زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا!!

شیریں حیدر  ہفتہ 9 نومبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’تو بچو آپ کو علم ہے کہ کل کے دن کی کیا اہمیت ہے؟‘‘ ٹیچر نے سوال کیا… اگلے روز ہفتے کے دن کی چھٹی ہونے کے باعث اس نے سوچا کہ بچوں سے اس موضوع پر ایک دن قبل بات کر لی جائے۔ کلاس کے کسی بچے کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے اپنا سوال تبدیل کر کے پوچھا،

’’کل کس کا یوم پیدائش منایا جائے گا بچو؟‘‘

’’کئی لوگوں کا میڈم…‘‘ ایک ذہین بچے نے جواب دے کر اپنی ٹیچر کو کھسیانے پر مجبور کر دیا۔’’میرا مطلب ہے کہ کسی اہم شخصیت کا؟‘‘ سوال پر زور دے کر کہا گیا۔

’’ہر birthday boy  اور birthday girl  اہم ہی ہوتا ہے میڈم، کم از کم اپنی سالگرہ کے دن!‘‘ ایک اور آواز آئی اور کلاس روم ہنسی کا گلزار بن گیا۔

’’آپ لوگ کچھ جاننے کے لیے سنجیدہ ہیں یا اسی طرح لطیفے بناتے رہیں گے…‘‘ ٹیچر کا غصہ بجا تھا۔’’کوئی hint دے دیں میڈم؟‘‘ ایک نسبتاً پڑھاکو بچے نے ٹیچر کی بے بسی کا اندازہ کر لیا تھا۔

’’کل کا دن ’’یوم اقبال‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے…‘‘ ٹیچر نے بتایا۔

’’ہیں فرح اقبال…‘‘ ایک لڑکی نے چیخ کر کہا، ’’کل تمہارے dad کا  birthday ہے؟ پارٹی ہو گی کیا؟‘‘

’’کیا ہم سنجیدگی سے اس موضوع پر بات کر سکتے ہیں؟‘‘ ٹیچر نے غصے سے کہا… ’’اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور ان کے یوم پیدائش کو اقبال ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقبال 1877ء میں پیدا ہوئے…‘‘

’’واؤ…‘‘ ایک آواز آئی، ’’he’s going to be  136 years old tomorrow ‘‘ ایک حسابی کتابی بچے نے فوراً حساب لگا کر کہا، ’’پھر تو میڈم ان کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی ہو گا؟‘‘

’’وہ 21  اپریل 1938ء کو وفات پا گئے تھے…‘‘ ٹیچر نے وضاحت کی۔’’تو کل وہ اپنی سالگرہ کیسے منائیں گے؟‘‘ سوال اٹھایا گیا۔’’وہ نہیں… بلکہ ہم سب ان کی سالگرہ منائیں گے…‘‘ ٹیچر نے وضاحت کی، ’’کیونکہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانان ہند کو بیدار کیا، گہری نیند سے جگایا…‘‘

’’ my my  oh…‘‘ ایک بچے نے افسوسناک لہجے میں کہا، ’’اس وقت کیا موبائل فون نہیں ہوتے تھے… یا پھر وہ دوسرے بڑے والے گول گول الارم کلاک جو کہ پرانی فلموں میں دکھائے جاتے ہیں!‘‘

’’اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں ترقی کرنے کا طریقہ بتایا، ہمیں ہمارے بزرگوں کی شان و شوکت سے آگاہ کیا، ہمیں بتایا کہ ہمارے اسلاف کیا تھے، ملت اسلامیہ کا کیا مقام ہے… ہماری کیا کوتاہیاں ہیں جنھوں نے ہمیں زوال پذیر کیا…‘‘

’’انھیں کیسے معلوم ہوا آپ کے بارے میں میڈم؟ میرا تو خیال ہے کہ آپ اتنی old  نہیں ہیں!‘‘ ایک بچے نے ہاتھ بلند کر کے کہا۔’’میں اپنی بات نہیں کر رہی… پوری قوم کی بات کر رہی ہوں، انھوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا!‘‘ ٹیچر نے اپنا لیکچر بہر حال جاری رکھنے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔ ’’چھوٹے بچوں کے لیے انھوں نے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھیں مگر ان میں زندگی گزارنے کے بڑے بڑے اصول انھیں سکھائے… مثلاً خوشامد سے بچنا، کسی کو حقیر نہ سمجھنا، اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا، دوسروں کی مدد کرنا، آزادی کی نعمت کی قدر کرنا اور ایسے ہی کئی پیغامات۔ بچوں کے لیے لکھی گئی خوب صورت دعا، اپنے الفاظ کی اہمیت آج تک بر قرار رکھے ہوئے ہے جو کہ ہم ہر روز صبح اسمبلی میں گاتے ہیں!

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جا ئے

زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا!

صبح کی اسمبلی میں ہر روز آپ یہ دعا پڑھتے ہیں، آپ کو یہ تک علم نہیں کہ اس کا شاعر کون ہے اور اس کا مطلب تو جانے آپ کو علم بھی ہو گا کہ نہیں… اس میں اچھے انسان کی نیک خواہشات ہیں!‘‘ ٹیچر نے کلاس کا حال دیکھ کر کہا، اسے اندازہ نہ تھا کہ صبح کی اسمبلی میں نصف سے زائد بچے کھڑے ہو کر صرف جمائیاں لیتے ہیں، کیونکہ شب بیداری انھیں پسند ہے، یہ اور بات ہے کہ شب بیداری کسی نیک مقصد کے لیے نہیں بلکہ ان کی ’’سوشل میڈیا‘‘ پر مصروفیات کے باعث ہوتی ہے، باہر گھومنے پھرنے کے لیے ہوتی ہے، ٹیلی فونوں پر night package استعمال کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ نہ صرف اسکول اور کالجوں میں سوتے جاگتے دن گزرتا ہے، بلکہ بہت سی کلاسز bunk کرنے والے اقبال کے یہ شاہین!!

’’اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کہا ہے…‘‘ ٹیچر نے بتایا، ’’کیونکہ…‘‘’’اوہ میڈم کم آن…‘‘ ایک نوجوان نے احتجاج کیا، ’’میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، شاہین تو لڑکیوں کا نام ہوتا ہے…‘‘

’’شاہین نام نہیں… بلکہ اقبال نے نوجوانوں کو اس شاہین کی مانند کہا ہے کہ جس کی پرواز بلند تر ہے، اس کی اپچ آسمانوں جیسی… شان کے ساتھ!!!‘‘

’’جیسے کوئی ائیر لائن میڈم؟‘‘ ایک بچی نے اپنی علمیت بگھاری۔ ٹیچر نے بے بسی سے اسے دیکھا۔

’’اقبال نوجوانان اسلام سے کہتے ہیں،’’ کبھی اے نوجوان مسلم،! تدبر بھی کیا تو نیوہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا‘‘

’’تو ہم broken star  ہیں میڈم کیا؟‘‘ کلاس میں قہقہہ گونجا، ’’no no, we are shooting stars!‘‘ ایک اور آواز آئی، ’’we are super stars dear!‘‘

’’آپ لوگ ہر گز سنجیدہ نہیں ہیں!‘‘ ٹیچر نے غصے سے کہا، ’’جو قومیںاپنے اقبال جیسے اثاثوں کی قدر نہیں کرتیں، انھیں کوئی مٹنے سے نہیں بچا سکتا…‘‘ اپنا سامان سمیٹتے ہوئے وہ بڑبڑا رہی تھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے نہ کوئی سن رہا ہے اور کوئی سن رہا ہے تو سمجھ نہیں رہا!

’’تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے

کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کے الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کو آئین مسلم سے کوئی چارہ

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں،تو دل ہوتا ہے سیپارہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔