برطانوی انتخابات: کشمیر کا مسئلہ چھایا رہا

تزئین حسن  منگل 24 دسمبر 2019
بریگزٹ سب سے اہم مسئلہ مگر مسئلہ کشمیر اور بر صغیر ہندو پاک کے مہاجرین نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا

بریگزٹ سب سے اہم مسئلہ مگر مسئلہ کشمیر اور بر صغیر ہندو پاک کے مہاجرین نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا

برطانوی انتخابات نے ثابت کردیا کہ یورپ ابھی تک خوف اور نفرت کی سیاست کی زد میں ہے۔

2015ء سے مغرب کی سیاست مہاجر ین کے مسئلے کے گرد گھومتی رہی ہے۔نصف صدی کی کوششوں سے بننے والی یورپین یونین کی تشکیل کے ڈیڑھ عشرے کے اندر ہی اس کی شکست و ریخت کی باتیں ہونے لگیں۔ تفصیلات کے مطابق انتخابات میں بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کے مسئلہ کو استعمال کرکے کنزرویٹو پارٹی اپنی حریف لیبر پارٹی کو اس کے گڑھ میں پچھاڑتے ہوئے365 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی۔

یہ1980ء کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی فتح ہے۔ کنزرویٹوز نے یہ انتخاب بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یوروپین یونین سے علیحدگی کے وعدے پر لڑا اور کامیاب ہوگئی۔ دوسری طرف ان کی حریف لیبر پارٹی صرف 203 نشستیں لینے میں کامیاب ہوسکی۔ لیبر نے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 59 نشستیں کھو دی ہیں جبکہ کنزرویٹو کی سیٹوں میں48کا اضافہ ہواہے۔

یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی سب سے بڑی شکست ہے۔ انتخابات میں کچھ دوسری جماعتوں نے بھی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں جن میں اسکاٹ لینڈ میں کامیابی حاصل کرنے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی ایس این پی اور لبرل ڈیموکریٹ ایل ڈی نمایاں ہیں۔ انھوں نے بالترتیب 48 اور گیارہ سیٹس حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنزرویٹو ووٹ میں صرف ایک اعشاریہ دو فیصد اضافہ جبکہ لبرل ووٹ شئیر میں سات اعشاریہ نو فیصد کم ہوئی ہے لیکن یہ تبدیلی سیٹوں میں بڑی تبدیلی کا باعث بن گئی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگلی دہائی بورس جانسن اور کنزرویٹو پارٹی کی دہائی ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتنے بڑے مینڈیٹ کے بعد بریکزٹ جیسے پیچیدہ ایشو سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ادھر آئر لینڈ میں اکثریتی سیٹیں لینے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی کی لیڈر نکولا آسٹرجین نے بیان دیا ہے کہ یو کے اسکاٹ لینڈ کو اس کی مرضی کے بغیر برطانیہ میں شامل نہیں رکھ سکتا اور 2014ء کا اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا ریفرنڈم کوئی حتمی فیصلہ نہیں۔ ان کی بات سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ علیحدگی تو نہیں چاہتیں لیکن علیحدگی کارڈ کو مسلسل استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

سن2016 ء سے قبل برطانوی انتخابی سیاست ہیلتھ سسٹم، جرائم کی روک تھام اور امیگریشن کے گرد گھومتی رہتی تھی لیکن اس الیکشن میں برطانیہ کے شہریوں نے واضح کردیا کہ یورپین یونین سے علیحدگی سب سے بڑا ایشو ہے اور وہ اس اتحاد کے تحت زندگی گزارنے پر آمادہ نہیں۔

یورپ کے دوسرے حصوں سے بھی اس اتحاد کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن ان آوازوں کو وہاں وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی جو برطانیہ میں ہوئی ورنہ بریکزٹ کے فوراً بعد بعض رجاعیت پسند Frexit (فرانس کی علیحدگی)، Grexit یعنی یونان کی علیحدگی، Hrexit یعنی ہنگری کی علیحدگی اور DREXIT یعنی جرمنی کی علیحدگی کے بارے میں بات کرنے لگے تھے۔

برطانیہ میں یوروپی اتحاد کے بارے میں عوام الناس کی آراء شروع سے متقسم رہی ہے۔ اس کی حمایت کرنے والے یورو فائل جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے یا اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ’یوروسکیپٹک‘ کہلاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ مغربی یورپ کی واحد یوروپی طاقت تھی جسے ہٹلر زیر نہیں کرسکا تھا۔

برطانیہ بھی اپنے آپ کو باقی یوروپی طاقتوں سے افضل سمجھتا رہا۔ اسی لئے جب سرد جنگ کے آغاز پر کمیونزم کے نظریے کا مقابلہ کرنے کے لئے فرانس میں امریکی سر پرستی میں یوروپی اتحاد کے خواب دیکھنے شروع کئے گئے تو برطانیہ نے ابتدا میں اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں اس معاشی اتحاد کی کامیابی کے اثرات دیکھنے کے بعد برطانیہ نے اس میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی تو فرانس کے صدر ڈیگال نے اسے تین دفعہ ویٹو کیا کیونکہ برطانیہ کی شمولیت سے اس اتحاد پرفرانس کا غلبہ متاثر ہو سکتا تھا۔

یاد رہے امریکا کے مارشل پلان کے زیر سایہ، اس اتحاد کے لئے کوششیں دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئیں اورمختلف مراحل سے گزر کر یہ آدھی صدی بعد سن 2000ء کے بعد اس سیاسی اور معاشی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچا کہ یورپ کے بڑے حصے میں ممالک کے درمیان ویزا کی پابندی ختم ہوگئی، ایک کرنسی اور اس اتحاد سے باہر دنیا سے اجتماعی معاشی ڈیلز کا طریقہ اپنایا گیا یعنی اس اتحاد کے اندر موجود ملکوں کا واحد معاشی اور کسی حد تک سیاسی بلاک وجود میں آیا ۔

لیکن روس کے ٹوٹنے کے بعد 2003ء میں مشرقی یورپ کی ریاستیں بڑی تعداد میں اس اتحاد میں شریک ہوئیں تو یوروپی یونین کے قانون کے مطابق یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ کو بھی اپنی سرحدیں مشرقی یورپ کی آبادی کے لئے کھولنا پڑیں۔ برطانیہ کا شمار چونکہ یورپ کی مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے۔

اس لئے یہاں مہاجرین کی بڑے پیمانے پر منتقلی ہوئی جس سے مقامی آبادی کو اپنا روزگار اور معاشی مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے اور یوں برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی۔ شامی مہاجرین کی یوروپی یونین کے ممالک میں آمد بریکزٹ کے مخالفین کے لئے دوسرا بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ برطانوی شہریوں کوخوف ہے کہ مشرق وسطیٰ سے مہاجرین جو اس وقت جرمنی اور مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہیں، بڑی تعداد میں برطانیہ میں داخل ہوںگے۔ انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ2016ء کے ریفرنڈم کے مقابلے یہ خوف اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

اسلامو فوبیا اور برطانوی مسلمان
دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی جمہوریت اکثریت کے استبداد کا شکار ہو رہی ہے جس میں اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت، امریکا اور اب برطانیہ میں یہ عفریت پوری طرح کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ اکثریتی ووٹ لینے کے لئے نسل پرست سیاست دان اقلیتوں کے خوف اور نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

اس کے لئے جعلی خبروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ برطانوی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا یعنی مسلمانوں کا خوف اور نفرت برطانیہ میں مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے۔ یہ باتیں مختلف ذرائع سے پھیلائی جاتی ہیں کہ مسلمان برطانیہ پر قبضہ کرنے والے ہیں اور شریعت نافذ کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حقیقت میں مسلمان کسی بھی مسلم اکثریتی ملک میں شریعت نافذ نہیں کرسکے۔

دنیا کی ایک تہائی آبادی خود برطانیہ کے قانون کے تحت زندگی بسر کر رہی ہے جسے عرف عام میں کامن لاء کہا جاتا ہے لیکن نفرت پھیلانے والوں کو ایسی باتیں پھیلانے سے کون روک سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد دو دہائیوں میں مغرب میں مقیم مسلمان اور جرمی کوربین جیسے بائیں بازو کے سیاست دان ایک مضبوط متبادل بیانیہ سامنے لیکر آئے ہیں۔ مغربی انتخابات میں نفرت اور خوف کی سیاست میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دہشت گرد حملے ہیں اور اس کا فائدہ عموماً کنزرویٹوز اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ہوتا رہا ہے۔

بورس جانسن کون ہیں؟

جیتنے والے بورس جانسن لندن اسکول آف اکنامکس اور آکسفورڈ کے تحصیل یافتہ ہیں۔ انہوں نے صحافت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یہی نہیں بورس کے بارے میں سب سے دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہ سلطنت عثمانیہ کے ایک وزیر اور صحافی علی کمال کے پڑپوتے بھی ہیں۔ ان کے پردادا کے مسلم نام سے کسی کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ راقم کے نزدیک علی کمال نامی صحافی جو1909ء میں سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے وجود میں آنے والی ’ینگ ترک‘ کی حکومت کے وزیر تھے کا تعلق دونمے فرقے سے ہونا قریب از امکان ہے کیونکہ ’ینگ ترک‘ تنظیم کے بیشتر کرتا دھرتا اصل میں دونما تھے۔

ہم ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کے لئے اپنے ایک سابق مضمون میں دونما فرقے کے بارے میں تفصیل سے معلومات دے چکے ہیں۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دونما در اصل یہود کے ایک خفیہ فرقے کا نام ہے جو بظاہر سترھویں صدی میں عثمانوی بادشاہ کی سزا سے بچنے کے لئے مسلمان ہوگیا تھا لیکن چھپ کریہودی مذہبی روایات کی پریکٹس کرتے رہے۔ یہ موجودہ یونان کے شہر سلونیکا جسے تھیسا لونیکا کہا جاتا ہے اور جو بیسویں صدی کے آغاز تک یونان کے ساتھ عثمانوی کنٹرول میں تھا، میں رہائش رکھتے تھے۔

انہوں نے اپنی مسجدیں الگ بنائیں، اپنے تعلیمی ادارے بنائے، یہ حج پر بھی جاتے اور اپنے بچوں کو قران بھی پڑھاتے، یہود کے برعکس ہفتے کے دن کاروبار اور کام بھی کرتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے خفیہ طور پر یہودی مذہبی روایات پر عمل بھی جاری رکھا۔ یہ تعلیم یافتہ بھی تھے اور انہیں ٹیکسٹائل کے شعبے میں سلطنت عثمانیہ نے بہت سی مراعات بھی دیں۔

بعد ازاں انیسوی صدی میں یہیں فری میسن لاجز کا قیام عمل میں آیا اور ینگ ترک تنظیم کا قیام بھی یہیں عمل میں آیا جس نے آئینی اصلاحات اور جمہوریت کے نام پر سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے سلطنت کی گدی پر ایک کٹھ پتلی حکمران بٹھایا۔ بورس جانسن کے پردادا ینگ ترک کی اس حکومت میں وزیر رہے۔ بعد ازاں انہیں قتل کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ آرمینیائی جینو سائیڈ جس کا الزام سلطنت عثمانیہ پر لگایا جاتا ہے وہ بھی انہی کے ادوار میں ہوئی۔ احمد کمال کے پوتے اور بورس جانسن کے والد کولمبیا کے فارغ التحصیل ہیں اور ورلڈ بینک اور یورپین یونین سے وابستہ رہے۔ بورس انگلش کے ساتھ ساتھ فرنچ اور یونان سے بھی وابستہ رہے۔ بچپن سے ہی ان کی سرگرمیاں انٹلیکچوئل تھیں۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز انہوں نے صحافت سے کیا۔

پاکستان میں ہارنے والے پارٹی جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام یا خلائی مخلوق کی سر پرستی کا الزام لگاتی ہیں، پاکستانی سیاست دانوں کے برعکس جیریمی کوربین اور مک ڈونالڈ نے اپنی شکست کی ذمہ داری باوقار طریقے سے قبول کی۔ دومین اسٹریم اخبارات میں کالموں کے ذریعے جیریمی نے اعلان کیا کہ وہ اس ڈیزاسٹر یعنی آفت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن انھیں اپنے منشور اور اپنی اصولی الیکشن کیمپین پر فخر ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے مستقبل میں آنے والی انتخابی مہمات کی سمت کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے تاہم وہ اپنا منشور عوام تک بہتر طور پر پہنچانے میں ناکام رہے۔

پاکستان کے برعکس پارٹی قیادت کی تبدیلی بھی ایک قدرتی عمل ہے جس کے لئے امید وار پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ ہارنے والی پارٹی کی قیادت کرنے والے دونوں قائدین نے ایک سے دو مہینے میں قیادت کی تبدیلی کے امکان کی بات کی ہے۔ ہماری موروثی اور شخصیت پسندانہ سیاست کے پس منظر میں، اس میں بھی ہمارے لئے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے کہ برطانیہ میں ہارنے کے بعد بھی پارٹی قیادت میں جمے رہنے کی روایت موجود نہیں۔

جیریمی کوربین پچھلے چند برسوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بہت اصولی اور جرات مندانہ موقف کے اظہار کے لئے مشہور رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس الیکشن مہم میں کشمیر پر ان کے بیان نے ان کی انتخابی مہم کو بہت نقصان پہنچایا۔

جس سے انڈیا کا پرو مودی ووٹر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس طرح کشمیر کے ایشو نے بھی لیبر پارٹی کی شکست میں خاطر خواہ کردار ادا کیا۔ اس سے یہ بات بھی ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ بر صغیر ہندو پاک کا ڈیاسپورا یعنی امیگرینٹس کا برطانوی سیاست میں وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل لندن کے میئر کے انتخابات میں اس ڈیاسپورا کی طاقت کھل کر سامنے آئی تھی جب پاکستانی نژاد صادق خان کے مخالف امیدوار نے اپنا انتخابی ترانہ اردو، ہندی، پنجابی، بنگالی، چینی زبان میں تقسیم کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ صادق خان کے مخالف امیدوار عمران خان کے سابق برادر نسبتی اور جمائما کے بھائی تھے جنھیں مودی کی حمایت بھی حاصل تھی اور جنہوں نے مسلمان پاکستانی نژاد امیدوار کے خلاف نسل پرستی کا کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی۔2016ء میں اس کارڈ کو عوام نے مسترد کردیا تھا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس دوران نفرت اور خوف کی سیاست بڑھتی چلی گئی ہے۔ ایسے میں انسان دوستی کا اصولی موقف رکھنے والے جیریمی جیسے سیاست دانوں کو مسترد کردینا ایک قدرتی امر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیریمی کوربین جیسے سیاست دانوں کی شکست بد قسمتی ہے۔ انسان دوستی پرمبنی ایسے اصولی موقف رکھنے والوں کی برطانیہ کو ہی نہیں دنیا کو بھی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔