تیونس میں انقلاب کا نیا ’’ایڈیشن‘‘ تیار؟

عبدالقیوم فہمید  اتوار 10 نومبر 2013
تحریک النہضہ نے اخوان المسلمون کے انجام سے سبق سیکھ لیا ہے۔ فوٹو: فائل

تحریک النہضہ نے اخوان المسلمون کے انجام سے سبق سیکھ لیا ہے۔ فوٹو: فائل

آمریت کے زیراثرعرب ملکوںمیں تیونس پہلا ملک ہے جو ’’عرب بہاریہ‘‘ کی بنیاد بنا لیکن زمینی اور زمانی حالات کچھ ایسے ہیں کہ اس بہاریہ کا نقطہ اختتام مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔مصرمیں صرف دو سال بعد تبدیلی اور انقلاب کا نیا ایڈیشن آچکا ہے ۔ تیونس اور لیبیا اپنی باری کے انتظارمیں ہیں کہ کب وہاں کے عوام بھی دیدہ ونادیدہ قوتوں کی مدد سے منتخب حکومتوں کو چلتا کریں گے۔

مصرکے بعد تیونس میں ’’عرب بہار‘‘ کا نیا ایڈیشن نوشتہ دیوار بن چکا ہے مگر زمینی حالات اس قدرپیچیدہ ہیں کہ یہ سمجھنے میں کافی دشواری ہو رہی ہے کہ آیا انقلاب کا نیا چربہ خالص سیکولرہوگا، کٹر مذہبی منجھن سے بنے گا یا کوئی درمیانی مخلوق سامنے آئے گی؟میرے اس استفسار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تیونس کی سیاست تین دہاروں میں بہتی نظرآتی ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ معزول و مفرور سابق مرد آہن زین العابدین بن علی کے پروردہ کچھ ایسے عناصر سول سوسائٹی اور مزدور تنظیموں کو ساتھ ملا کر ’’تحریک النہضہ‘‘ کی منتخب حکومت کی بساط لپیٹتے ہوئے النہضہ کو مصرکی اخوان المسلمون کے انجام سے دوچار کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ طبقہ تعداد میں کم مگر ابلاغی حلقوں میں بلند آہنگ سمجھا جاتا ہے۔ تیونس کی سیکولر اپوزیشن کی سب سے بڑی اور موثر آواز’’نیشنل سالویشن الایٔنس‘‘ ہے جس میں فیوچر پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، حزب التحریر اور الوطن قابل لحاظ سیاسی جماعتیں ہیں۔ انہوں نے لیبریونین سمیت کئی غیرسرکاری انجمنوں کو بھی اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔

خود تیونسی میڈیا میں رپورٹس آچکی ہیں کہ ملک میں سیاسی انتشار کا سب سے بڑا محرک’’سالویشن الائنس‘‘ ہے، جو خود درپردہ رہتے ہوئے ان مزدور تنظیموں کے کندھے پربندوق رکھ کر گولی چلاتا ہے۔ چنانچہ حکومت مخالف جلسوں اور ریلیوں میں بظاہر سماجی گروپ یا مزدور تنظیمیں دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کی سرگرمیوں کا سیاسی فائدہ اپوزیشن کو ہوتا ہے۔

تیونس کے سلفی یا مذہب کی سخت گیرتشریح کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی کم ہے مگر یہ لوگ اپنی عسکریت پسندی کے باعث حکومت کی ناک کا بال بن چکے ہیں۔ ان میں خالص مذہبی بھی ہیں لیکن کچھ غیر مصدقہ ذرائع سے یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ مذہبی عناصرمیں وہ لوگ بھی شامل ہیںجو بیرونی اشاروں پرچلتے ہوئے ملک کو ناکام ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد حکومت پر قبضہ نہیں بلکہ وہ ہرحکومت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ رکھنا چاہتے ہیں۔

النہضہ کی حکومت کے لیے تیسرا اور بڑا خطرہ ملک میں جاری علماء کی تحریک ہے۔ ان میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل ہیں۔ تیونس کے علماء اتحاد نے ملک کے کئی شہروں میں حکومت کی نماز جنازہ کا بھی اہتمام کیا ہے۔ حکومت کی علامتی نماز جنازہ کی ادائی بلا شبہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ان تینوں طبقات کے دباؤ کے بعد النہضہ کو ان کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پڑے ہیں اور تین ہفتوں کے اندر اقتدار سے علیحدگی کا اعلان بھی کردیا ہے۔

النہضہ حکومت سے الگ تو ہو جائے گی ، لیکن سوال یہ ہے کہ کئی سال تک کالعدم رہنے والی بیداری کی یہ تحریک ایک مرتبہ پھر ماضی کی یادیں دہرانے جا رہی ہے؟کیا یہ مصرمیں اپنی ہم خیال اخوان المسلمون کے انجام سے دوچار ہونے جا رہی ہے؟یہ وہ سوال ہیں جو النہضہ کی قیادت سے بھی پوچھے جا رہے ہیں۔گوکہ خلیجی میڈیا تیونس کے حوالے سے اپنا ایک مخصوص انداز فکر رکھتا ہے مگر اخبار’’گلف نیوز‘‘ نے اسی نوعیت کے سوالوں کے جواب ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ کے عنوان سے شائع ایک رپورٹ میں دیے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ ’’مصرکی اخوان المسلمون اور تیونس کی النہضہ بنیادی طورپر ایک ہی سرچشمے کی دو شاخیں ہیں، دونوں کو تاریخ میں پہلی بار اقتدار ملا۔ اخوان اپنے غیر لچک دار رویے کے باعث اپنے انجام کو پہنچ چکی لیکن النہضہ نے اس کے بدتر انجام سے سبق سیکھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک کے سربراہ علامہ راشد الغنوشی نے تین ہفتوں کے اندر اندر حکومت سے سبکدوشی کا فیصلہ کرکے مستقبل میں بننے والی کسی بھی مخلوط حکومت میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔

النہضہ کے لیے ایک خوش کن خبر یہ بھی ہے کہ تیونس میں اسے مصر جیسی فوج کی ٹکر کا خوف نہیں، کیونکہ فوج سیاسی دیگ میں ہاتھ ڈالنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی اس پوزیشن میں ہے۔ یوں تیونس کے سیاسی مستقبل کا منظرنامہ سوائے مخلوط حکومت کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ اخبار نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ تیونس میں النہضہ جیسا عوامی قد کاٹھ رکھنے والی کوئی جماعت بھی نہیں۔ اپوزیشن کا اتحاد دراصل تانگہ پارٹیوں کا ایک گروپ ہے۔ ان لوگوں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہوںنے عوامی طبقات کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، نیز انہیں غیرمسلم ملکوں بالخصوص فرانس ،اٹلی اور امریکا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسی بیرونی حمایت کے بل بوتے پرنیشنل سالویشن فرنٹ النہضہ کو اقتدار سے الگ کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔

تیونس کے عربی روزنامہ’’الشروق‘‘ کے زیراہتمام موجودہ سیاسی صورت حال پرہونے والے سیمینار میں مقررین نے ملک کو سیاسی طورپر ایک ’’بیمار ریاست‘‘ قرار دیا اور کہا کہ زین العابدین بن علی سے گلو خلاصی جس مقصد اور جس مرض سے نجات کے لیے کی گئی تھی، وہ مرض نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ اس میں مزید شدت آچکی ہے۔ ایک تجزیہ نگارحسین العباسی نے استفسار کیا کہ اگر ملک میں جمہوریت ہی بہتر نٖظام ہے تو اپوزیشن جماعتیں ایک جمہوری حکومت کے خلاف کیوں سرگرم ہیں۔ اصل مرض یہ نہیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ معاشرے میں عدم برداشت کا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جو جہاں بھی ہوگا وہاں نہ سیاسی استحکام آسکتا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ ہرگروپ کا اپنا دین، اپنا طرز حکومت و سیاست اور اپنا نظریہ جمہوریت ہے اور ہر ایک اسے مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تویکے بعد دیگرے انقلاب برپا ہوتے رہیں گے۔تیونسی سماج میں عدم برداشت گویا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔

حرکۃ النہضہ اندرونی انتشار کا شکار؟

رواں سال کے اوائل میں وزیراعظم حمادی الجبالی کے استعفے کے بعد سے اب تک ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک النہضہ اندرونی طورپر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ جماعت کے اندر ایک طبقہ فکر ایسا موجود ہے جو اکتوبر2011ء میں النہضہ کا حکومت بنانے کا مخالف تھا۔ اس دھڑے کا خیال تھا کہ ما بعد انقلاب کوئی بھی پہلی حکومت زیادہ دیرنہیں چل سکے گی۔ النہضہ کو اپوزیشن میں رہ کر انتظار کرنا چاہیے۔ حکومت بنانے کی صورت میں ملک میں ہونے والے تمام فسادات کی ذمہ داری جماعت پرعائد کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ جولائی میں شدت پسندوں کے حملے میںاپوزیشن کے دبنگ رہ نما محمد البراہیمی کے قتل کی ذمہ داری بھی النہضہ کے حامیوں پرعائد کی گئی۔ ملک میں فرقہ واریت کی بڑھتی لعنت پرالنہضہ کی خاموشی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ علماء کے مطالبات پرکا ن نہ دھرنا الہنضہ کے لیے مہنگا پڑا۔ چنانچہ تحریک کے اندر موجود ناراض گروپ کا خیال ہے کہ حکومت نہ بنانے کامشورہ درست تھا۔ حکومت تشکیل دے کر النہضہ نے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔

مبصرین النہضہ کی صفوں میں پائی جانے والی اس مختلف الخیالی کو جماعت کی تقسیم قرا ردیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں تحریک النہضہ کے تخم سے ایک نئی جماعت وجود میں آسکتی ہے، جو موجودہ النہضہ کی نسبت لبرل اور سیکولرطبقات کے لیے زیادہ قابل قبول ہوگی۔

منتخب حکومت کی برطرفی مصری فوج کے گلے کی ہڈی بن گئی

مصرمیں تین جولائی 2013ء کو فوج کے ہاتھوں اخوان المسلمون کی منتخب آئینی حکومت کی برطرفی کے بعد حالات بہتر کے بجائے مزید ابتر ہو رہے ہیں۔ جن لوگوں نے محمد مرسی اور ان کی جماعت کو اقتدار سے الگ کرنے کے خلاف بغاوت کی تحریک برپا کی اور فوج کو خوش آمدید کہا تھا وہ اب منہ چھپاتے پھرتے اور اپنے کیے پرنادم دکھائی دیتے ہیں۔ انقلابیوں سے بھی زیادہ پریشانی فوج کے لیے بنی ہوئی ہے۔ ایک منتخب اور جمہوری حکومت کی تمام ترخامیوں کے علی الرغم ملک معاشی طورپر اتنی زبوں حالی کا شکارنہیں تھا جتنا اب ہوا ہے۔ عالمی اقتصادیات سے متعلق تحقیق کرنے والے سعودی ادارے’’کریڈٹ سوئس‘‘، برطانوی اخبار’’گارڈین‘‘ اور فنانشیل ٹائمز‘‘ کی رپورٹس میں مصر میں فوجی حکومت کے تین ماہ میں معاشی بحران سے متعلق کم و بیش ایک ہی جیسے اعدادو شماربیان کیے گئے ہیں۔

ان اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ تین ماہ کے دوران مصری معیشت کو چھ ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ نے جہاں ایک جانب ملک کی آمدنی کے سب سے بڑے شعبہ’’سیاحت‘‘ کو ٹھپ کردیا ہے، وہیں صنعت اور تجارت کی بربادی کے ساتھ بیرون ملک زر مبادلہ کی آمدن میں چالیس فی صد کمی ہو چکی ہے۔ ملک میں موجود سرمایہ کار بھاگ چکے ہیں اور عبوری حکومت کا تمام بوجھ بھی فوج کے کندھوں پرآن پڑا ہے۔ فوج صرف اپنی انا اور ڈھٹائی پرڈٹی ہوئی ہے ورنہ معاملات کو سدھارنے میں وہ بھی ناکام ہو چکی ہے۔ جامعہ الازھر سمیت ملک کے وہ تمام ادارے جو فوجی حکومت کی حمایت میں فرنٹ لائن پر تھے آج وہی فوجی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ملک کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازھر کے علاوہ اسکندریہ یونیورسٹی، جامعہ منصورہ، جامعہ عین الشمس، جامعہ بنی سویف اور جامعہ حلوان وہ بڑی اورنمائند ہ درسگاہیں ہیں جو اب فوج کے خلاف ایک نیا محاذ بنتی جا رہی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیںجو تین ماہ قبل جنرل عبدالفتاح السیسی کی تصویریں چومتے اور ان کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ ابھی تین ماہ گزرے ہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے۔ کل کو فوج زندہ باد کے نعرے لگانے والے اب السیسی مردہ باد کے نعرے بلند کرتے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ جامعات کے طلباء کا مشترکہ نعرہ’’سینے پر گولی کھائیں گے، آمریت ماربھگائیں گے‘‘ دلچسپ ہی نہیں بلکہ فوج کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے۔

حکومتی ترجمان اخبار’’الاھرام‘‘ کا تجزیہ متوازن نہ بھی قرار دیا جائے مگر حالات کو سمجھنے میں ضرور مدد گار ہے۔ اپنے تازہ اداریئے میں اخبار نے عبوری حکومت پر کھل کرتنقید کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ گویا عوامی حلقوں کے بعد اب ابلاغی حلقوں میں بھی وہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں جو شائد فوجی آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہوں گی۔ االاھرام کا ماننا ہے کہ مصری فوج اور عبوری حکومت کے لیے لاء اینڈ آرڈر سے زیادہ غربت، بے روزگاری اور تباہ حال معیشت سب سے بڑے مسائل ہیں۔ مرسی حکومت کی برطرفی کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ ملک کی خراب معاشی صورت حال بھی تھی مگرعبوری حکومت نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ پچھلے تین سال کے دوران مصرمیں بے روزگاری کی شرح میں 30 فی صد اضافہ ہوچکا ہے، فی کس آمدنی نصف رہ گئی ہے۔17 فی صد لوگوں کو دوقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔ مصری معیشت کو سنبھالادینے میں اس وقت اگرکوئی ملک کردار ادا کر رہا ہے تو وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ اگر یہ تھوڑا سا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیں توعبوری حکومت دنوں میں ختم ہوسکتی ہے۔

حالات کے تجزیے سے یہ سمجھنا آسان ہو رہا ہے کہ فوج نے اقتدارتو سنھبال لیا مگر وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی ہے۔ فوج کے اندر بھی ایسی آوازیں ابھر رہی ہیں جو فوج کے مورال کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون سے کم سے کم نرم شرائط پر بات چیت کی حمایت کرتی ہیں۔

کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا مشغلہ محض وقت کا ضیاع ؟

ان دنوں اقوام عالم پر شام کے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کابھوت کچھ زیادہ ہی سوار ہوچکا ہے۔ یہ مشغلہ بہت سے لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ضرور ہوگا مگراس سارے شور و غوغا میں شام کا اصل تنازعہ ایک مرتبہ پھر پس منظرمیں چلا گیا ہے۔ بشارالاسد اور ایران کے ساتھ روس اور چین کی بھی یہی خواہش تھی۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ عالمی برادری نے کیمیائی ہتھیاروں کا معاملہ چھیڑ کرشام میں جاری خانہ جنگی کی فائل داخل دفتر کردی ہے۔ یہ بشارالاسد کی فتح ہے۔ انہیں حالات پرقابو پانے یا کم سے کم اپنی سانسیں بحال کرنے کے لیے مزید وقت مل گیا ہے۔

بحری بیڑوں کی آمد کا واحد مقصد صرف شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا ایشو تھا؟ یقینا یہ بھی ایک بڑا اور سنگین معاملہ ہے مگر کیا بشارالاسد کے ہاتھ سے آلہ قتل چھین لیا گیا ہے۔ ہتھیاروں کی تلفی کے ساتھ ہی شامی عوام کے مطالبات پورے ہوگئے ہیں، کیا شام کے عوام نے اسی لیے بغاوت کی تحریک برپا کی تھی کہ صدر اسد کے پاس بڑی مقدار میں کیمیائی اسلحہ موجود ہے۔

اس وقت یہ سوال عالمی میڈیا پربھی اٹھایا جا رہا ہے۔ امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ عالمی طاقتوں بالخصوص بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی خواہاں قوتوں سے جس نوعیت کی سفارتی مساعی کی توقع تھی، وہ اس میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ موجودہ حالات میںبشارالاسد ہی فاتح اور کامیاب ٹھہرے ہیں۔ انہیں سانس لینے کے لیے مزید وقت بھی مل گیا اور انہوں نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں کے مشغلے میں الجھا دیا ہے۔ یہ کام دنوں اور ہفتوں میں مکمل ہونے والا نہیں ہے جس میں دو سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اگرکیمیائی ہتھیاروں کی تلفی ہی ترجیحی مسئلہ ہے تو انقلابیوں کے حامی ممالک بھی اس وقت تک بشارالاسد کی حکومت کو قبول کرنے پر مجبور ہیں جب تک کہ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کااونٹ کسی ایک کروٹ بیٹھ نہیں جاتا۔ عالمی برادری کی سفارت کاری کی ناکامی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سال سے دوسرے جنیوا کنونشن کے بارے میں دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن تادم تحریر اس کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا جاسکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔