- پراپرٹی لیکس نئی بوتل میں پرانی شراب، ہدف آرمی چیف: فیصل واوڈا
- کراچی کے سمندر میں پُراسرار نیلی روشنی کا معمہ کیا ہے؟
- ڈاکٹر اقبال چوہدری کی تعیناتی کے معاملے پر ایچ ای سی اور جامعہ کراچی آمنے سامنے
- بیٹا امریکا میں اور بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے، کراچی میں گرفتار ڈکیت کا انکشاف
- ژوب میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، پاک فوج کے میجر شہید
- آئی ایم ایف کا ٹیکس چھوٹ، مراعات ختم کرنے کا مطالبہ
- خیبرپختونخوا حکومت کا اسکول طالب علموں کو مفت کتابیں اور بیگ دینے کا اعلان
- وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ تحائف کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی
- پاکستان نے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو شکست دیکر سیریز اپنے نام کرلی
- اسلام آباد میں شہریوں کو گھر کی دہلیز پر ڈرائیونگ لائسنس بنانے کی سہولت
- ماؤں کے عالمی دن پر نا خلف بیٹے کا ماں پر تشدد
- پنجاب میں چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیےکونسل کے قیام پرغور
- بھارتی وزیراعظم، وزرا کے غیرذمہ دارانہ بیانات یکسر مسترد کرتے ہیں، دفترخارجہ
- وفاقی وزارت تعلیم کا اساتذہ کی جدید خطوط پر ٹریننگ کیلیے انقلابی اقدام
- رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی حالات بہترہوئے، اسٹیٹ بینک
- شاہین آفریدی پیدائشی کپتان ہے، عاطف رانا
- نسٹ کے طلبہ کی تیار کردہ پاکستان کی پہلی ہائی برڈ فارمولا کار کی رونمائی
- عدالتی امور میں مداخلت مسترد، معاملہ قومی سلامتی کا ہے اسے بڑھایا نہ جائے، وفاقی وزرا
- راولپنڈی میں معصوم بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی میں ملوث دو ملزمان گرفتار
- دکی میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد زخمی
دھوکے کا گھر
اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی جگہ دنیا کی ناپائیداری کو واضح مثالوں کے ذریعے سمجھایا ہے۔ مفہوم: ’’دنیا کی زندگی کی وہی مثال ہے جیسے ہم نے پانی اُتارا، پھر رلا ملا نکلا اس سے زمین کا سبزہ، جس کو آدمی اور جانور کھاتے ہیں۔
یہاں تک کہ جب زمین بارونق اور مزیّن ہوگئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ یہ ہمارے ہاتھ لگے گی، کہ اچانک اس پر ہمارا حکم رات یا دن کو آ پہنچا، پھر کر ڈالا اس کو کاٹ کر ڈھیر، گویا کل یہاں نہ تھی آبادی، اسی طرح ہم کھول کر بیان کرتے ہیں نشانیوں کو ان لوگوں کے سامنے جو غور کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ یونس) یعنی جس طرح زمین سیرابی کے بعد شاداب نظر آتی ہے مگر یہ شادابی عارضی ہے۔ اگر کوئی آسمانی آفت اس پر نازل ہوجائے، تو اس کی شادابی چند لمحوں میں ختم ہوکر رہ جائے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر اﷲ تعالیٰ کی نظر میں دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی، تو اس میں سے کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ فرماتا۔
نبی کریمؐ صحابہ کرامؓ کے ہم راہ جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا نظر آیا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: ’’کیا خیال ہے اس بچے کے گھر والوں نے اسے بے حیثیت سمجھ کر یہاں پھینک دیا ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے اس کی تائید فرمائی، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس بکری کے بچے کے اپنے گھر والوں کی نظر میں ذلیل ہونے سے زیادہ بے وقعت ہے۔‘‘ دنیا کی زندگی محدود ہے۔ اس لیے ہمیشہ آخرت کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔ کفّار کی دنیوی شان و شوکت دیکھ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’آپ کو دھوکا نہ دے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا، یہ فائدہ ہے تھوڑا سا، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔‘‘
دراصل اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واضح فرما دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور کفّار کے پاس مال کی فراوانی کام یابی کی دلیل نہیں ہے، یہ مال و دولت عارضی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ دنیا کے بہ جائے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے جدوجہد اور فکر کریں۔ دنیا عافیت کی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے دنیوی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے احکامِ الٰہی کی روشنی میں زندگی بسر کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا مومن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنّت ہے۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو۔‘‘
اﷲ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں کام یابی عطا فرمائے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔