کرونا… ہلاک خیز وائرس

سرور منیر راؤ  اتوار 2 فروری 2020

کرونا وائرس ایک ایسا نامعلوم مرض ہے کہ جس کا علاج اب تک دریافت نہ ہو سکا ہے۔ اس وائرس کی ایک درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ کرونا وائرس کو جب خوردبین سے دیکھا جائے تو اس کے کناروں پر ایسے ابھار نظر آئے جو عموما تاج کی شکل بناتے ہیں۔ اس لیے اس وائرس کا نام کرونا وائرس رکھ دیا گیا۔

کرونا لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ لاطینی میں کرونا تاج کو کہتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق انیس سو ساٹھ میں پہلی بار کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا۔ مجموعی طور پر کرونا وائرس کی اب تک 13 اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ ان 13  اقسام میں سے سات اقسام ایسی ہیں جو انسانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں باقی اقسام جانوروں اور پرندوں پر حملہ آور ہوئی ہیں۔

چین کے شہر وہان میں اس ہلاکت خیز وائرس کی وجہ سے نظام زندگی معطل ہے۔ ہر طرف خوف و ہراس کی فضا ہے شہر ویرنے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ لوگ گھروں میں مبحوص ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ تو اس شہر سے کوئی باہر جا سکتا ہے اور نہ ہی دوسرے شہر سے یہاں آ سکتا ہے۔ اس شہر کی سماجی اور تجارتی زندگی مفلوج ہو چکی ہیں تعلیمی ادارے بند ہیں ۔ ریسٹورنٹ کے مراکز ہُو کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود کرونا وائرس وہان شہر سے نکل کر چین کے کئی دوسرے شہروں میں پہنچ چکا ہے۔

پورے ملک میں ایمرجنسی کی سی کیفیت ہے۔ تمام اسپتالوں میں خصوصی وارڈ بنا دیے گئے ہیں۔ وائرس کے علاج کے لیے خصوصی اسپتال بھی بنائے گئے ہیں جہاں وائرس کے مریضوں کو رکھا جا رہا ہے۔ وھان کا شہر چین کے وسطی صوبے ’’ہوبھی‘‘ کا دارالحکومت ہے۔ چند ہفتے قبل اس شہر میں زندگی پوری طرح رواں دواں تھی لیکن آج پورا شہر ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے، شہر کی گوشت مارکیٹ جسے wet market”  مارکیٹ کہا جاتا ہے اس میں ایک مہلک وائرس دریافت ہوا۔ یہ وائرس تیزی سے پھیلا۔

اس کے نقصانات کو محدود کرنے کے لیے چینی حکومت میں 23  جنوری سے شہر کو مکمل طور پر پر لاک ڈاون کر دیا، لیکن حفاظتی اقدامات سے پہلے ہی یہ وائرس اس شہر سے نکل کر چین کے کچھ اور شہروں تک پہنچ گیا۔ اب یہی وائرس گلوبل ولیج کی وجہ سے ٹریول کرتا ہوا، دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک میں پہنچ چکا ہے جن میں امریکا برطانیہ اٹلی اور یورپ کے کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔اس وائرس کی وجہ سے چین کے ہمسایہ ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

چین کیونکہ دنیا کی دوسری بڑی اکانومی تصور کیا جاتا ہے اس لیے دنیا بھر سے تاجر اور سیاح کثیر تعداد میں روزانہ چین آتے اور جاتے ہیں۔ یہی آمد و رفت اس وائرس کو پھیلانے کا سبب ہے۔عالمی ادارہ صحت نے بھی کرونا وائرس کو عالمی خطرہ قرار دیا ہے۔ اب تک جو مہلک امراض سامنے آئے ہیں، ان میں نمونیا، ایڈز، طاعون، ڈینگی، سارس، ہیضہ، خسرہ اورایبولا جیسے امراض شامل ہیں۔ یوں تو مختلف بیماریاں انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن جب کوئی مہلک وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو صورتحال مختلف ہو جاتی ہے۔

اب تک دنیا میں کئی ایسی بیماریوں اور وائرس نے سر اٹھایا ہے کہ جس کا علاج نہ ہونے سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ ایچ آئی وی ایڈز کے وائرس سے بھی اموات ہوئی۔ مغربی افریقہ کے تین ممالک میں چند سال پہلے ای بولا وائرس سے گیارہ ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ سن 2009میں ’’ایچ ون این ون‘‘ وائرس سے قریبا ایک ہزار افراد اس سے لقمہ اجل بنے۔

2003 میں سانس کی بیماری ’’سارس‘‘ نے 800 سے زائد افراد کو نگل لیا۔کرونا وائرس پھیلنے کی اصل وجہ کیا ہے اس حوالے سے حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی لیکن زیادہ گمان یہی ہے کہ یہ یا تو چین کی فوڈ انڈسٹری یا وہاں کے لوگوں کی غذائی عادات کی وجہ سے پھیلا ہے یا پھر ایسے جانوروں اور حشرات الارض کا گوشت کھانے سے پھیلا ہے جن کو اسلام نے انسان کے لیے حرام قرار دیا ہے۔

ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ چمگادڑ اور سانپ کے سوپ کے استعمال سے بھی یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔ زمین پر رینگنے اور فضا میں اڑنے والے کچھ پرندے ایسے ہیں جن کے گوشت میں ایسے وائرس اور جراثیم موجود ہوتے ہیں کہ اگر وہ انسانی جسم میں منتقل ہو جائیں تو ان کا علاج آسانی سے ممکن نہیں۔ چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں جانوروں اور پرندوں کے گوشت کو پوری طرح پکائے بغیر کھا لیا جاتا ہے۔

متضاد اطلاعات اور مصدقہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک تشویش میں مبتلا ہیں ہیں، کئی ممالک کی اسٹاک ایکسچینج اور تجارتی کمپنیوں کو خسارے کا سامنا ہے۔ چین سمیت ہانگ کانگ اور دوسرے قریبی ممالک جن کے باشندے مقیم ہیں یا ان کی تجارتی آمد و رفت ہے وہاں خوف کے اثرات نمایاں ہیں۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے چین کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں چینی ائیرلائن کو بھی پروازیں چلانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے چین کا تجارتی حجم متاثر ہو رہا ہے۔

دنیا بھر کے سیاحوں نے چین کی سیاست کو ترک کر دیا ہے چین کی ہوٹل انڈسٹری اور مواصلات کا نظام بھی متاثر ہوا ہے۔ان دنوں چین کے مختلف شہروں میں ہونے والے کھیلوں کے مقامی اور بین الاقوامی مقابلوں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ چین کے اسپتال میں میں اسپتالوں میں وائرس کا ٹیسٹ کرانے والے مریضوں کا رش بڑھ گیا ہے پاکستان کے سیکڑوں طلبا اور تجارت سے منسوب افراد بھی چین میں ہیں، ان میں سے اکثریت پھنس کر رہ گئی ہے۔ پاکستان کے سرحدی راستے کے قریب ترین شہر ارمچی میں بھی بہت سے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔

حفاظتی اقدامات کے پیش نظر پاکستان نے بھی خنجراب کے مقام پر پاک چین سر حد بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تھرکول اور گوا د ر میں کام کرنے والے چینی باشندوں کا خصوصی طبی چیک اپ کیا جا رہا ہے۔ آیندہ پاکستان آنے والے چینی باشندوںکو میڈیکل چیک اور کلیرنگ سر ٹیفیکیٹ سے مشروط کیا گیا ہے۔ کرونا وائرس نے چین اور دنیا کے مختلف ممالک کو کس حد تک سماجی معاشی اور جانی نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ ابھی لگانا مشکل ہے۔ اس وائرس کے پھیلا اور ہلاکت خیزی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو دنیا بھر میں میں اس کے معاشی اثرات بھی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔