کو پکڑنا بھی خود ایک خطا ہے۔ عام سماجی، خاندانی اور معاشرتی زندگی میں تو یہ مقولہ درست ہے کہ بزرگوں سے اگر کوئی خطا ہوجائے تو اسے نظر انداز کردینا چاہیے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ادب اور زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات بزرگ ادیبوں اور دانش وروں کے قلم سے نکلی ہوئی غلطیاں جو یقیناً جان بوجھ کر نہیں کی جاتیں لیکن اگر انھیں مندرجہ بالا فارسی کے مقولے پہ عمل کرتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے تو لوگ اسی غلطی کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح غلطی در غلطی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ابتداء میں ’’عوام‘‘ کی جنس تبدیل کرکے اسے مونث بنادیاگیا۔ خودکُش (پیش کے ساتھ) کو زبر کے ساتھ خودکَش بنادیا گیا۔ دل برداشتہ کو دلبر، داشتہ بنادیاگیا۔ اور یہ سب الیکٹرانک میڈیا پر اتنے تواتر کے ساتھ ہوا کہ اب اسی کو صحیح سمجھ لیا گیا … اس کے ذمے دار وہ سیاسی بازی گر اور شعبدہ باز ہیں جنہیں نہ زبان پر عبور ہے نہ انھوںنے کبھی لغت دیکھنے کی ضرورت محسوس کی، ان کے لیے تقریریں لکھنے والوں نے بھی انھیں قواعد کے اعتبار  سے مذکر اور مونث کا فرق نہیں بتایا، کیونکہ وہ خود اس سے نابلد ہیں۔ لہٰذا جی بھر کے ’’عوام‘‘ کی جنس تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

بہت پرانی بات ہے، میں کراچی کالج فارویمن میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ وہیں ہمارے گھر کے قریب پی۔ ای۔ سی۔ ایچ سوسائٹی میں ایک نام ور شخصیت اور شاعر بھی رہا کرتے تھے۔ ایک بار اپنے کالم میں مجاز کے ایک مشہور شعر کو جذبی سے منسوب کردیا۔ میں نے انھیں ایک خط کے ذریعے اس کا احساس دلایاکہ ’’چونکہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اس لیے ہوسکتاہے کہ آپ کے لکھے ہوئے کو ادب کے طالب علم مستند سمجھیں اور آیندہ یہ شعر جذبی ہی سے منسوب ہوجائے۔‘‘ یقین کیجیے کہ تین چار دن بعد نہ صرف یہ کہ ان کا جواب شکریے کے ساتھ موصول ہوا، بلکہ انھوںنے اعلیٰ ظرفی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا اعتراف اپنے کالم میں بھی کیا۔ اور یہ بھی لکھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ اگر وہ اس قسم کی غلطی کہیں بھی دیکھیں تو ان کی نشان دہی ضرور کریں کیونکہ ایسی غلطیاں عموماً سہواً ہوجاتی ہیں۔

گزشتہ دنوں ہمارے ایک سینئر اور قابل احترام کالم نگار نے شیخ محمد ابراہیم ذوق کا مشہور شعر ۔

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مر کے بھی چین نہ  پایا  تو کدھر جائیںگے

کو غاؔلب کا شعر قرار دے دیا۔ ہم نے فون پر چاہا کہ بات کریں لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔ اسی طرح ایک اور شعر ہے جس کا مصرعہ اولیٰ الگ الگ ہے لیکن مصرعہ ثانی یکساں ہے۔ ایک مصحفی کا ہے جب کہ دوسرا نام انشاء اﷲ خاں انشاء کا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ کسی مشاعرے میں یہ مصرع اس طرح دیاگیا ہوگا۔

وہی ذبح بھی کرے ہے ، وہی لے ثواب الٹا

لہٰذا مصحفی اور انشاؔء دونوں نے غزلیں کہیں جو آزاد کی شہرہ ٔ آفاق تصنیف ’’آب حیات‘‘ میں موجود ہیں۔ مصحفی کی غزل کا شعر یوں ہے۔

میں نے عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روز عید قرباں

وہی ذبح بھی کرے ہے ، وہی لے ثواب الٹا

جب کہ انشاء اﷲ خاں انشاؔء کی غزل کا مصرعہ اولیٰ الگ ہے۔

یہ عجب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں

وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

جب کہ محمد شمس الحق صاحب نے ’’اردو کے ضرب المثل اشعار‘‘ میں اس شعر کو صرف غلام ہمدانی مصحفی سے منسوب کیا ہے۔

اسی طرح ایک اور مشہور مصرعہ۔ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ عموماً میر تقی میرؔ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتاہے۔ جب کہ شمس الحق صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ شعر ایک اور شاعر محمد یار خاں امیرؔ کا ہے اور اس طرح ہے

شکست وفتح میاں اتفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

بعض تذکروں میں یہ مصرعہ اس طرح بھی ملتاہے

شکست وفتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

شمس الحق صاحب نے تحقیق کے بعد بتایاہے کہ یہ شعر اصل میں کس شاعر کا ہے۔ بعض اوقات اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ غلطی کہاں ہورہی ہے۔ جیسا کہ میرے ساتھ خود ایک بار یہ ہوا کہ حالی کے اس مشہور شعر۔

ایک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نشیں عشق

رکھی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں

کو مدتوں میں غالبؔ کا سمجھتی رہی۔

کئی ماہ پہلے ایک کتاب موصول ہوئی تھی ’’شیشۂ و کوہکن‘‘ جو کہ مختلف نوعیت کے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک باب دیکھا جو تقریباً شمس الحق صاحب کی کتاب کا عکس ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود غلطیوں سے پر، قابل مصنف نے اشعار کو کسی دوسری کتاب سے نقل کرتے وقت کچھ اشعار اپنی طرف سے بھی شامل کردیے۔ تاکہ اسے چربہ نہ کہا جاسکے، لیکن ایسا کرتے وقت انھوںنے کئی اشعار کے شعراء کا نام غلط دے دیا۔ اس لیے لازم ہے کہ ان اغلاط کی نشان دہی کی جائے۔ تاکہ فاضل مصنف دوسرے ایڈیشن میں ان کی تصحیح فرماسکیں۔

سب سے پہلے تو یہ ستم ملاحظہ کیجیے کہ میر تقی میر کے مشہور شعر کے نیچے ’’نامعلوم‘‘ لکھا گیا ہے۔

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

اسی طرح قابل اجمیری کے مشہور شعر کو بھی گمنام رکھا گیا ہے یہ شعر قابل کی پہچان ہے۔

وقت کرتاہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایک زیادتی علامہ اقبالؔ کے ساتھ کیوں کی گئی کہ ان کا ایک شعر جو کہ ’’ضرب کلیم میں ان کے ایک قطعہ میں درج ہے۔ اسے فیض کے کھاتے میں ڈال دیاگیا۔

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اب آگے چلیے تو ایک اور انکشاف کہ کئی اشعار کو جن میں غالبؔ اور آتش کے شاگرد  وزیر لکھنوی کے مشہور اشعار کو کسی سعید الظفر صدیقی سے منسوب کردیاگیاہے۔

انشاؔء کی غزل کا مشہور شعر بھی گمنام رہا۔

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

اسی طرح اکبر الٰہ آبادی کے اشعار کو بھی ’’نہ معلوم‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیاگیا ہے۔ اور اس باب کو انھوںنے نام دیا ہے۔ ایک مصرعہ جو بہت مقبول ہوا لیکن دوسرا مصرعہ کسی کو یاد نہیں‘‘ … جب کہ ایسے تمام اشعار شمس الحق صاحب کی تصنیف میں موجود ہیں۔ البتہ فاضل مصنف نے کچھ اپنی طرف سے ایسے اشعار بھی جمع کردیے ہیں جن کا اس عنوان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایک اور صاحب نے بھی اسی موضوع پر ایک کتاب شایع کی تھی جو ایک کالم نگار لے کر آئے تھے۔ ان سے بھی دست بستہ یہی عرض کیا تھا کہ … بھائی! یہ تو شمس الحق صاحب کی دونوں کتابوں کا مکمل چربہ ہے … ادھر ادھر سے مال اڑاکر کتاب چھپوانے سے کوئی بھی نام نہیں کماسکتا۔ بلکہ الٹا یہ خسارے کا سودا ہوتاہے۔  آج کل کچھ پبلشنگ ادارے ببانگ دہل یہ کام کررہے ہیں کہ چند کتابوں کے صفحات چراکر ایک کتاب بناکر دیدی اور مال پکڑلیا۔

آخر میں ایک بات کہتی چلوں کہ:

’’ملکہ ٔ موسیقی‘‘ صرف اور صرف روشن آراء بیگم تھیں یہ خطاب انھی کے لیے مخصوص ہے اور رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔