فنِ موسیقی زوال کا شکار کیوں؟

ظفر سجاد  اتوار 26 جنوری 2020
بدلتی روایات اور مادیت فن موسیقی پر غالب آ چکی۔ فوٹو: فائل

بدلتی روایات اور مادیت فن موسیقی پر غالب آ چکی۔ فوٹو: فائل

 کسی بھی ملک اور معاشرے کی اصل پہچان اس کی ثقافت، تہذیب، رسم ورواج، فنون لطیفہ، علاقائی کھیل اور قدیم ورثہ ہوتا ہے۔

برصغیر میں موسیقی یہاں کے باشندوں کی رگوں میں گردش کرتی ہے، یہاں توموسیقی، قوالی کی شکل میں مذہب سے بھی واستہ ہوچکی ہے، عوام موسیقی کے اثرات فوراً قبول کرتے ہیں مگر پاکستان میں اصل فن موسیقی ناقدری کا شکار ہو رہا ہے، مُدھر تانوں کی جگہ ہیجان انگیز میوزک لے رہا ہے، ثقافتی تبدیلی کی زد میں موسیقی بھی آچکی ہے جس کا خمیازہ بہر حال کبھی بھی بھگتنا پڑے گا۔

آج بھی پرانے گیت،گانے، غزلیں، قوالیاں، کافیاں سُن کر روح پر سُرور طاری ہو جاتا ہے، موسیقی، شاعری اور آواز رگ و پے میں اُترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ ہر چیز اپنے عروج کی جانب جا رہی ہے۔ مگر پاکستان میں شائد یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تقریباً ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے، خصوصاً موسیقی کا شعبہ بّری طرح زوال پذیر ہے۔ آج کا میوزک روح پر سُرور طاری نہیں کرتا بلکہ طبیعت میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔

جب یورپ میں ’’ پوپ میوزک ‘‘  پاپولر ہو رہا تھا تو میوزک سے تعلق رکھنے والے وہاں کے مستند افراد کا کہنا تھا کہ ’’ پوپ میوزک ‘‘  اور  ’’ بریک ڈانس ‘‘  یورپ کے ’’ فر سٹر یٹڈ ‘‘  نوجوانوں کے اضطراب، فر سٹیشن اور ڈپریشن کو کم کرنے کا باعث بن رہا ہے، مائیکل جیکسن کے گانوں اور بریک ڈانس نے نوجوان نسل کو بہت حد تک متاثر کیا تھا اس سے پہلے مشہور گروپ  ’’بونی ایم ‘‘  بھی اپنے میوزک اور ہلکے پھلکے ’’ بریک ڈانس ‘‘  کی وجہ سے بہت پاپولر ہوا تھا مگر مائیکل جیکسن نے بریک ڈانس کو عروج پہنچایا، یورپین ماہر نفسیات نے ’’ بریک ڈانس ‘‘  کو نوجوانوں کی اضطرابی کیفیت کا علاج قرار دیا۔ مگر ماہرین موسیقی نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس نئے چلن سے موسیقی کی اصل روح مجروح ہورہی ہے۔ آ ہستہ آہستہ پاکستانی موسیقار اور گلوکار بھی جِدت کی اس لہر میں بہہ نِکلے، موسیقی سے موسیقیت رخصت ہوتی گئی، نئے آلات موسیقی کی مدد سے جو موسیقی ترتیب دی گئی، وہ مغربی موسیقی کا چربہ تھی یا اُس موسیقی سے متا ثر ہو کر دُھنیں بنائی گئیں مگر اس جِدت میں اصل موسیقی ہم سے دُور ہوتی گئی۔

نوجوان نسل بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ موسیقی دل کو چھونے والی یا سدا بہار نہیں ہے، کوئی بھی میوزک البم ، گانا، گیت یا قوالی چند دنوں یا چند ماہ کیلئے ’’ ہٹ‘‘ ہوتا ہے،  اس کے بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں کوئی بھی نئی چیز آتے ہی پُرانی چیز بالکل فراموش کردی جاتی ہے، اتنے زیادہ آلات ِ موسیقی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود جدید موسیقی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہے، شائد اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اب ’’ چل چلاؤ‘‘  اور ’’نقل ‘‘  سے کام چلایا جا رہا ہے، آ ج بھی تقریباً ہر پاکستانی کو کچھ نہ کچھ پُرانے گانے، گیت، غزلیں، کافیاں، قوالیاں یا لوگ ضرور یاد ہوتے ہیں۔

ساز اور آواز کسی بھی معاشرے میں بہت اہم مقام اور پہچان رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اچھی شاعری اور موسیقی دل و دماغ اور روح کو سکون اور تازگی بخشتی ہے، فرسٹر یشن اور ڈپریشن کو ختم یا کم کرتی ہے، شعبہ موسیقی کے زوال پذیر ہونے کی بے شمار وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ’’ مادہ پرستی‘‘  ہے پہلے لوگ اس کام کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔انھوں نے اپنی عمریں اس فن کو سیکھنے اور سکھانے میں گزاردیں، وہ اس کام کو ہر قسم کی ستائش اور صلے سے بے پرواہ ہوکر کرتے تھے، مگر اب پیسہ کمانے کی دوڑ میں سب شامل ہو رہے ہیں تخلیق کی بجائے وہ کام کیا جا رہا ہے کہ جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل ہو سکے۔

میرا ذاتی طور پر فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے لاتعداد افراد سے گہرا تعلق رہا ہے، ان افراد کے ساتھ لاتعداد نشستیںرہی ہیں، غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری جب لاہور آتے تھے تو عموماً انار کلی بازار میں واقع دہلی مسلم ہوٹل میں قیام کرتے تھے، وہ عموماً قوالی کے پروگرامز کے سلسلے میں آتے تھے ان کی ٹیم ( ہمراہی ) بھی ساتھ ہوتی تھی۔ اسی ہوٹل میں کتھک ڈانس کے ماہر مہاراج کتھک( غلام حسین کتھک) بھی مستقل طور پر رہائش پذیر تھے، مہاراج کتھک کے ساتھ میرا دیرینہ تعلق تھا، انکا کمرہ ہوٹل کے فرنٹ والے حصے میں تھا۔

فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے افراد انکے پاس آتے تھے، یہ محفل رات گئے تک جمی رہتی۔  مہاراج کتھک شاعری ، مصوری ، موسیقی اور دوسرے شعبوں میں بھی دسترس رکھتے تھے، جب وہ گفتگو کرنے پر آتے توگھنٹوں بولتے جاتے، جب غلام فرید صابری اور مقبول صابری دہلی مسلم ہوٹل ٹھہرتے تو میری انکی ساتھ ملاقات ضرور رہتی، میں نے یہ بات بطور خاص محسوس کی وہ اپنے فن قوالی، موسیقی اور شاعری پر بہت زیادہ توجہ دیتے بلکہ اُنکا ہر لمحہ اس فن کی خدمت میں صرف ہو رہا تھا۔ وہ فن کی باریکیوں میں کھوئے رہتے تھے، ایک دفعہ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’ فن موسیقی میں شاعری، موسیقی، آواز اور انداز بہت اہمیت رکھتا ہے ایک چیز کی بھی کمی رہ جائے تو متاثر کُن ماحول نہیں بنتا۔‘‘   وہ کہنے لگے کہ ’’ وہ شاعری اور موسیقی پر خاص توجہ دیتے ہیں مگر جب وہ قوالی پیش کرتے ہیں تو وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو کر ’’ عشق مجازی ‘‘اور’’ عشق حقیقی ‘‘ میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ کیفیت سننے والوں کو بھی محسوس ہوتی ہے‘‘ اس نِشست میں انھوں نے بہت ساری باتیں کیں،آخر میں انھوں نے کہا کہ ’’ اگر کوئی فرد بھی یہ چاہتا ہے کہ فن کے حوالے سے اس کا نام امر ہوجائے تو اپنے آپ کو فن کے حوالے کردے، اس میں ڈوب جائے، ستائش و آسائش کی پرواہ نہ کرے۔ فن قسمت والوں کو مِلتا ہے پیسہ ہر کسی کو مِل جاتا تھا۔‘‘

پُرانے گلوکاروں میں ایک وصف مشترک تھا کہ انکی ساری توجہ فن کی جانب مرکوز ہوتی تھی۔ 1980 ء کی دھائی سے میرا ذاتی تعلق فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے لاتعداد فنکاروں سے رہا، ہمارے گھر میں ہونے والے ہر فنکشن میں یہ فنکار ضرور شریک ہوتے تھے۔ ہم لوگ گھنٹوںنجی محفلوں میں گفتگو کرتے، یہ لوگ فن موسیقی سے حقیقی محبت کرتے تھے، پرویز مہدی مرحوم میں بھی عجزو انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میں نے جب بھی ان سے کسی گانے کی فرمائش کی تو انھوں نے بِلا تامل یہ فر مائش پوری کی، وہ کہتے تھے کہ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں سُریلا اسی لئے بنایا ہے کہ ہم دکھی دِلوں کو تازگی دیں۔‘‘  پٹیالہ گھرانے کے اُستاد اختر علی خان اکثر و بیشتر شام کے وقت میرے پاس آ جاتے، انکا کہنا تھا کہ ’’ موسیقی ایک ایسا سمندر ہے کہ جسکی تہہ تک پہنچنا تو دور کی بات ہے سطح آب پر تیرنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے‘‘  ایک دفعہ میں نے انھیں کہا کہ ’’ آپ یہ کہتے ہیں کہ موسیقی کی تہہ تک کوئی اُتر ہی نہیں سکتا، دوسری طرف نئے گلوکار اپنے آپ کوموسیقی کی معراج کہتے ہیں ‘‘ یہ سُن کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسے، کہنے لگے! ایسا صرف وہی سوچ سکتا ہے کہ جِسے اس فن کا عِلم ہی نہ ہو۔ ’’ کہنے لگے ’’ سریلا ہونا اور چیز ہے، ہِٹ ہونا بھی اللہ کی طرف سے ہے مگر فن موسیقی کو سمجھنا ایک بالکل الگ چیز ہے۔‘‘

مشہور کامیڈ ین الیبلا مرحوم، نشیلا مرحوم، شوکی خان مرحوم کی وجہ شہرت اگرچہ کامیڈی رہی ہے مگر یہ فنکار بہت سُر یلے بھی تھے، جب یہ اپنی گائیکی کا جادو جگاتے تو سامعین مبہوت رہ جاتے مگر ان کامیڈی فنکاروں نے اپنے آپ کو گلوکار کے طور پر روشناس نہیں کرایا۔ اداکارالبیلا سے میں نے کئی دفعہ کہا کہ وہ اپنی پہچان موسیقی کے حوالے سے بنائیں تو وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ فن ِ موسیقی ایک سمندر ہے جس میں غوطہ لگانا ماہرین کا ہی کام ہے، مگر یہ فنکار جہاں بھی اپنے فن یعنی کامیڈی کا مظاہرہ کرتے وہاں گاتے بھی تھے، مگر اپنے آپ کو گلوکار نہیں کہلوایا۔ اب تو اس شعبے میں زیادہ تر ایسے لوگ چھا چکے ہیں کہ جو موسیقی کو چھوڑ کر محض شور شرابا اپنا رہے ہیں۔

اصل موسیقی کے زوال کی وجہ

میڈیا بھی ہے:عنایت عابد

معروف گلوکار عنایت عابد کو فن موسیقی سے وابستہ ہوئے تقریباً پچاس برس گزر چکے ہیں انھوںنے موسیقی کی تعلیم اپنے چچا فقیر محمد عابد سے حاصل کی جو ریڈیو پاکستان ملتان میں بطور میوزک ڈائریکٹر خدمات سر انجام دے رہے تھے، جب عنائیت عابد سے یہ سوال کیا گیا کہ اب فن موسیقی زوال پذیر کیوں ہے؟ تو انھوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب اصل موسیقی کو سمجھنے والے اور اصل موسیقی سے محبت کرنے والوں کی کمی ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا موسیقی ایک ایسا فن ہے کہ جسے سمجھنے میں ہی کئی سال لگ جاتے ہیں،پہلی موسیقی اور موجودہ موسیقی میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے اس فن میں موسیقی کو سمجھنے والوں کو عزت اورعروج مِلتا تھا اب تیز میوزک کی مدد سے وقتی ہیجان پیدا کرنے والے وقتی طور پر پاپولر ہوتے ہیں، پہلے زمانے میں گلوکار سب سے پہلے کلاسیکی موسیقی سیکھتے تھے، کیونکہ موسیقی کی بنیاد ہی کلاسیکی موسیقی ہے۔

گائیکی میں سُرکی پہچان بہت ضروری ہے اور سُر کی پہچان مُستند اُستاد سے سیکھنے سے آتی ہے اگر کسی کی آ واز اچھی اور اُسے گانے کا شوق ہو تو اُسے راگ اور راگنیوں سے سیکھنا شروع کرنا چاہیے، راگ اور راگنیاں ’’ٹریک‘‘  ہوتے ہیں کہ آپ نے ان ’’ٹریکس‘‘ پر چلنا ہے، آواز اچھی ہو تو اُستاد راگ بھیروی اور راگ ایمن سے شروع کرواتے ہیں، راگ بھیروی چوبیس گھنٹے کا راگ ہے اسے سدا سہاگن بھی کہتے ہیں اسے ہروقت گایا جا سکتا ہے، اگر راگ اپنے وقت پر گایا جائے تو اسکا صحیح تاثر قائم ہوتا ہے وگرنہ ’’ بے وقت کی راگنی‘‘  کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی، برصغیر کی موسیقی کی انفرادیت یہ ہے کہ اسکا تعلق چاند اور سورج سے ہے۔ ہر راگ اور راگنی کا مخصوص وقت ہے، دن گزرنے اور رات ڈھلنے کے ساتھ راگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔

گلوکار عنایت عابد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کلاسیکل گلوکاروں اور غزل گائیگ کا جوڑ پوری دنیا میں نہیں ہے، اُستاد سلامت علی خان، اُستاد نزاکت علی خان، اُستاد امانت علی خان، اُستاد فتح علی خان، ملکہ موسیقی روشن آرابیگم، اُستاد شریف پونچھ والے ستار نواز، اُستاد شوکت حسین طبلہ نواز اور پلے بیک گلوکاروں میں شہنشاہ ِغزل مہدی حسن، سلیم رضا، منیر حسین، احمد رشدی ، مسعود رانا اور کئی نامور گلوکاروں کا جوڑ دنیا میں نہیں ہے، ان اُستادوں نے سُر اور تال کا وہ حسین ملاپ پیدا کیا کہ جس نے برصغیر میں موسیقی کو امّر کردیا۔

خواتین میں ملکہ ترنم نور جہاں، غزل میں فریدہ خانم، اقبال بانو اور عابدہ پروین کا ثانی کہاں مِلتا ہے ؟ موسیقی کے ان درخشاں ستاروں نے فن ِ موسیقی پر عبور حاصل کیا اور فن کو لافانی بنادیا، اب نئے آنے والے گلوکاروں اور موسیقاروں کو فن پر عبور تو کیا ابتدائی تعلیم کا بھی علِم نہیں ہے۔ غلط میوزک اور بے سُرے گلوکاروں کے ’’فن‘‘  کو دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے، دوسرے شعبوں کی طرح موسیقی کا شعبہ بھی تنزلی کا شکار ہے، ماسٹر خورشید انور، اے حمید، ماسٹرعنائت حسین، رشید عطرے، نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ اور اس طرح کے لوگ اب کہاں ہیں؟ آ ج کے دَور میں ریاضت نظر نہیں آتی، نئے گلوکاروں کی گا ئیکی میں روکھا پن ہے، اُن سے سُر ہی نہیں لگتا، زیادہ تر بے سُرے ہیں ۔ موسیقی کوئی بھی ہوچاہے پوپ میوزک ہی ہو، موسیقی کے بنیادی اُصولوں پر چلنا انتہائی ضروری ہے وگرنہ وہ موسیقی نہیں ڈھول پیٹنا ہے۔ موسیقی الگ ہے ڈھول پیٹنا الگ  چیز ہے۔

گلوکارعنایت عابد کا کہنا ہے کہ موسیقی کے زوال کی بہت بڑی وجہ موجودہ میڈیا بھی ہے وہ اس بات کا خیال رکھے بغیر جنہیں وہ میوزک کے حوالے سے اپنے چینلز میں پیش کر رہے

ہیں انھیں اس فن پر عبور بھی حاصل ہے کہ نہیں یا وہ اس فن کو سمجھتے بھی ہیں کہ نہیں، میڈیا کی وجہ سے اصل فنکاروں، موسیقاروں اور اُستادوں کی بہت حوصِلہ شکنی ہو رہی ہے، اب کمرشل ازم کا دور ہے، جو چیز چمکتی ہے لوگ اُسی کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں، اُستاد نصرت فتح علی خان نے لوگوں کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے موسیقی کو نئی جہت دی مگر سُر اور تال کو پکڑ کر کام کیا، یہ ہوتا ہے فن کی جِدت میں بھی آپ اصولوں کے راستوں کو نہ چھوڑیں۔

گلوکارعنایت عابد نے اس تاثر کو بالکل غلط قرار دیا کہ کلاسیکی گائیکی یا کلاسیکل موسیقی بہت مشکل ہے راگ اور راگنیاں مشکل ہیں،کوئی راگ یا راگنی مشکل نہیں ہے صرف شوق، لگن اور محنت کی بات ہے اگر آپ اس فیلڈ میں محنت نہیں کرنا چاہتے تو اس شعبے پر رحم کھائیں کوئی اور کام کرلیں۔ فن موسیقی کا حلیہ یا شکل نہ بگاڑیں۔

گلوکارعنایت عابد نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس فن کی مکمل سرپرستی کی جائے وگرنہ اصل فن کا تذکرہ شائد کتابوں میں ہی مِلے گا، ہر شعبے کی طرح دونمبر لوگ اس شعبے میں بھی قابض ہو رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ جو لوگ کلاسیکل موسیقی کو مشکل سمجھتے ہیں میرے پاس آئیں میں انھیں سکھاتا ہوں، اگر رجحان ہے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں، اب صرف’’ آ واز اور شکل ‘‘ کے بل بوتے پر اپنے آ پ کو فنکار کہلانے کا رواج چل نکلا ہے۔

بر صغیر کے عوام اور موسیقی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں

پرائیڈ آف پرفارمنس طبلہ نواز گلوکار

اُستاد شبیر حسین جھاری

برصغیر کے معروف طبلہ نواز شبیر حسین جھاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق موسیقی کے معروف گھرانے سے ہے اُن کے والد گلوکار محمد علی خان صاحب کپور تھلہ گھرانے کے اُستاد ولی محمد خان کے شاگرد تھے، طفیل نیازی مرحوم بھی اُستاد ولی محمد خان کے شاگرد تھے، میرے والد مرحوم کو کلاسیکل گائیکی پر عبور حاصل تھا مگر صوفیا نہ کلام انکی وجہ شہرت بنا، میں نے چار سال کی عمر میں گائیکی سے اپنے فن کا آغاز کیا یعنی سیکھنا شروع کیا، والد صاحب کی وجہ سے میرا رجحان بھی صوفیانہ کلام کی طرف زیادہ تھا، گائیکی کی تعلیم حاصل کرنے کے  دوران اندازہ ہوا کہ طبلہ فن موسیقی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ طبلہ بھی سیکھنا شروع کیا،  میرے بھائی  اُستادطاری خاں صاحب بھی طبلہ نوازی کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے، میں نے ابتدائی طور پر طبلہ نوازی کی تعلیم اپنے بڑے بھائی اُستاد طاری خاں سے حاصل کی پھر طبلہ نوازی میں پاکستان کے پہلے پرائیڈآف پرفارمنس اُستاد میاں شوکت حسین خاں صاحب کی شاگردی اختیار کی، خاں صاحب طبلہ نوازی میں ایک سمندر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اُستاد شوکت حسین خاں برصغیر کے لیجنڈ طبلہ نواز میاں قادر بخش صاحب کے شاگرد تھے، ان کے شاگردوں کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے بھی زائد ہے، اُستاد اللہ رکھا (طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین کے والد) اُستاد طافو بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں، میں اور میرے بھائی اُستاد طاری حسین اُستاد شوکت حسین سے طبلہ سیکھتے رہے، اس فن کو سیکھتے ہوئے نجانے کتنے ماہ وسال گزرگئے  چار سال کی عمر میں سیکھنا شروع کیا اب میری عمر تقر یباً ساٹھ سال ہے، اب بھی اپنے آپ کو موسیقی کا ادنیٰ شاگرد خیال کرتا ہوں۔ میں پاکستان کے ہر نمایاں گلوکار کے ساتھ سنگت کرچکا ہوں۔ جن میں استاد مہدی حسن، استاد نصرت فتح علی خان، استاد سلامت علی خاں، استاد نزاکت علی خاں، طفیل نیازی، استاد حامد علی خاں، استاد غلام علی خان، استاد فدا حسین، اسد امانت علی خان، استاد اختر علی خان، امتیاز علی خان، ریاض علی خاں کے علاوہ تقر یباً تمام گلوکاروں کے ساتھ سنگت (پرفارم)  کر چکا ہوں ، پاکستان میں فن موسیقی کے اتار چڑھاؤ بہت غور سے دیکھے، ہمارا گھرانہ فن موسیقی سے محبت کرنے والا گھرانہ ہے ہم نے اپنا ہر لمحہ فن کیلئے وقف کیا ہے، موسیقی کا برصغیر کے عوام کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے، موسیقی عوام کی رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سلسلہ چشتیہ کے بزرگانِ دین خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے بھی اس رجحان کو محسوس کیا اور قوالی کے ذریعے عوام کو اسلام کی جانب راغب کیا گیا، سلسلہ چشتیہ کے بزرگانِ دین خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ،حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور حضرت امیر خسرو ؒ ( جنہوں نے کئی راگ اور ساز بھی ایجاد کئے ) نے فن قوالی کو بہت آگے بڑھایا، سازوں کے ساتھ بھجن گانا ہندو مت کی بنیاد ہے۔ موسیقی برصغیر کے عوام کی زندگیوں کا بنیادی جّزو رہا ہے، آپ کچھ بھی کر لیں، موسیقی کو عوام کے خون سے نِکالا ہی نہیں جا سکتا، پھر اسکا حل یہی ہے کہ جو طریقہ بزرگانِ دین نے اختیار کیا کہ عارفانہ کلام کو موسیقی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔

اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کی جائے کیونکہ عام لوگ موسیقی کے ساتھ گائے جانے والے عارفانہ کلام کو بہت جلد سمجھ بھی لیتے تھے اور اسکا اثر بھی قبول کرتے تھے، قوالی کے ساتھ کلاسیکل گائیکی اور کلاسیکی موسیقی کا دور بھی شروع ہوا، موسیقی کے قاعدے قانون متعین ہوگئے، راگ اور راگنیاں موسیقی کی بنیاد قرار پائیں یعنی گانے کے’’ ٹریک ‘‘  متعین ہوگئے کہ شاعری کو ان ’’ٹریکس‘‘ کے اندر گایا جائے تو اسکا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہر چیز کا قاعدہ قانون ہی اس کی بنیاد ہوتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ فن موسیقی بھی ترقی کرتا رہا، پاکستان بننے کے بعد فنکار بھی تقسیم ہوگئے، بہت سارے نامور فنکار بھارت میں رہ گئے کہ وہاں اس فن کی پذیرائی زیادہ تھی مالی و معاشی معاملات بھی وہاں بہتر تھے۔ فن کی ترقی کیلئے یہ بات اہم ہے کہ فنکار کو مالی دشواریوں اور دوسری پریشانیوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ ’’ تخلیق‘‘ کیلئے مکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر لاتعداد فنکاروں نے پاکستا ن کو ترجیح دی اور یہاں فن کی خدمت کرتے رہے۔

اُستاد شبیر حسین جھاری نے کہا کہ میں نے فن موسیقی کے تمام نشیب و فراز کا عمیق نظروں سے جائزہ لیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے اس فن کی اس طرح سرپرستی نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی، ایک بات طے ہے کہ آپ پاکستانی عوام کے رگ وپے سے موسیقی نکال ہی نہیں سکتے، یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے، اگر آپ پاکستانی فنکاروں کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو ان میں بددلی بڑھ جائے گی، بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ بھارتی موسیقی اور گلوکاری کیلئے میدان خالی کیا جا رہا ہے، حکومت کی طرف سے دیا جانے والا پرائیڈآف پرفارمنس محض ’’لولی پاپ‘‘ ہے۔ اس وقت موسیقی کی جہت تبدیل ہو رہی ہے، کلاسیکل موسیقی اور گائیکی ہمارا قومی اثاثہ و قومی ورثہ ہے،اسکی ترقی ہونی چاہیے، بامقصد شاعری اچھی موسیقی اور خوبصورت آواز کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔

اُستاد شبیر حسین جھاری کاکہنا ہے کہ عارفانہ کلام کے علاوہ نظریاتی شاعری کے ذریعے بھی قوم کی زندگی میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، آج بھی  قومی ترانے ہماری قومی زندگی کا حصہ ہیں،  کیا آپ قومی ترانوں کو اپنی زندگی سے نکال سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو آج فن موسیقی کی حکومتی سر پرستی ہونی چاہیے، با قاعدہ ایک راہ متعین ہونی چاہیے، اگر حکومتی سرپرستی ہو تو باقاعدہ ایک لائن آف ڈائریکشن کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ میں بے شمارممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکا ہوں، گلوکاروں کے ساتھ بھی اور سولو پرفارمنس کا بھی مظاہرہ کر چکا ہوں، ہر ملک سے بہت پذیرائی ملی، ہماری موسیقی کو پاکستان کی پہچان قرار دیا گیا، ایک سوال کے جواب میں استاد شبیر حسین جھاری نے کہاکہ عوام کی روحانی و ذہنی تربیت کیلئے میں نے اب قوالی کا گروپ بنایا ہے۔

صوفیانہ کلام کے ساتھ اچھا رسپانس ملا ہے بھرپور پذیرائی ملی ہے، مگر آخر میں ایک بات ضرور کہوں گا! کہ اگر حکومتی اداروں اور فن موسیقی کے شیدائیوں نے اس فن کی سرپرستی نہیں کی تو وہ لوگ آگے آجائیں گے کہ جو انٹرنیٹ سے فن موسیقی سیکھ کر عوام میں ہیجان و منفی جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے افراد دین سے دور ہوتے ہیں اپنے فن کے ذریعے لوگوں کے سفلی جذبات اُبھارتے ہیں، انھوں نے کہا کہ فلمی موسیقی الگ چیز ہے مگر ہمارے تمام آباؤ اجداد  تہجد گزار تھے، اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلتے تھے، قوالی کو تبلیغ کا ذریعہ سمجھتے تھے، عوام کو فلمی کمرشل اور اصل موسیقی کا فرق سمجھنے کی بھی ضرورت ہے، فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے کمرشل فنکاروں اور حقیقی فنکاروں میں فرق روا رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ موسیقی میں وقتی پسندیدگی کے ادوار آتے رہے ہیں مگر دوام اصل موسیقی کو ہی حاصل رہے گا مگر اس وقت حکومتی اداروں اور موسیقی کے دلدادہ افرادکی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

اُستاد شبیر حسین جھاری نے کہا کہ برصغیر کی موسیقی میں طبلہ بنیادی ساز ہے۔ اس کے بغیر سنگیت کا تصور نہیں ہے، مگر وطن عزیز میں طبلہ نواز کو اسکا حقیقی مقام حاصل نہیں ہے۔ زیادہ تر طبلہ نواز فاقہ مستی کا شکار ہیں، بظاہر انگلیوں سے تال نکالی جاتی ہے مگر اس میں پورے جسم کا زور لگ جاتا ہے، اوپری جسم کے تمام پٹھے کھنچ جاتے ہیں۔ اگر ساون بھادوں میں بھی طبلہ زیادہ دیر تک بجایا جائے تو جسم میں اتنی زیادہ گرمی پیدا ہوتی ہے کہ طبلہ نواز بیمار ہو سکتا ہے مگر اسے اسکا صلہ نہیں ملتا، انھوں نے کہا کہ میں فن موسیقی کے تمام نامور اُستادوں کے ساتھ عرصہ چالیس سال سے سنگت کر رہا ہوں، ہم اپنی طبلہ نوازی سے انکی گائیکی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

اُستادوں کو طبلے کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا ہے مگر وہ بھی قدر نہیں کرتے۔ موسیقی کو اگر پہلے جیسا عروج نہیں رہا، اسکی بنیادی وجہ وہ اُستاد بھی ہیں جو اپنا فن منتقل نہیں کرنا چاہتے، اگرکوئی شائق سیکھنے کیلئے آ جائے تو اُسے دس دس سال رگڑا دیتے ہیں، میں تو اپنے شاگرد وں کو صرف دس منٹ میں سبق یاد کروا دیتا ہوں، اور تین ماہ میں میوزک کی ابتدائی تعلیم سے مکمل روشناس کرواتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ فن موسیقی کو مزید زوال سے بچانے کیلئے میں نے میوزک اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ اصل موسیقی کو زندہ وجاوید رکھا جائے۔ خوش آواز گلوکاروں کو فن کی بنیاد سے روشناس کروایا جائے۔ سُر، تال اور لے میں ہم آ ہنگی پیدا کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے وہ فن کی خدمت کر رہے ہیں اور آ خری سانس تک کرتے رہیں گے۔

موجودہ دور میں ذاتی تعلقات فنی پختگی پر غالب آچکے ہیں:امانت علی

کلاسیکل گائیک امانت علی کا تعلق بھی استاد گھرانے سے ہے ۔ انکا خاندان صدیوں سے اس فن سے منسلک ہے انھوں نے کہا کہ کلاسیکل موسیقی ہی برصغیر کی موسیقی کی اصل بنیاد ہے مجھے اس فن کو سیکھتے ہوئے اکیس برس گزر چکے ہیں مگر اب بھی لگتا ہے کہ فن موسیقی کے سمندر میں پہلا قدم اُتارا ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے بی کام کیا ہوا ہے، تعلیم حاصل کرنے سے اندازہ ہوا کہ موسیقی بھی ایک مکمل حساب کتاب اور تر تیب ہے، فنانس کی تعلیم کی مانند موسیقی کے بھی بے شمار کلیئے اور اصول ہیں، ان اصولوں سے انخراف کرکے فن موسیقی میں قدم بھی نہیں رکھا جا سکتا، مگر اب اس میدان میں وہ افراد آ چکے ہیں کہ جنہیں فن کی ابجد کا پتہ نہیں مگر ان کی ’’پی آر ‘‘  یعنی میڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں جسکی وجہ سے وہ وقتی طور پر شہرت کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر ان کے فن کی بنیاد اور پائیداری نہیں ہے۔

میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ عام لوگ انکے فن کو فن کے طور پر نہیں بلکہ ہلہ گُلہ کے طور پر لیتے ہیں اور یہ صرف وقتی ’’ انجوائے منٹ ‘‘  یعنی وقتی سُرور ہے، آج بھی اصل موسیقی کی اہمیت اُسی طرح قائم ہے جو لوگ اس فن کو سمجھتے ہیں وہ اصل موسیقی ہی سیکھنے کی کوشش میں ہیں، تیز موسیقی بالکل ڈھول بجانے کے مترادف ہے جسکی بلند آواز اور تھاپ پر بھنگڑا ڈالا جا سکتا ہے، رقص کیا جا سکتا ہے اور دھمال ڈالی جا سکتی ہے مگر اسے موسیقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس فن سے تعلق رکھنے والے اُستادوں کو اہمیت دے اور اسکی سر پرستی کرے۔ ہمارے ملک میں عموماً یہی ہوتا ہے کہ شور شرابا کرنے والے افراد ہی شور مچا مچا کر مفادات حاصل کر لیتے ہیں اور حقیقی افراد خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں موسیقی کے اُستادوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے مگر وہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔

اساتذہ نئی نسل کی تربیت اور رہنمائی کریں:اندریاس داؤ تاج

آل پاکستان  میوزک کانفرنس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے گورنمنٹ کالج لا ہور کے طالبعلم گلوکار، طبلہ نواز اور کئی سازوں میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والے اندریاس داؤد تاج کا کہنا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں تقر یباً تمام افراد موسیقی کے دلدادہ ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں کوئی بھی ایسا بندہ نہیں دیکھا کہ جسے موسیقی سے لگاؤ نہ ہو مگر اب اس شعبے میں وہ افراد بھی آ گے بڑھ رہے ہیں، جنہیں اس فن کی بنیاد کا خاص علِم ہی نہیں ہے، اگر مرد کی آواز اچھی ہے تو وہ صرف اُسی خوبی سے نقل کرکے فائدہ اٹھانے کی کو شش کرتا ہے، اور اگر عورت کی شکل اچھی ہے تو لوگ موسیقی سننے نہیں آ تے بلکہ ’’موسیقی دیکھنے ‘‘  آ تے ہیں۔ لیکن اگر کسی کی آ واز اچھی ہے تو اُسے مکمل طور پر فن ِ گائیکی سیکھنا چاہیے ایک خوبی اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، دوسری خوبی خود محنت و ریاضت سے اپنے اندر پیدا کرنی پڑ تی ہے۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے بے شمار اعزازات حاصل کئے، مگر اصل اعزاز وہی ہوتا ہے جو عوام کی پسندیدگی کی وجہ سے آ پ کو محبت وسکون مِلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اس فن کے اُستادوں سے التماس کرتا ہوں کہ وہ اس فن کی معراج کیلئے آپس میں اکٹھے بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کریں۔ نئی نسل کی تربیت اور راہنمائی کریں، اپنے فن موسیقی کے دروازے طالبعلموں کیلئے ہر وقت کھلے رکھیں۔ اگر یہ شکایت ہے کہ نئے فن کاروںکی توجہ سیکھنے کی جانب نہیں ہے مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اُستاد نئی نسل تک اپنا فن منتقل کرنے پر تیار بھی ہیں یا نہیں؟ کیا انھوں نے اپنے فن ِموسیقی کے دروازے نئے آنے والوں کیلئے بند تو نہیں کئے ہوئے ؟ کیا وہ معقول رقم حاصل کئے بغیر کچھ سکھانے کیلئے تیار نہیں ہیں؟ اور بھی ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

اصل موسیقی روح کی غذا اور تیز میوزک روح کو جھنجھوڑنے کا نام ہے:ندیم شیخ

اُستاد شبیر حسین جھاری کے شاگرد گلوکار ندیم شیخ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فن موسیقی کی نئی نئی جہتیں روشناس ہو رہی ہیں، مگر اصل موسیقی کلاسیکل ہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے اُستاد کو اللہ تعالیٰ نے پرائیڈآف پرفارمنس سے نوازا ہے انھیں اس فیلڈ میں پچاس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے مگر وہ آج بھی اپنے آ پ کو موسیقی کا طِفل مکتب سمجھتے ہیں مگر اس وقت حیرت ہوتی ہے کہ جب موسیقی کی مکمل سوجھ بوجھ والوں کا متکبرانہ انداز دیکھتے ہیں، اور ایک دو گانوں سے ہٹ ہو جانے والے اپنے آ پ کو موسیقی کا ’’ سٹار ‘‘ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہر دور میں شائقین موسیقی کی پسند نا پسند بدلتی رہتی ہے، جب نئی چیزیں سامنے آتی ہیں تو لوگ اس  ’’ تبدیلی ‘‘  کو قبول بھی کرتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں کہ نئی چیزدل کو بھاتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی نئی چیز ہٹ ہوتی ہے تو سب لوگ اس کی نقل کرنا فن سمجھتے ہیں، پھر جب کوئی اور نئی چیز سامنے آ تی ہے تو لوگ پُرانی چیز کو بھول کر اس نئی چیز کی طرف ہو جاتے ہیں، ہر دور میں موسیقی میں جدت ضرور پیدا ہوئی ہے کہ کسی بھی چیز کا سفر جاری رہنا زندگی کی علامت ہے۔ جمود کا نام موت ہوتا ہے مگر یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ وہی گیت اور موسیقی امّر رہتی ہے، جس میں فنی مضبوطی موجود ہو،’’سُر تال اور لے‘‘ کا ملاپ ہی اصل میوزک ہے ؟ اس وقت تیز میوزک کا دور ہے کہ اب زندگی میں وہ پہلے جیسا سکون اور تنوع نہیں رہا مگر تیز میوزک بھی موسیقی کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے، ڈھول بجانے اور موسیقی کی چاشنی میں کچھ فرق روا رکھنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ اصل موسیقی روح کی غذا ہے اور تیز میوزک روح کو جھنجھوڑنے کا نام ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے اُستاد ور سٹائل فنکار ہیں کہ جو موسیقی کی ہر جہت میں طبلہ بجا لیتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔